اس تکلف کی کیا ضرورت ہے

ہم کتنی دہائیوں سے پرامن و پرسکون زندگی سے محروم ہیں


نجمہ عالم February 24, 2017
[email protected]

ہم کتنی دہائیوں سے پرامن و پرسکون زندگی سے محروم ہیں، دہشت گردی کا عفریت کب سے وطن عزیز میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے، اس کا مختصر جواب (بلا اعداد و شمار) یہ ہے کہ ایک نسل عالم خوف میں جوان ہوکر آگے بڑھ چکی ہے اور دوسری نسل جوان ہو رہی ہے، مگر اس کے سدباب کے لیے کیا ہوا، تقریباً25 برس ہوگئے کراچی کو رینجرز کے حوالے کیے ہوئے۔

آج کہا جا رہا ہے کہ کراچی کے حالات میں ان ہی کی وجہ سے بہتری آئی ہے یعنی صرف... بہتری مکمل امن و امان ابھی خواب ہے تو گویا 25 سال جو حالات خراب رہے وہ کیوں رہے؟ دراصل آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں برسوں بعد اب جاکر بہتری آئی اور صرف کراچی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں۔

حالات جب بہت خراب ہوئے تقریباً سب بڑے شہروں کی مساجد، امام بارگاہوں، دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں، اقلیتی بستیوں اور عوامی اجتماعات، ہوائی اڈوں، فوجی مراکز، غیر ملکیوں پر حملے ہوچکے۔ طالبان، القاعدہ کے وجود سے انکار ہوتا رہا بالآخر آر پی ایس پشاور کے سانحے کے بعد آپریشن شروع کیا گیا۔ نتائج اچھے ثابت ہوئے۔ ایک نیشنل ایکشن پلان بھی پلان کیا گیا۔ تمام فورسز کی کارکردگی اپنی جگہ، مگر اس نیشنل ایکشن پلان کا عالم یہ رہا کہ:

جو ہوتا ہے ہونے دو
آنکھوں کو بند رہنے دو

یعنی ملک حالت جنگ سے بڑھ کر عالم وحشت و دہشت میں ہے اور آج تک عوامی اجتماعات، عبادت گاہوں، درگاہوں وغیرہ کے لیے وہ تحفظ فراہم نہ ہوسکا جو ان حالات میں ہونا چاہیے تھا سانحے کے بعد اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات، کمیشن، کمیٹیاں اور جو کچھ سمجھ میں آتا ہے ہوتا رہتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ ''بعد'' کے بجائے اگر ''پہلے'' کچھ کرلیا جائے تو کیا ایسا ہونا ممکن نہیں؟ ذرایع ابلاغ سے اطلاعات ملتی ہیں کہ ایسی اطلاع تھی کہ فلاں شہر یا جگہ پر کچھ ہوسکتا ہے تو گویا اطلاع صرف اطلاع ہی رہتی ہے اس کے مطابق پیش بندی کچھ نہیں؟ تو یہ احساس ہوتا ہے (عام شہری کو) کہ آنکھیں بند رکھنے کی پالیسی پر ہی فی الحال عمل ہو رہا ہے کہ اگر ہماری آنکھیں بند ہیں تو ساری دنیا اپنی جگہ سے غائب ہوچکی ہے، کیونکہ وہ ہمیں نظر نہیں آرہی یا پھر سب ہی کی آنکھیں بند ہیں۔

مگر مشکل یہ ہے کہ جنھیں کرنا ہے جن کی ذمے داری ہے ان کی آنکھیں بند ہوں تو ہوں، پوری قوم تو کھلی آنکھوں بلکہ حیرت زدہ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ آئے دن انسانوں کو اعضا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے۔ پاک سرزمین کو خون سے تر ہوتے ہوئے اور یہ بھی کہ آخر کون سا سانحہ ان بند آنکھوں کو کھولے گا؟

افسوس تو اس بات کا ہے کہ قوم نے بھی ذمے داران کی دیکھا دیکھی خاموشی سے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے، ملک خداداد کو خدا کے سپرد کرکے بیٹھ گئے یہ سوچے بنا کہ:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اللہ تعالیٰ نے تو ایک ضابطہ حیات دے دیا، جو ہم سے مسلسل عمل کا تقاضا کرتا ہے، تقویٰ کیا ہے، مسلسل تزکیہ نفس اور معاشرتی ذمے داری کو بحسن خوبی ادا کرنا۔ جب ہم نے اپنا ضابطہ حیات ازخود طے کرلیا کہ کتنا مال جمع کرنا ہے، کتنی لوٹ مار کرنی ہے، اپنی کرسی بچانے کے لیے چاہے اپنا شہر لہولہان کرنا پڑے یا پورا ملک۔ دوسروں پر الزام عائد کرکے اپنا دامن بچانا ہمارا خصوصی رویہ بن چکا ہے۔

