بوڑھا ہونا ضروری تو نہیں
میں نئی تلوار لاتا ہوں خبردار کوئی اپنی جگہ سے جنبش نہ کرے
KARACHI:
کل سے میں بس اسی طرح کا الٹا سیدھا سوچ رہا ہوں اور میری طرح کا کوئی بھی شخص اسی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگتا ہے، جب اس کا وزن بڑھنے لگے ، ذہن تھکنے لگے ، گھٹنوں میں درد محسوس ہونے لگے، فرش پر پڑی کوئی شے اٹھاتے ہوئے لگنے لگے کہ اگر نہ گرتی تو کتنا اچھا ہوتا ،کم ازکم جھکنا تو نہ پڑتا ، جھک کے سیدھا ہونے کی مشقت تو نہ ہوتی اور پھر گھر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی پریشان ہوجائے کہ جاؤں کہ نہ جاؤں۔جانے سے کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا،نہ ہوا تو کیا ہوگا......
بوڑھا ہونے کے لیے بوڑھا ہونا ضروری نہیں۔بالکل ایسے، جیسے ایک لحیم شہیم چھ فٹا باڈی بلڈر ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ اعصاب بھی اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ بالکل ایسے ، جیسے اچھی خوراک اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ کا جسم اور اعصاب عمر کے اعتبار سے بہتر کارکردگی دکھاتے رہیں گے۔ وقت اور حالات سازگار نہ ہوں تو ان کا مسلسل ناسازگار ہونا کسی کو بھی قبل از وقت ضعیفی ، جانے انجانے خوف اور اعصابی کمزوری میں مبتلا کرسکتا ہے۔کسی بھی فرد کو ، کسی بھی سماج کو ، کسی بھی قوم کو ، کسی بھی ملک کو...
مثلاً یاد کریں کہ 1947ء میں کیا کیا نہ ہوا۔کیسی بے سروسامانی تھی ، کیسی کیسی عجیب و غریب رکاوٹیں تھیں۔مگر خود پر یقین کا نشہ تمام تکالیف سے سوا تھا۔کتنا زندگی بخش تھا یہ گمان کہ کل کا سورج آج کے سورج سے بہتر ہوگا۔کرسی نہیں تو کیا ہوا، بیٹھنے کو پتھر تو ہے۔ میز نہیں تو کوئی بات نہیں درخت کے تنے کا ٹکڑا ہی میز ہے۔ پیپر کلپ کل ہم خود بنا لیں گے، آج ببول کے کانٹے کو بھی پیپر کلپ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوا نہیں تو کون سی قیامت آ گئی ، زخم دھونے کے لیے پانی تو ہے۔الف ب ت پڑھانے والے ہیں تو اسکول بھی بنتے رہیں گے۔گھر نہیں تو کیا غم۔کم ازکم زمین توہے۔آج جھونپڑی ہے مگر اپنی ہے۔کل یہی جھونپڑی پکا مکان بن جائے گی۔
نیا نیا چلنے والا بچہ ہو کہ ملک، چلتے چلتے تھکنا کہاں آتا ہے۔اس میں تو بجلی بھری ہوتی ہے، وہ تو چھلاوا ہوتا ہے۔یہ نچلا بیٹھنے کی عمر تھوڑی ہے۔آرام کرنے کے لیے تو پوری زندگی ہے۔ٹھیک ہے کسی فیض احمد فیض نے یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر لکھ دیا ہوگا۔لیکن یہ شاعر لوگ تو جانے کیا الٹا سیدھا سوچتے رہتے ہیں۔ ان کے کہے کا کیا اعتبار۔
بہت حساس سے تھے، نئے ملک کے نئے نئے لوگ۔ذرا سی زیادتی پر بھی مٹھیاں بھینچ لیتے تھے۔ منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتی تھی۔کرائے دار تھوڑی تھے ، خود کو مالک سمجھتے تھے۔ تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے یہ ملک ، ایسا کہتے تھے۔ انگریز کی طرح ڈنڈا چلایا تو بتیسی نکال کر ہاتھ پر رکھ دیں گے ، ایسا کہتے تھے۔طلبا سیاست پر پابندی برداشت نہیں ہوگی، لو مارو گولی۔صرف اردو نہیں بنگالی بھی ، لو مارو میرے سینے پر گولی۔آمریت مردہ باد۔تمہاری ہتھکڑیاں ختم ہوجائیں گی ہمارے ہاتھ ختم نہیں ہوں گے ، ایسا کہتے تھے۔قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے...ایسا کہتے تھے۔
اور پھر لاہور کی چھتوں پر بھارتی اور پاکستانی فضائیہ کی ڈاگ فائٹ دیکھنے کے لیے زن و مرد و طفل ایسے چڑھ جاتے تھے جیسے بم نہیں پھول برسیں گے۔ بلیک آؤٹ ؟؟؟ کون سا بلیک آؤٹ ؟ حفاظتی خندق ؟ کیسی خندق۔اوئے اینہاں دی تے میں...کیا کہا ،اسرائیل نے عربوں پر حملہ کردیا...اوئے اینہاں دی تے میں... یہ جلوس کیا نعرے لگا رہا ہے...جی یہ جلوس ویتنام زندہ باد، امریکا مردہ باد کے نعرے لگا رہا ہے...اوئے امریکا دی تے میں...خنجر چلے کسی پے تڑپتے ہیں ہم امیر...
