حالات حاضرہ اور خیالات حاضرہ
باتیں تو بہت ہیں اور رونا دھونا ختم ہی نہیں ہو سکتا۔
میرے مہربان قاضی صاحب بھی چلے گئے۔ قوم کو تو رہنما مل جائیں گے مگر میرے سرپرستوں اور کرمفرمائوں کا سلسلہ بہت ہی محدود ہو گیا ہے۔ نہ پروفیسر غفور اور نہ اب قاضی صاحب، میں اس تنہائی اور بے کسی سے نکلوں گا تو ان کی ذات گرامی پر کچھ عرض کروں گا۔
پاکستان بھارت کے خلاف کرکٹ کی ون ڈے سیریز جیت کر مگر مکمل جیت میں آخری میچ ہار کر بھارت پر مکمل برتری سے محروم ہو گیا۔ میں ان دنوں ڈاکٹروں کی سخت وارننگ کی تعمیل میں سردی سے چھپ چھپا کر گھر میں بند رہتا ہوں، اس لیے کیا کرتا، خلاف عادت کرکٹ میچ دیکھتا رہا اور تعجب کرتا رہا کہ ہم نے تین میں سے پہلے دو میچ کس طرح جیت لیے۔
کیا ہماری عقل ماری گئی تھی یا کچھ پاکستانی کھلاڑی ضد کر گئے تھے لیکن اس سیریز کی مکمل جیت میں مجھے معلوم نہیں کیا ہوا کہ ہم تیسرا میچ خواہ مخواہ ہار گئے اور دلی کے کرکٹ میدان میں بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں ناک رگڑنے سے بچا لیا۔ بہرکیف اسے تو چھوڑئیے کرکٹ چلتی ہی رہتی ہے اور چلتی رہے گی۔ ایک دلچسپ صورت حال ملاحظہ فرمائیے کہ بے رحم تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
میں اس عبرت انگیز واقعہ کو بیان کر چکا ہوں اور بڑے شرم اور دکھ کے ساتھ کہ ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا سرکاری شاہی دورہ کیا، اب تک یہ ان کا آخری دورہ تھا۔ انھوں نے قومی اسمبلی کی عمارت میں بعض مہمانوں کو ملنا پسند کیا چنانچہ ان مہمانوں میں اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر جن کا تعلق سندھ سے تھا اور سینیٹ کے چیئرمین بھی شامل تھے جو ایبٹ آباد کے تھے مگر لاہور میں مستقل قیام رکھتے تھے اور یوں پنجابی تھے، ان دونوں اعلیٰ ترین منتخب اداروں کے سربراہوں نے ملکہ معظمہ برطانیہ عظمیٰ سے مودبانہ اور فدویانہ عرض کیا کہ ملکہ عالیہ ہم تو پہلے کی طرح اپنے آپ کو آج بھی آپ کی رعایا ہی سمجھتے ہیں۔
یہ خبر اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار میں نمایاں طور پر چھپی اور میں ایک دن نہیں کئی دن اس کی وضاحت یا تردید کا انتظار کرتا رہا، اس کے بعد میں نے کسی کالم میں اس کا متاسفانہ ذکر کیا۔ یہ خبر جو ایک سانحہ کی اطلاع تھی قارئین کے دلوں سے گزر گئی اور انھیں رلا گئی۔ یہ بات مجھے تازہ صورت حال میں یاد آئی جب یہ معلوم ہوا یہ پرانی بات پھر تازہ ہوئی ہے کہ ہمارے دو خارجہ لیڈر یعنی ڈاکٹر شیخ الاسلام طاہر القادری اور محترم الطاف حسین دونوں نے کینیڈا اور برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جس عہد نامہ پر دستخط کیے اس میں واضح طور پر ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا ذکر ہے ۔
کینیڈا دولت مشترکہ کی رکنیت کی صورت میں ملکہ برطانیہ کو اپنا آئینی حکمران سمجھتا ہے اور برطانیہ تو ہے ہی ملکہ کا ملک، یوں اس سے قبل تو ہمارے دو پارلیمانی لیڈروں نے تو زبانی کلامی ملکہ معظمہ سے وفاداری اور ان کی بادشاہت اور حکمرانی کا پھر سے اقرار کیا تھا، اب ہم نے مستقل دستاویز کی صورت میں جو کینیڈا اور برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ میں محفوظ ہے یہ اقرار کیا ہے۔ مہر تصدیق لگا دی ہے۔
ہم پاکستانی کیا ہیں ہماری آزادی کو 66 برس گزر چکے مگر ہم میں سے کوئی نہ کوئی اب تک کسی نہ کسی صورت میں اپنی آزادی کی نفی کرتا رہتا ہے، کبھی نیازمندانہ اور کبھی کسی ضرورت کے تحت۔ ایک خبر چھپی کہ قادری صاحب کے جلوسوں اور جلسوں کے پیچھے امریکا اور برطانیہ کا ہاتھ ہے جس کی ایک امریکی سفارت کار نے تردید کی ہے لیکن ایک پارلیمانی لیڈر نے مزید انکشاف کیا کہ قادری صاحب پاکستان آنے سے پہلے تین ماہ تک امریکا میں مقیم رہے جسے ہمارے ایک دوست نے ریفریشر کورس کا نام دیا ہے۔
بھارت کے ساتھ ہم میچ کھیلتے ہیں جو ایک غیر سیاسی عمل ہے اور کھیل کود کے ضمن میں آتا ہے لیکن اس کھیل میں بھی بھارت کو مکمل شکست سے بچانے کے لیے ایک میچ خوشی خوشی ہار جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے قوم کی یہ حالت بنا دی ہے اور اس کے مورال اور خودی کو اس حد تک گرا دیا ہے کہ دنیا بے تکلفانہ ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے اور کوئی لیڈر کچھ رقم لے کر آتا ہے تو ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر کے لاتعداد افراد کو دور دور سے لاہور میں جمع کر لیتا ہے اور اب اسلام آباد میں بھی اس کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
یہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح دنیا ہمیں غیر سنجیدگی اور آسانی کے ساتھ لیتی ہے، یہ سب کسی آزاد قوم اور ملک میں ممکن نہیں۔ عملاً دیکھا جائے تو ہم ایک نیم آزاد قوم اور ملک ہیں اور دنیا کی ہر طاقت کے سامنے سر جھکا کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ماضی کی پانچ چھ دہائیوں میں ہماری حکومتوں اور حکمرانوں نے جس طرح قوم کے ساتھ سلوک کیا ہے، اس نے ہماری آزادی کے مزے بھی لوٹ لیے اور ہمیں رسوا کر دیا ہے۔ ہم دنیا بھر میں ایک مذاق بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے جرائم کا شمار نہیں، ہم نے پاکستان بنایا تو اعلان کیا کہ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور یہ ایک حقیقت تھی لیکن ہم نے اس آزاد ملک میں قدم جماتے ہی سب سے پہلا وار خود اسلام پر کیا اور اس ملک سے اسلام کی حکمرانی کو ملک بدر کر دیا یا تو ہمارے اسلامی دعوئوں کا عملاً یہ حال تھا لیکن پھر بھی اتنا غلغلہ برپا کر رکھا تھا کہ مصر کے بادشاہ فاروق نے طنزاً کہا کہ اسلام تو 1947 میں نازل ہوا ہے۔
پورے عالم اسلام میں آج پاکستان بھی بس ایک اور مسلمان ملک ہے، باتیں تو بہت ہیں اور رونا دھونا ختم ہی نہیں ہو سکتا جس ملک کے حکمرانوںکے رشوت کے قصے دنیا بھر میں ثبوت کے ساتھ موجود ہوں اور ہماری اور بیرونی عدالتوں میں بھی یہ سب ریکارڈ پر ہوِں، اس ملک کی عزت کون کر سکتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ڈالر میں لین دین دس ہزار سے زیادہ کا ہوتا ہے تو اس کی مستند اطلاع نیو یارک میں موجود ہوتی ہے، ہمارے کسی لیڈر کے بیرونی اثاثے اور بیرونی سرمایہ کس سے مخفی ہے ، آج اگر ہمارا ملک ملکی طالع آزما کا میدان بن جاتا ہے اور پورے ملک کی سیاست اس شعبدہ بازی کے گرد گھومنے لگتی ہے تو اسے کن الفاظ میں بیان کریں لیکن ذاتی طور پر اذیت ناک صورت حال یہ ہے کہ مجھے ہر روز پاکستان کی حالت زار پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہوتا ہے اور میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے۔ ٹھیک بہر حال کوئی ایک ہی ہوتا ہے اور اس کا اظہار لازم ہے۔
پاکستان بھارت کے خلاف کرکٹ کی ون ڈے سیریز جیت کر مگر مکمل جیت میں آخری میچ ہار کر بھارت پر مکمل برتری سے محروم ہو گیا۔ میں ان دنوں ڈاکٹروں کی سخت وارننگ کی تعمیل میں سردی سے چھپ چھپا کر گھر میں بند رہتا ہوں، اس لیے کیا کرتا، خلاف عادت کرکٹ میچ دیکھتا رہا اور تعجب کرتا رہا کہ ہم نے تین میں سے پہلے دو میچ کس طرح جیت لیے۔
کیا ہماری عقل ماری گئی تھی یا کچھ پاکستانی کھلاڑی ضد کر گئے تھے لیکن اس سیریز کی مکمل جیت میں مجھے معلوم نہیں کیا ہوا کہ ہم تیسرا میچ خواہ مخواہ ہار گئے اور دلی کے کرکٹ میدان میں بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں ناک رگڑنے سے بچا لیا۔ بہرکیف اسے تو چھوڑئیے کرکٹ چلتی ہی رہتی ہے اور چلتی رہے گی۔ ایک دلچسپ صورت حال ملاحظہ فرمائیے کہ بے رحم تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
میں اس عبرت انگیز واقعہ کو بیان کر چکا ہوں اور بڑے شرم اور دکھ کے ساتھ کہ ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا سرکاری شاہی دورہ کیا، اب تک یہ ان کا آخری دورہ تھا۔ انھوں نے قومی اسمبلی کی عمارت میں بعض مہمانوں کو ملنا پسند کیا چنانچہ ان مہمانوں میں اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر جن کا تعلق سندھ سے تھا اور سینیٹ کے چیئرمین بھی شامل تھے جو ایبٹ آباد کے تھے مگر لاہور میں مستقل قیام رکھتے تھے اور یوں پنجابی تھے، ان دونوں اعلیٰ ترین منتخب اداروں کے سربراہوں نے ملکہ معظمہ برطانیہ عظمیٰ سے مودبانہ اور فدویانہ عرض کیا کہ ملکہ عالیہ ہم تو پہلے کی طرح اپنے آپ کو آج بھی آپ کی رعایا ہی سمجھتے ہیں۔
یہ خبر اسلام آباد کے ایک انگریزی اخبار میں نمایاں طور پر چھپی اور میں ایک دن نہیں کئی دن اس کی وضاحت یا تردید کا انتظار کرتا رہا، اس کے بعد میں نے کسی کالم میں اس کا متاسفانہ ذکر کیا۔ یہ خبر جو ایک سانحہ کی اطلاع تھی قارئین کے دلوں سے گزر گئی اور انھیں رلا گئی۔ یہ بات مجھے تازہ صورت حال میں یاد آئی جب یہ معلوم ہوا یہ پرانی بات پھر تازہ ہوئی ہے کہ ہمارے دو خارجہ لیڈر یعنی ڈاکٹر شیخ الاسلام طاہر القادری اور محترم الطاف حسین دونوں نے کینیڈا اور برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے جس عہد نامہ پر دستخط کیے اس میں واضح طور پر ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا ذکر ہے ۔
کینیڈا دولت مشترکہ کی رکنیت کی صورت میں ملکہ برطانیہ کو اپنا آئینی حکمران سمجھتا ہے اور برطانیہ تو ہے ہی ملکہ کا ملک، یوں اس سے قبل تو ہمارے دو پارلیمانی لیڈروں نے تو زبانی کلامی ملکہ معظمہ سے وفاداری اور ان کی بادشاہت اور حکمرانی کا پھر سے اقرار کیا تھا، اب ہم نے مستقل دستاویز کی صورت میں جو کینیڈا اور برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ میں محفوظ ہے یہ اقرار کیا ہے۔ مہر تصدیق لگا دی ہے۔
