پاک بھارت تعلقات اور معیشت کی ترقی

پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دے تو جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی.

پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی سنگین اور تصفیہ طلب تنازعات موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

بھارتی وزیر برائے امور خارجہ سلمان خورشید نے پسندیدہ ملک قرار دیے جانے سے متعلق کہا ہے کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دے تو جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے نئی دہلی میں سائوتھ ایشیا یونیورسٹی بنائی جارہی ہے۔

بھارتی میڈیا کے حوالہ سے سلمان خورشید نے نئی دہلی میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اس اعتبار سے خوش آیند ہیں کہ اب برصغیر کی سیاست رفتہ رفتہ عملیت پسندی اور زمینی حقائق کے ادراک اور نفرت کی سیاست سے گریز کی طرف پیش رفت میں مصروف ہے جس کے خطے کی اقتصادی اور اسٹرٹجیکل محاذوں پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ یہ دو طرفہ تعلقات کی نئی جدلیات اور حرکیات کا باعث بھی بنے گی ۔

یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سنگین اور تصفیہ طلب تنازعات موجود ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر ہے تاہم اسی افہام وتفہیم سے تمام مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ایک دن نکل ہی آئے گا جب کہ مسائل کی جذباتی اورسیاسی نوعیت کا دونوں حکومتوں کو اسیر نہیں رہنا چاہیے ، اس ضمن میں احتیاط لازم اورلائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا جواز اشتعال انگیزی سے دو طرفہ تعلقات کے عمل کو نقصان پہنچنے والے اقدامات سے گریز بھی ناگزیر ہے اور عصری تقاضہ ہے کہ اوپن ڈپلومیسی کے تحت غیر مشروط مکالمہ اور خیر سگالی کے انداز نظر کے ساتھ پاکستان اور بھارت اس سمت میں نتیجہ خیز پیش قدمی کریں جس میں بھارتی ویزے کے اجرا ء میں نرمی اور شفاف وسہل میکنزم کی اشد ضرورت ہے۔


یہ امر خوش آیند ہے کہ پاک بھارت امن مذاکرات کی روشنی میں اب ویزے کی 8 کیٹیگریز پر 15 جنوری2013 ء اور 15 مارچ2013 ء کو عمل درآمد شروع ہوجائیگا، جس کے بعد پاکستانی شہریوں کو حصول ویزا کے لیے کراچی،کوئٹہ اور پشاور سے اسلام آباد یاترا اور واہگہ اٹاری چیک پوسٹ کی بندش سے نجات ملنی چاہیے، تاجروں ، صحافیوں اور ادبا وشعرا کی مانیٹرنگ سے گلو خلاصی بھی شرط ہے۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ کراچی کا بھارتی قونصل خانہ اور کھوکھرا پار اور راجستھان کے دیگر راستے بھی کھولے جائیں تاکہ اندرون سندھ اور کراچی کے مکینوں کو نئے آپریشنل ویزا معاہدے کے ثمرات سے استفادہ کرنے کی سہولتیں ملیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک وہند کے لاکھوں منقسم خاندان ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کو بیتاب ہیں جو غیر فطری نہیں،معاملہ صرف دہشت گردوں پر کڑی نظر رکھنے کا ہے۔ ممبئی حملوں میں مطلوب افراد کی حوالگی سے متعلق سلمان خورشید نے کہا ہے کہ اہمیت اس بات کی نہیں کہ پاکستانی وزیر داخلہ نے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران کیا متنازعہ بیان دیا، بلکہ اس بات کی ہے کہ پاکستان نے ممبئی حملوں میں بھارت کو مطلوب افراد کی حوالگی سے متعلق کیا عملی اقدامات کیے، پاکستان اور بھارت کے مابین امن مذاکرات کا انحصار اسی بات پر ہے جب کہ یہی موقف پاکستان کا ہے کہ بھارت بھی انسداد دہشت گردی کے اقدامات سے اسے آگاہ کرے ۔

پسندیدہ ملک قرار دیے جانے سے متعلق سلمان نے کہا کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دے تو جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ حقیقت میں پاکستان کی پہلی ترجیح جنوبی ایشا کی منڈیوں میں استحکام اور خطے کی اقتصادی ترقی کے عمل میں سٹیک ہولڈرز کے اشتراک عمل کو یقینی بنانا ہے۔پاک بھارت امن و دوستی کا کارواں اسی راستے سے منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اسی پر چل کر بھارتی وزیر برائے امور خارجہ کو اپنے خواب کی من پسند تعبیر مل سکتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عام شہری ناشتا ایک ملک، میں دوپہر کا کھانا دوسرے اور رات کا کھانا تیسرے ملک میں کھائیں، یہ اطلاع خوش آیند ہے کہ کرکٹ پاکستان اور بھارت کو قریب لارہی ہے۔ کھلاڑی تو یوں بھی دوستی اور انسانیت کے سفیر کہلاتے ہیں، تاہم ڈپلومیسی اور سفارت کاری میں کرکٹ لیجنڈ جاوید میانداد کو ویزے کے اجراء کے بعد بدمزگی جیسے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے ۔بھارتی مبصر راجیو شنکر نے اس پر سنجیدہ تبصرہ کیا جس کے نکات پر بھارتی حکام کو توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story