وہ کون سا ملک ہے
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر مسلسل دکھایا جارہا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں اندھیرے چھٹ رہے ہیں
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر مسلسل دکھایا جارہا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔روشنیاں پھیل رہی ہیں اورملک کے شہروں میں صرف تین گھنٹے اور دیہی علاقوں میں صرف چار گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ ملک میں عشروں قبل کسی نے لوڈ شیڈنگ کا نام نہیں سنا تھا پھرآٹھ سال قبل زرداری دور میں جب ملک میں اندھیرا پھیلا اور دن میں گھنٹوں بجلی بند رہنے لگی تو پتا چلا کہ بجلی جان بوجھ کر بند کیے جانے کو لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے۔ ملک میں جب سی این جی اسٹیشن قائم کرائے اور حکومت گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے تو پتا چلا کہ سوئی گیس بھی گھنٹوں بند کرکے سوئی گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی بلاامتیاز نہیں ہوتی۔کسی شہر میں اورصوبے میں کم تو کہیں نہیں ہوتی اورکہیں بجلی کی طرح جب ضرورت پڑی سوئی گیس بند کردی گئی۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ گھروں میں چولہے جلانے کا وقت ہے اورصبح سویرے خواتین کو پہلے اپنے بچوں کے لیے اور بعد میں گھر کے دیگر لوگوں کے لیے ناشتہ یا کھانا تیارکرنا ہے۔ ضرورت کے وقت چولہا کھولنے پر گیس نہ ملے اور متبادل انتظام نہ ہو تو خواتین پر جو گزرتی ہے وہ حکمران کیا جانیں۔
بجلی اچانک چلی جائے اور ضرورت پر بند ملے تو سردیوں میں مسئلہ کم ہوتا ہے مگر گرمیوں میں بجلی نہ ہو تو واپڈا کو کوس کرگزارا کر ہی لیا جاتا ہے اور پسینے میں شرابورگھروں میں تو رہ لیا جاتا ہے مگرگھروں سے باہر جوکام بجلی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے وہ سب بند اورگھنٹوں انتظار کا عادی سابق حکومت نے بنا ہی دیا تھا اورجب2013 میں ووٹ دینے کا وقت آیا تو عوام نے بھی لوڈ شیڈنگ کرانے والوں کو مسترد کرکے نئے حکمرانوں سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں جنھوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کی تاریخیں بھی دی تھیں بلکہ ایک رہنما نے تو لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے پر اپنا نام بدلنے کی بات بھی کر ڈالی تھی جو اپوزیشن انھیں یاد بھی دلاتی رہتی ہے مگر لوڈ شیڈنگ میں کمی سے عوام خاموش ہی رہتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے ماضی کے برعکس بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ بھی دی ہے مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورتحال اتنی بھی بہتر نہیں ہوئی کہ عوام کو گمراہ کیا جائے کہ سرکاری ہدایت پر بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کردی گئی ہے اور اب صرف شہروں میں تین اور دیہاتوں میں صرف چارگھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔سردیوں میں جب بجلی کی گھروں، دکانوں، تعلیمی، طبی،کاروباری اداروں میں ضرورت بہت ہی کم ہو پنکھے، اے سی سب بند ہوں تو لوڈ شیڈنگ ویسے ہی نہیں ہونی چاہیے۔سردیوں میں لوڈ شیڈنگ پر حیرت کا اظہار تو نیپرا کے ایک اعلیٰ افسر بھی کرچکے ہیں۔
حال ہی میں میڈیا پر خبر آئی کہ وزیربجلی کی صدارت میں سرکاری دفتر میں اعلیٰ سطح اجلاس ہو رہا تھا جس میں غیر ملکی بھی موجود تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی جو لوڈ شیڈنگ ہرگز نہیں ہوگی بلکہ فنی خرابی ہوئی ہوگی اور وفاقی وزیر بجلی کو غیر ملکیوں کے سامنے کہنے کا موقعہ ملا ہوکہ ہمارے ملک میں عوام اور بجلی دفاتر میں کوئی امتیاز نہیں اور بجلی سب کی بند ہوجاتی ہے خواہ وہ حکومتی دفاتر ہی کیوں نہ ہوں۔
کہنے کی حد تک تو حکومت یہ کہہ سکتی ہے مگر عملاً ایسا ہے نہیں بلکہ ہمارے یہاں امتیاز تو ہر جگہ موجود ہے۔ حکمرانوں کے دفاتر اورگھر تو ویسے ہی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور اطلاق صرف عوام کے لیے ہوتا ہے مگر اب تو عوامی سطح پر بھی امتیاز شروع ہوگیا ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا اصول کہیں نظر ہی نہیں آتا۔