پورے پورے اخباری صفحے پر اپنی اعلیٰ کارکردگی کے اشتہارات چھپوا کر عوام کو بتایا جائے مگر وہ کارنامے جن کا کوئی وجود ہی نہ ہو یا آغاز ہو گیا ہو تو انجام کچھ نہ ہو، اور اگر کوئی منصوبہ واقعی چل رہا ہو تو اس سے کسی معاشرتی ترقی کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ ہاں اگلے انتخابات میں عوام کو ''الّو '' بنانے کے لیے یہ کاغذی منصوبے کافی ہوں گے۔

قومی سطح پر کوئی بھی سیاسی جماعت افراد قوم (بالخصوص متوسط و غریب طبقے) کی خدمت کر رہی ہے اور نہ کرنے کا ارادہ ہے، جمع تفریق، ضرب کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آج کل تو قومی سیاست دو سوکنوں کی لڑائی کا منظر پیش کر رہی ہے، تمہارے پاس اتنا کچھ کہاں سے آیا؟ تو جواب میں یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وہاں سے یا ایسے ، بلکہ جواب ہوگا ''تمہارا باپ تو فلاں فلاں تھا کیا چھوڑ کر مرا تھا، پھر آج تمہارے پاس اتنی جائیداد کیسے ہے؟'' تو پھر جواب ہوگا کہ ہمارے باپ دادا کے بارے میں زبان کھولنے والے اپنی زبان بند رکھیں ورنہ ہمیں گدی سے زبان کھینچنا بھی آتی ہے۔ تم ہماری زبان کیا کھینچو گے ہم تمہاری لاش سڑکوں پر نہ گھسیٹ لیں گے وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کچھ شخصی توہین اور کھلی دھمکیوں کے زمرے میں آتے ہوئے بھی قانونی گرفت میں آنے کے قابل نہیں؟ ہاں ایک فائدہ یہ ضرور ہوگا کہ کوئی غیر مقبول لیڈر خود کو مقبول بنانے میں کچھ کامیاب ہوجائے گا کہ ''ہمارے سیاسی رہنماؤں'' کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ملک و قوم کی خدمت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

حیرت ہوتی ہے کہ نہ ہوا کا رخ دیکھتے ہیں، نہ عالمی صورتحال پر نظر پدرم سلطان بود کے زعم میں کوئی کسی وزارت کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہے تو کوئی کسی قومی ادارے کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہے۔ ملک نہ ہوا ایک پھوہڑ اور نکمی عورت کا گھر ہوگیا جس کا نہ کوئی ضابطہ نہ قاعدہ۔ اگر افق سیاست پر کچھ حرکت ہے تو محض اس لیے کہ اگلے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں لہٰذا ان جماعتوں کو اپنا وجود کسی نہ کسی طرح تو عوام کے سامنے لانا ہے۔ رہے انتخابات تو وہ بھی باسی کڑھی میں ابال کے سوا اور کیا ہوں گے؟

نہ کوئی انتخابی اصلاحات نہ گزشتہ غلطیوں کے ازالے کی ضرورت نہ بدعنوانی، دھاندلی روکنے کے لیے پراثر لائحہ عمل۔ جیسے انتخابات اب تک ہوتے رہے ہیں اگر ویسے ہی آیندہ بھی ہوں تو کیا ضرورت ہے کہ مرے پر سو درے لگائے جائیں؟ کم ازکم ملکی معیشت پر رحم فرما کر انتخابات (دکھاوے کے) ہی نہ کرائے جائیں یوں انتخابی اخراجات کی مد میں لگنے والے اربوں کی بچت ہی ہوگی جو کسی غریب یا فلاحی کام کے بجائے کسی کے غیر ملکی مزید جائیداد بنانے کے ہی کام آسکے گی۔ جب طرز حکمرانی نہیں بدل سکتا تو اس تکلف کی بھلا کیا ضرورت؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں