پاک بھارت تعلقات کی جہتیں
پاک بھارت سرحد کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب یہاں خاموشی طاری ہو گئی ہے
پاک بھارت سرحد کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب یہاں خاموشی طاری ہو گئی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع من موہن پاریکر نے کہا ہے کہ ''سرحد کا درجہ حرارت نیچے گر چکا ہے'' اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات میں بہتری لانے پر تیار ہو گئے ہیں جو کہ ستر سال قبل تقسیم کے وقت سے ہی خراب چلے آ رہے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر دونوں ملکوں کو اپنے دفاعی بجٹ میں تخفیف کرنا ہو گی۔ ہم نے حقیقی معنوں میں کوئی تخفیف نہیں کی سوائے برائے نام کمی کے۔
بدقسمتی سے بھارتی وزیر دفاع کا بیان کہ ''بھارت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر طور پر مسلح ہو چکا ہے''۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم دفاع پر کس قدر زیادہ اخراجات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی اپنے دفاعی اخراجات میں کوئی خاص کمی نہیں کی جس سے مجھے سرد جنگ کا دور یاد آتا ہے جب امریکا نے روس کو اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو دفاع کے لیے استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھاجس کے نتیجے میں اسکولوں' اسپتالوں اور عوامی کونسلوں کے لیے بہت تھوڑی رقم بچی۔ اس طرح سوویت روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ملک کے بہت سے حصے بخرے ہو گئے۔ مثال کے طور پر یوکرائن آزاد ہو گیا۔
سوویت صدر ولادی میر پیوٹن نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ یوکرائن روس کا حصہ ہے لیکن یوکرائنی آزادی کی تحریک روسی صدر کے بیان کا مذاق اڑاتی ہے۔ روس کی زیادہ تر فوجیں سرحدوں پر کھڑی ہیں۔ پاکستان پر اس کا اثر اس انداز سے پڑ رہا ہے کہ وہاں جو بھی تھوڑی بہت جمہوریت ہے وہ اس صورت حال سے متاثر ہو رہی ہے۔ اسلام آباد کی تشویش یہ ہے کہ طالبان پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام آباد خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ہر دوسرے دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں بم دھماکا ہو رہا ہے جس سے معصوم لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو دہشتگردوں کے خدشے کا سامنا ہے۔ادھر حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی لیکن اقوام متحدہ میں یہ اکثریتی مطالبہ تھا۔ غالباً اب اسلام آباد کے بھی سنگینی کا احساس کر لیا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انھیں کب تک گھر میں نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں 2008ء میں بھی حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا لیکن 2009ء میں عدالت نے انھیں رہا کر دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم حافظ سعید کی پاکستان میں گرفتاری پر زیادہ توجہ دیں یا ان کے وزیر دفاع کے بیان کو سنجیدگی سے لیں۔
پاکستان میں حالات پر نگاہ رکھنے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ حافظ سعید کے خلاف کیے جانے والا اقدام کوئی نیا نہیں۔ یہ معاملہ گزشتہ دو عشروں سے چل رہا ہے۔ لگتا ہے کہ اس وقت جو یہ اقدام کیا گیا ہے تو پاکستان کے پیش نظر پیرس میں ہونے والا اقتصادی امداد کا اجلاس ہے ۔ ویسے بھی وزیراعظم نواز شریف کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات اسلامی ممالک پر امریکا کے سفر پر پابندی اور پاکستان کے شہریوں کے لیے اسکروٹنی زیادہ سخت کر دیے جانے کی فکر ہے۔
امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کو فکر ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ان کے ملک کو بھی پابندی کا نشانہ بنا دیں تو انھیںامریکا سے واپس بھیج دیا جائے گا۔بھارتی مسلمانوں کے لیے بظاہر ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں لیکن امیگریشن حکام کی اپنی سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔ خدشہ ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہ ویسا ہی سلوک نہ کریں۔
بعض اوقات ایسے افسوسناک واقعات بھی ہوتے ہیں جب بھارت کے چوٹی کے اداکار شاہ رخ خان کی کپڑے اتروا کے تلاشی لی گئی تو بھارتی سفارتخانے کی مداخلت سے اسے بمشکل امریکا میں داخلے کی اجازت ملی، بلکہ خود مجھے بھی امریکا میں داخل ہونے کا تلخ تجربہ ہوا جب میں نے غربی ساحل سے داخلے کی کوشش کی۔
اگرچہ میرے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس کے باوجود انھوں نے میری جسمانی تلاشی پر اصرار کیا۔ امیگریشن افسر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاسپورٹ پر زیادہ تر پاکستان اور بنگلہ دیش کے ویزے لگے ہوئے ہیں۔ اسے اس بات کی سمجھ نہ آ سکی کہ آخر میں ان ممالک کے دورے کیوں کرتا رہا ہوں۔