حکمران نہ جانے کس کے کہنے پرکہہ دیتے ہیں کہ ملک میں دالوں کی قیمت کم ہوگئی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نصف رہ گئی ہے جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں نہ جانے وہ کون سا ملک ہے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات پر عمل ہو رہا ہے۔ حکمران طبقہ کے لیے عموماً کہا جاتا ہے کہ نہ وہ اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ٹی وی دیکھتے ہیں اور صحافیوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ حقائق سے انھیں آگاہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث وہ حقائق کے برعکس اشیا کے نرخ بتا دیتے ہیں اور سرکاری ٹی وی پر غلط خبریں دے کر انھیں غلط بتایا جاتا ہے کہ ان کی حکومت میں شہروں میں تین گھنٹے اور دیہاتوں میں چند گھنٹے لوڈ شیڈنگ رہ گئی ہے۔
کراچی میں کے الیکٹرک تو شاید علاقہ غیر یا کسی اور ملک میں کام کر رہا ہے جو نہ کسی کی سنتا ہے نہ کسی فیصلوں پر عمل کرتا ہے۔ کے الیکٹرک نے سردیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کم نہیں کی اورکراچی میں وفاق سے بجلی لے کر بھی گرمیوں کی طرح روزانہ کم ازکم چھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کررہی ہے۔ جب ملک کے سب سے بڑے شہر میں حکمرانوں کی ہدایت کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہو تو ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں کون سی لوڈ شیڈنگ کم ہونی ہے۔
ایک وزیر صاحب کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں مرغی کے گوشت کے نرخ کم ہوگئے ہیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا ،لگتا ہے کہ وزیر صاحب کو بھی گمراہ کن خبریں دے کر بیانات جاری کرا دیے جاتے ہیں شاید ہمارے وزراء عملی طور پر عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے اور ان کی تو یہ کوشش رہی ہے کہ عوام کی جیبوں سے مزید ٹیکس نکلوایا جائے اور مہنگائی بڑھائی جائے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نئے ٹیکسوں کا عوام پرکوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ عوام پر تو مہنگائی کا بوجھ بجٹ میں دی گئی تجویز سے ہی بڑھ جاتا ہے اور وہ نہ جانے کون سا ملک ہے جس پر حکومت کے پیش کیے گئے چاربجٹوں کا منفی اثر نہ پڑا ہو۔ دنیا میں پٹرولیم نرخ کم ہوتے ہیں جس کا فائدہ عوام کو دلانے کی بجائے پہلے سے عائد ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرکے حکمران طبقہ عوام کو اس فائدے سے بھی محروم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
پٹرول عالمی سطح پر مہنگا ہو تو ملک میں فوری عمل شروع ہوجاتا ہے اوراگر سستا ہو تو نئے آنیوالے ماہ میں معمولی نرخ کم ہوتے ہیں جس کا ملک میں مہنگائی کم ہونے پرکوئی اثر ہوتا ہے نہ صوبائی حکومتیں پٹرول سستا ہونے کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔گمراہ کن نرخ اور عمل سے محروم سرکاری احکامات پر اب تک پاکستان میں توکبھی اثر نہیں ہوا نہ جانے وہ کون سا ملک ہے جہاں ہمارے حکمرانوں کو حقائق کا پتا اوران کے دیے گئے عوامی مفاد کے اعلانات پر عمل ہوتا ہے۔
سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی بلاامتیاز نہیں ہوتی۔کسی شہر میں اورصوبے میں کم تو کہیں نہیں ہوتی اورکہیں بجلی کی طرح جب ضرورت پڑی سوئی گیس بند کردی گئی۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ گھروں میں چولہے جلانے کا وقت ہے اورصبح سویرے خواتین کو پہلے اپنے بچوں کے لیے اور بعد میں گھر کے دیگر لوگوں کے لیے ناشتہ یا کھانا تیارکرنا ہے۔ ضرورت کے وقت چولہا کھولنے پر گیس نہ ملے اور متبادل انتظام نہ ہو تو خواتین پر جو گزرتی ہے وہ حکمران کیا جانیں۔
بجلی اچانک چلی جائے اور ضرورت پر بند ملے تو سردیوں میں مسئلہ کم ہوتا ہے مگر گرمیوں میں بجلی نہ ہو تو واپڈا کو کوس کرگزارا کر ہی لیا جاتا ہے اور پسینے میں شرابورگھروں میں تو رہ لیا جاتا ہے مگرگھروں سے باہر جوکام بجلی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے وہ سب بند اورگھنٹوں انتظار کا عادی سابق حکومت نے بنا ہی دیا تھا اورجب2013 میں ووٹ دینے کا وقت آیا تو عوام نے بھی لوڈ شیڈنگ کرانے والوں کو مسترد کرکے نئے حکمرانوں سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں جنھوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کی تاریخیں بھی دی تھیں بلکہ ایک رہنما نے تو لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے پر اپنا نام بدلنے کی بات بھی کر ڈالی تھی جو اپوزیشن انھیں یاد بھی دلاتی رہتی ہے مگر لوڈ شیڈنگ میں کمی سے عوام خاموش ہی رہتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے ماضی کے برعکس بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ بھی دی ہے مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورتحال اتنی بھی بہتر نہیں ہوئی کہ عوام کو گمراہ کیا جائے کہ سرکاری ہدایت پر بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کردی گئی ہے اور اب صرف شہروں میں تین اور دیہاتوں میں صرف چارگھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔سردیوں میں جب بجلی کی گھروں، دکانوں، تعلیمی، طبی،کاروباری اداروں میں ضرورت بہت ہی کم ہو پنکھے، اے سی سب بند ہوں تو لوڈ شیڈنگ ویسے ہی نہیں ہونی چاہیے۔سردیوں میں لوڈ شیڈنگ پر حیرت کا اظہار تو نیپرا کے ایک اعلیٰ افسر بھی کرچکے ہیں۔
حال ہی میں میڈیا پر خبر آئی کہ وزیربجلی کی صدارت میں سرکاری دفتر میں اعلیٰ سطح اجلاس ہو رہا تھا جس میں غیر ملکی بھی موجود تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی جو لوڈ شیڈنگ ہرگز نہیں ہوگی بلکہ فنی خرابی ہوئی ہوگی اور وفاقی وزیر بجلی کو غیر ملکیوں کے سامنے کہنے کا موقعہ ملا ہوکہ ہمارے ملک میں عوام اور بجلی دفاتر میں کوئی امتیاز نہیں اور بجلی سب کی بند ہوجاتی ہے خواہ وہ حکومتی دفاتر ہی کیوں نہ ہوں۔
کہنے کی حد تک تو حکومت یہ کہہ سکتی ہے مگر عملاً ایسا ہے نہیں بلکہ ہمارے یہاں امتیاز تو ہر جگہ موجود ہے۔ حکمرانوں کے دفاتر اورگھر تو ویسے ہی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور اطلاق صرف عوام کے لیے ہوتا ہے مگر اب تو عوامی سطح پر بھی امتیاز شروع ہوگیا ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا اصول کہیں نظر ہی نہیں آتا۔
حکمران نہ جانے کس کے کہنے پرکہہ دیتے ہیں کہ ملک میں دالوں کی قیمت کم ہوگئی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نصف رہ گئی ہے جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں نہ جانے وہ کون سا ملک ہے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات پر عمل ہو رہا ہے۔ حکمران طبقہ کے لیے عموماً کہا جاتا ہے کہ نہ وہ اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ٹی وی دیکھتے ہیں اور صحافیوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ حقائق سے انھیں آگاہ نہیں کیا جاتا جس کے باعث وہ حقائق کے برعکس اشیا کے نرخ بتا دیتے ہیں اور سرکاری ٹی وی پر غلط خبریں دے کر انھیں غلط بتایا جاتا ہے کہ ان کی حکومت میں شہروں میں تین گھنٹے اور دیہاتوں میں چند گھنٹے لوڈ شیڈنگ رہ گئی ہے۔
کراچی میں کے الیکٹرک تو شاید علاقہ غیر یا کسی اور ملک میں کام کر رہا ہے جو نہ کسی کی سنتا ہے نہ کسی فیصلوں پر عمل کرتا ہے۔ کے الیکٹرک نے سردیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کم نہیں کی اورکراچی میں وفاق سے بجلی لے کر بھی گرمیوں کی طرح روزانہ کم ازکم چھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کررہی ہے۔ جب ملک کے سب سے بڑے شہر میں حکمرانوں کی ہدایت کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہو تو ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں کون سی لوڈ شیڈنگ کم ہونی ہے۔
ایک وزیر صاحب کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں مرغی کے گوشت کے نرخ کم ہوگئے ہیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا ،لگتا ہے کہ وزیر صاحب کو بھی گمراہ کن خبریں دے کر بیانات جاری کرا دیے جاتے ہیں شاید ہمارے وزراء عملی طور پر عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے اور ان کی تو یہ کوشش رہی ہے کہ عوام کی جیبوں سے مزید ٹیکس نکلوایا جائے اور مہنگائی بڑھائی جائے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نئے ٹیکسوں کا عوام پرکوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ عوام پر تو مہنگائی کا بوجھ بجٹ میں دی گئی تجویز سے ہی بڑھ جاتا ہے اور وہ نہ جانے کون سا ملک ہے جس پر حکومت کے پیش کیے گئے چاربجٹوں کا منفی اثر نہ پڑا ہو۔ دنیا میں پٹرولیم نرخ کم ہوتے ہیں جس کا فائدہ عوام کو دلانے کی بجائے پہلے سے عائد ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرکے حکمران طبقہ عوام کو اس فائدے سے بھی محروم کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
پٹرول عالمی سطح پر مہنگا ہو تو ملک میں فوری عمل شروع ہوجاتا ہے اوراگر سستا ہو تو نئے آنیوالے ماہ میں معمولی نرخ کم ہوتے ہیں جس کا ملک میں مہنگائی کم ہونے پرکوئی اثر ہوتا ہے نہ صوبائی حکومتیں پٹرول سستا ہونے کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔گمراہ کن نرخ اور عمل سے محروم سرکاری احکامات پر اب تک پاکستان میں توکبھی اثر نہیں ہوا نہ جانے وہ کون سا ملک ہے جہاں ہمارے حکمرانوں کو حقائق کا پتا اوران کے دیے گئے عوامی مفاد کے اعلانات پر عمل ہوتا ہے۔