تب تک اس قوم کے اعصاب اتنے مضبوط تھے کہ 1971 بھی پی گئی۔جیسے کوئی بچہ درخت سے پھسل کر زمین پر گرتا ہے، ادھر ادھر دیکھتا ہے ، کھسیانی سی ہنسی ہنستا ہے اور کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔کیا ہوا جو ملک ٹوٹا خواب تو نہیں ٹوٹا...اورلے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا... اب اسی کو بنائیں گے، پچھلی غلطیاں درست کریں گے۔ ٹیڑھی دیوار سیدھی کریں گے۔گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اوردیں گے...نیا پاکستان...ہیں جی نیا پاکستان... کیوں جی نیا پاکستان...واہ جی واہ نیا پاکستان...
اور پھر نیا پاکستان بیچنے والا خواب فروش اپنے ہی بنائے ہوئے رسے سے جھول گیا۔اور اس کی جگہ وہ آگیا جس کے بارے میں لوگ کہنے لگے کہ پرانے تو مار کر چھاؤں میں ڈالتے تھے یہ تو دھوپ میں مار کر دھوپ میں ہی ڈالتا ہے۔چھ فٹ کے ایوب کے لیے تو ایک حبیب جالب تھا لیکن ایوبی پی کیپ لگائے ہوئے اس پانچ فٹ چار انچ والے نے کچھ ایسے ہاتھ دکھائے کہ جالبوں کی پوری فصل اگ آئی...صرف ایک فراز تھوڑا تھامحاصرہ لکھنے والا...مزاحمتی شاعری کے کھیت میں ایک سے ایک ون سوونا شگوفہ پھوٹ پڑا۔
غنیمِ شہر پے تازہ وحی کے ساتھ
امریکی خدا نے اک نیا جبریل بھیجا ہے۔
ہمارے دیوتا کا تم پے سایہ ہے
سو بے خوف و خطر تلوار کے بل پر
عوام الناس سے کہہ دو
کہ اس ویراں کھنڈر پے رنگ و روغن کردیا جائے۔
ادھڑتے فرش کے سب داغ دھبے
حق پرستوں کے لہو سے دھو دیے جائیں۔
عمارت کی مرمت اس طرح کی جائے
کہ سارے عیب چھپ جائیں۔
غنیم شہر پے یہ حکم آتے ہی
نکل آئے ہیں غاروں سے وہ سب ملا
کہ جو مصروف تھے بلی پکڑنے میں
اب ان کے ہاتھ میں تسبیح کے بدلے تغاری ہے
وہ سارے سورما ہاتھوں میں اپنے جبر کی کرنی لیے
مصروف ہیں پیوندکاری میں۔
کہ جن کی وردیاں تمغے
کماں بردوش دشمن کے عجائب گھر کی زینت ہیں۔
یہ پیوند کار یہ بوسیدگی کو لیپنے والے
رکاوٹ ہیں نئی تعمیر کے رستے میں صدیوں سے۔
میں اب اکتا چکا ہوں۔
میں اب اکتا چکا ہوں ، سو اب میری بلا سے
اس عمارت کو گراؤ یا اسی میں دفن ہوجاؤ۔
اور پھر اعصاب و جسم بوڑھا ہونے لگا۔بوڑھا ہونے کے لیے بوڑھا ہونا ضروری تو نہیں۔حالات کے مسلسل کوڑے پڑتے رہیں تو رستم کی پیٹھ بھی چھالا ہوجاتی ہے۔کیا ولولے والے لوگ تھے ہم بھی...
اور آج بار بار اس تاتاری سپاہی کا قصہ یاد آتا ہے جس نے اہلِ بغداد کو ایک قطار میں بٹھا کر یہاں سے وہاں تک سر قلم کرنا شروع کردیے۔بیچ قطار تک پہنچتے پہنچتے تاتاری کی تلوار کند ہوگئی۔کہنے لگا، میں نئی تلوار لاتا ہوں خبردار کوئی اپنی جگہ سے جنبش نہ کرے...اور کسی نے جنبش کیا اف تک نہیں کی...