میری خواہش ہے کہ نئی دہلی وہیں سے سلسلہ جنبانی کا آغاز کرے جہاں وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی چین میں ملاقات میں ٹوٹا تھا۔ ان کے بارے میں اطلاع ملی تھی کہ ان کی بات چیت بڑی مثبت رہی ہے لیکن اس کے باوجود بوجوہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد اُڑی اور پٹھان کوٹ کے واقعات نے رہی سہی امید بھی توڑ دی۔ اور اب جب کہ پاکستان نے حافظ سعید کو گرفتار کر لیا ہے تو آگے بڑھنے کے لیے یہ لازم ہے کہ بھارت کچھ ضمانتیں حاصل کرے۔ ممکن ہے کہ بھارت کو آگے بڑھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے کیونکہ اسرائیل نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم تعلقات کی بحالی پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
بدقسمتی سے بھارتی وزیر دفاع کا بیان کہ ''بھارت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر طور پر مسلح ہو چکا ہے''۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم دفاع پر کس قدر زیادہ اخراجات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی اپنے دفاعی اخراجات میں کوئی خاص کمی نہیں کی جس سے مجھے سرد جنگ کا دور یاد آتا ہے جب امریکا نے روس کو اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو دفاع کے لیے استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھاجس کے نتیجے میں اسکولوں' اسپتالوں اور عوامی کونسلوں کے لیے بہت تھوڑی رقم بچی۔ اس طرح سوویت روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور ملک کے بہت سے حصے بخرے ہو گئے۔ مثال کے طور پر یوکرائن آزاد ہو گیا۔
سوویت صدر ولادی میر پیوٹن نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ یوکرائن روس کا حصہ ہے لیکن یوکرائنی آزادی کی تحریک روسی صدر کے بیان کا مذاق اڑاتی ہے۔ روس کی زیادہ تر فوجیں سرحدوں پر کھڑی ہیں۔ پاکستان پر اس کا اثر اس انداز سے پڑ رہا ہے کہ وہاں جو بھی تھوڑی بہت جمہوریت ہے وہ اس صورت حال سے متاثر ہو رہی ہے۔ اسلام آباد کی تشویش یہ ہے کہ طالبان پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام آباد خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ہر دوسرے دن پاکستان میں کہیں نہ کہیں بم دھماکا ہو رہا ہے جس سے معصوم لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو دہشتگردوں کے خدشے کا سامنا ہے۔ادھر حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی لیکن اقوام متحدہ میں یہ اکثریتی مطالبہ تھا۔ غالباً اب اسلام آباد کے بھی سنگینی کا احساس کر لیا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انھیں کب تک گھر میں نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں 2008ء میں بھی حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا لیکن 2009ء میں عدالت نے انھیں رہا کر دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم حافظ سعید کی پاکستان میں گرفتاری پر زیادہ توجہ دیں یا ان کے وزیر دفاع کے بیان کو سنجیدگی سے لیں۔
پاکستان میں حالات پر نگاہ رکھنے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ حافظ سعید کے خلاف کیے جانے والا اقدام کوئی نیا نہیں۔ یہ معاملہ گزشتہ دو عشروں سے چل رہا ہے۔ لگتا ہے کہ اس وقت جو یہ اقدام کیا گیا ہے تو پاکستان کے پیش نظر پیرس میں ہونے والا اقتصادی امداد کا اجلاس ہے ۔ ویسے بھی وزیراعظم نواز شریف کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات اسلامی ممالک پر امریکا کے سفر پر پابندی اور پاکستان کے شہریوں کے لیے اسکروٹنی زیادہ سخت کر دیے جانے کی فکر ہے۔
امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کو فکر ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ان کے ملک کو بھی پابندی کا نشانہ بنا دیں تو انھیںامریکا سے واپس بھیج دیا جائے گا۔بھارتی مسلمانوں کے لیے بظاہر ایسا کوئی خطرہ موجود نہیں لیکن امیگریشن حکام کی اپنی سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔ خدشہ ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہ ویسا ہی سلوک نہ کریں۔
بعض اوقات ایسے افسوسناک واقعات بھی ہوتے ہیں جب بھارت کے چوٹی کے اداکار شاہ رخ خان کی کپڑے اتروا کے تلاشی لی گئی تو بھارتی سفارتخانے کی مداخلت سے اسے بمشکل امریکا میں داخلے کی اجازت ملی، بلکہ خود مجھے بھی امریکا میں داخل ہونے کا تلخ تجربہ ہوا جب میں نے غربی ساحل سے داخلے کی کوشش کی۔
اگرچہ میرے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اس کے باوجود انھوں نے میری جسمانی تلاشی پر اصرار کیا۔ امیگریشن افسر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاسپورٹ پر زیادہ تر پاکستان اور بنگلہ دیش کے ویزے لگے ہوئے ہیں۔ اسے اس بات کی سمجھ نہ آ سکی کہ آخر میں ان ممالک کے دورے کیوں کرتا رہا ہوں۔
میری خواہش ہے کہ نئی دہلی وہیں سے سلسلہ جنبانی کا آغاز کرے جہاں وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی چین میں ملاقات میں ٹوٹا تھا۔ ان کے بارے میں اطلاع ملی تھی کہ ان کی بات چیت بڑی مثبت رہی ہے لیکن اس کے باوجود بوجوہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد اُڑی اور پٹھان کوٹ کے واقعات نے رہی سہی امید بھی توڑ دی۔ اور اب جب کہ پاکستان نے حافظ سعید کو گرفتار کر لیا ہے تو آگے بڑھنے کے لیے یہ لازم ہے کہ بھارت کچھ ضمانتیں حاصل کرے۔ ممکن ہے کہ بھارت کو آگے بڑھنے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے کیونکہ اسرائیل نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم تعلقات کی بحالی پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)