ہم پاکستانی کیا ہیں ہماری آزادی کو 66 برس گزر چکے مگر ہم میں سے کوئی نہ کوئی اب تک کسی نہ کسی صورت میں اپنی آزادی کی نفی کرتا رہتا ہے، کبھی نیازمندانہ اور کبھی کسی ضرورت کے تحت۔ ایک خبر چھپی کہ قادری صاحب کے جلوسوں اور جلسوں کے پیچھے امریکا اور برطانیہ کا ہاتھ ہے جس کی ایک امریکی سفارت کار نے تردید کی ہے لیکن ایک پارلیمانی لیڈر نے مزید انکشاف کیا کہ قادری صاحب پاکستان آنے سے پہلے تین ماہ تک امریکا میں مقیم رہے جسے ہمارے ایک دوست نے ریفریشر کورس کا نام دیا ہے۔
بھارت کے ساتھ ہم میچ کھیلتے ہیں جو ایک غیر سیاسی عمل ہے اور کھیل کود کے ضمن میں آتا ہے لیکن اس کھیل میں بھی بھارت کو مکمل شکست سے بچانے کے لیے ایک میچ خوشی خوشی ہار جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے قوم کی یہ حالت بنا دی ہے اور اس کے مورال اور خودی کو اس حد تک گرا دیا ہے کہ دنیا بے تکلفانہ ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے اور کوئی لیڈر کچھ رقم لے کر آتا ہے تو ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر کے لاتعداد افراد کو دور دور سے لاہور میں جمع کر لیتا ہے اور اب اسلام آباد میں بھی اس کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
یہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح دنیا ہمیں غیر سنجیدگی اور آسانی کے ساتھ لیتی ہے، یہ سب کسی آزاد قوم اور ملک میں ممکن نہیں۔ عملاً دیکھا جائے تو ہم ایک نیم آزاد قوم اور ملک ہیں اور دنیا کی ہر طاقت کے سامنے سر جھکا کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ماضی کی پانچ چھ دہائیوں میں ہماری حکومتوں اور حکمرانوں نے جس طرح قوم کے ساتھ سلوک کیا ہے، اس نے ہماری آزادی کے مزے بھی لوٹ لیے اور ہمیں رسوا کر دیا ہے۔ ہم دنیا بھر میں ایک مذاق بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے جرائم کا شمار نہیں، ہم نے پاکستان بنایا تو اعلان کیا کہ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور یہ ایک حقیقت تھی لیکن ہم نے اس آزاد ملک میں قدم جماتے ہی سب سے پہلا وار خود اسلام پر کیا اور اس ملک سے اسلام کی حکمرانی کو ملک بدر کر دیا یا تو ہمارے اسلامی دعوئوں کا عملاً یہ حال تھا لیکن پھر بھی اتنا غلغلہ برپا کر رکھا تھا کہ مصر کے بادشاہ فاروق نے طنزاً کہا کہ اسلام تو 1947 میں نازل ہوا ہے۔
پورے عالم اسلام میں آج پاکستان بھی بس ایک اور مسلمان ملک ہے، باتیں تو بہت ہیں اور رونا دھونا ختم ہی نہیں ہو سکتا جس ملک کے حکمرانوںکے رشوت کے قصے دنیا بھر میں ثبوت کے ساتھ موجود ہوں اور ہماری اور بیرونی عدالتوں میں بھی یہ سب ریکارڈ پر ہوِں، اس ملک کی عزت کون کر سکتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ڈالر میں لین دین دس ہزار سے زیادہ کا ہوتا ہے تو اس کی مستند اطلاع نیو یارک میں موجود ہوتی ہے، ہمارے کسی لیڈر کے بیرونی اثاثے اور بیرونی سرمایہ کس سے مخفی ہے ، آج اگر ہمارا ملک ملکی طالع آزما کا میدان بن جاتا ہے اور پورے ملک کی سیاست اس شعبدہ بازی کے گرد گھومنے لگتی ہے تو اسے کن الفاظ میں بیان کریں لیکن ذاتی طور پر اذیت ناک صورت حال یہ ہے کہ مجھے ہر روز پاکستان کی حالت زار پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہوتا ہے اور میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے۔ ٹھیک بہر حال کوئی ایک ہی ہوتا ہے اور اس کا اظہار لازم ہے۔