پروفیسر غفور احمد
پروفیسر غفور احمد محض اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ تھے۔
HYDERABAD:
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ کہ وہ مرجاتے ہیں
گزشتہ دنوں پروفیسر عبدالغفور احمد کا سانحہ ارتحال پیش آیا تو مندرجہ بالا شعر بے اختیار نوکِ زباں پر ابھر آیا۔ مجسمۂ شرافت و نجابت، مرنجاں مرنج، پیکر اخلاق و سادگی اور سراپا عجزوانکسار۔ قلم ان کے اوصاف حمیدہ گنوانے سے قاصر ہے۔ہمارے علم میں تھا کہ موصوف صاحب فراش ہیں مگر یہ بات گوشۂ گمان میں بھی نہ تھی کہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ مگر ''موت کا ایک دن معین ہے۔''کُل نفسٍ ذائقۃ الموت۔ ''
بے شک یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ ماہ دسمبر کے آخری دنوں میں ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت رہی۔ پت جھڑ کے اس یخ بستہ موسم میں کئی نابغہ روزگار قسم کے لوگ درختوں کی شاخوں سے ٹوٹ کر پھڑپھڑاتے ہوئے زرد پتوں کی طرح ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ پتہ نہیں اسے حسن اتفاق کہیے یا کیا کہیے کہ دسمبر 2006 کے آخری ایام میں 26 دسمبر ہی کا دن تھا جب زندگی کے رائیگاں جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے عہد ساز شاعر منیر نیازی نے یہ کہتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کیا تھا:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اپنے خوبصورت اور سدا بہار اشعار کی خوشبو بکھیرتی ہوئی منفرد لب و لہجے کی عندلیب سخن پروین شاکر بھی 1994 کے 26 دسمبر کے روز ہی یہ کہتی ہوئی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی تھیں:
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
یہ بھی کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دار فانی میں قدم رکھا تھا تو اس روز بھی 26 تاریخ ہی تھی اور جب انھوں نے رخت سفر باندھا اور کوچ کیا تو یہ بھی ماہ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔ ہمارا علم نجوم سے چونکہ دور پرے کا بھی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے لہٰذا ہم اسے ایک سیدھے سادھے عام سے راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے محض اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں۔
پروفیسر غفور احمد کی 85 سالہ زندگی ایک طویل جدوجہد پر محیط تھی۔ انھوں نے بی۔ کام کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی جس کا شمار ہندوستان کی مانی ہوئی جامعات میں ہوتا ہے۔ ہماری بھی خوش نصیبی ہے کہ ایم۔اے معاشیات کا امتحان ہم نے بھی اسی جامعہ سے پاس کیا تھا۔ غفور صاحب مغفور نے اپنے کیرئیر کا آغاز لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔کام کرنے کے بعد اس شہر کی مشہور ومعروف علمی درسگاہ اسلامیہ کالج سے کیا۔ تعلیمی لحاظ سے ان کا میدان اگرچہ کامرس تھا جہاں تدریس کے علاوہ انھوں نے متعدد اہم کاروباری اداروں میں بھی اپنی قابلیت و لیاقت کے جوہر دکھائے، مگر بالآخر ان کا سب سے بڑا میدان سیاست ہی قرار پایا۔
1950 میں وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور تادم آخر اسی کا دامن تھامے رکھا۔ 1958 میں انھوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد اپنی کارکردگی کی بنا پر وہ جماعت اسلامی، کراچی کے امیر منتخب کرلیے گئے اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی چن لیے گئے۔ 1964 میں جب فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پر بھی پابندی عائد کی تو پارٹی کے دوسرے لیڈروں کے ساتھ پروفیسر غفور احمد کو بھی گرفتار کرکے داخل زنداں کردیا گیا۔ انھوں نے 9 ماہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1978-79 میں وفاقی وزیر صنعت کے منصب پر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمانداری کے ساتھ نبھائیں۔ ایم۔این۔اے کے علاوہ بطور سینیٹر بھی انھوں نے ایک مثالی کردار ادا کیا۔ وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پرآشوب دور میں پیپلز پارٹی کے عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی زبردست قومی تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ محض اپنی ذاتی لیاقت اور مقبولیت کی بنا پر ہی وہ پاکستان قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ 1973 کا آئین بنانے میں انھوں نے نہایت اہم بلکہ مرکزی کردار ادا کیا اور اسی بنا پر انھوں نے نہ صرف اپنے ہمنواؤں کا دل جیتا بلکہ مخالفین کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے انھیں بہترین پارلیمنٹیرین کے خطاب سے نوازا۔
یہ انھی کا دم تھا کہ جس نے اپنے تدبر اور تحمل کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو جیسے ماہر سیاست داں سے صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی طرز حکومت پر اتفاق کرایا۔دستور سازی کی 25 رکنی کمیٹی میں پروفیسر غفور احمد کا کردار سب سے نمایاں اور قائدانہ تھا۔ قومی اسمبلی میں مفتی محمود احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیرباز خان مزاری اور مولانا ظفر احمد انصاری جیسے زیرک سیاستدانوں کو ساتھ ملاکر قوم کو ایک متفقہ آئینی دستاویز کی فراہمی کا ڈول ڈالنا پروفیسر غفور احمد کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ یہ کیا کم بڑی بات ہے کہ ہر قومی اتحاد میں انھی کو سیکریٹری جنرل کا کلیدی منصب پیش کیا گیا۔ وہ اس حسین کہکشاں کا درخشندہ ستارہ تھے جس میں حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، سردار غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی اور سائیں جی ایم سید جیسے جید سیاستدان شامل تھے۔ ان میں سے ایک بھی سیاستداں ایسا نہیں ہے جس نے پروفیسر صاحب کی شخصیت اور ان کے اعلیٰ اوصاف کا اعتراف نہ کیا ہو۔
غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن صاف و شفاف اور ہر قسم کی آلودگی سے ہمیشہ پاک و صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، حلیم الطبعی، سیاسی بصیرت اور دوراندیشی اپنے ہم عصروں سے بڑھ کر تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نہایت upright اور uassuming قسم کے سو فیصد مخلص اور محب وطن سیاستداں تھے۔
تہذیب و شائستگی اور توازن کی دلآویز شخصیت کا خاصہ تھا۔ یہ جوہر ان کے جوش خطابت میں بھی ہمیشہ نمایاں نظر آیا۔ تواضح اور منکسرالمزاجی کی جو کیفیت ہمیں پروفیسر غفور احمد کے علاوہ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے یہاں نظر آئی وہ اور کہیں نہیں ملی۔
پروفیسر غفور احمد محض اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ تھے۔ ان کا سانحہ ارتحال ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہے جس کے نتیجے میں ہماری سیاست شرافت و دیانت کے ایک قابل تقلید نمونے سے محروم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر اپنے اور پرائے سب کے سب یکساں ملول اور مغموم ہیں۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے (آمین)۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ کہ وہ مرجاتے ہیں
گزشتہ دنوں پروفیسر عبدالغفور احمد کا سانحہ ارتحال پیش آیا تو مندرجہ بالا شعر بے اختیار نوکِ زباں پر ابھر آیا۔ مجسمۂ شرافت و نجابت، مرنجاں مرنج، پیکر اخلاق و سادگی اور سراپا عجزوانکسار۔ قلم ان کے اوصاف حمیدہ گنوانے سے قاصر ہے۔ہمارے علم میں تھا کہ موصوف صاحب فراش ہیں مگر یہ بات گوشۂ گمان میں بھی نہ تھی کہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ مگر ''موت کا ایک دن معین ہے۔''کُل نفسٍ ذائقۃ الموت۔ ''
بے شک یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ ماہ دسمبر کے آخری دنوں میں ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت رہی۔ پت جھڑ کے اس یخ بستہ موسم میں کئی نابغہ روزگار قسم کے لوگ درختوں کی شاخوں سے ٹوٹ کر پھڑپھڑاتے ہوئے زرد پتوں کی طرح ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ پتہ نہیں اسے حسن اتفاق کہیے یا کیا کہیے کہ دسمبر 2006 کے آخری ایام میں 26 دسمبر ہی کا دن تھا جب زندگی کے رائیگاں جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے عہد ساز شاعر منیر نیازی نے یہ کہتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کیا تھا:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اپنے خوبصورت اور سدا بہار اشعار کی خوشبو بکھیرتی ہوئی منفرد لب و لہجے کی عندلیب سخن پروین شاکر بھی 1994 کے 26 دسمبر کے روز ہی یہ کہتی ہوئی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی تھیں:
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
یہ بھی کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دار فانی میں قدم رکھا تھا تو اس روز بھی 26 تاریخ ہی تھی اور جب انھوں نے رخت سفر باندھا اور کوچ کیا تو یہ بھی ماہ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔ ہمارا علم نجوم سے چونکہ دور پرے کا بھی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے لہٰذا ہم اسے ایک سیدھے سادھے عام سے راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے محض اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں۔
پروفیسر غفور احمد کی 85 سالہ زندگی ایک طویل جدوجہد پر محیط تھی۔ انھوں نے بی۔ کام کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے حاصل کی جس کا شمار ہندوستان کی مانی ہوئی جامعات میں ہوتا ہے۔ ہماری بھی خوش نصیبی ہے کہ ایم۔اے معاشیات کا امتحان ہم نے بھی اسی جامعہ سے پاس کیا تھا۔ غفور صاحب مغفور نے اپنے کیرئیر کا آغاز لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔کام کرنے کے بعد اس شہر کی مشہور ومعروف علمی درسگاہ اسلامیہ کالج سے کیا۔ تعلیمی لحاظ سے ان کا میدان اگرچہ کامرس تھا جہاں تدریس کے علاوہ انھوں نے متعدد اہم کاروباری اداروں میں بھی اپنی قابلیت و لیاقت کے جوہر دکھائے، مگر بالآخر ان کا سب سے بڑا میدان سیاست ہی قرار پایا۔
1950 میں وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور تادم آخر اسی کا دامن تھامے رکھا۔ 1958 میں انھوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد اپنی کارکردگی کی بنا پر وہ جماعت اسلامی، کراچی کے امیر منتخب کرلیے گئے اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی چن لیے گئے۔ 1964 میں جب فوجی آمر جنرل محمد ایوب خان نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پر بھی پابندی عائد کی تو پارٹی کے دوسرے لیڈروں کے ساتھ پروفیسر غفور احمد کو بھی گرفتار کرکے داخل زنداں کردیا گیا۔ انھوں نے 9 ماہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1978-79 میں وفاقی وزیر صنعت کے منصب پر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمانداری کے ساتھ نبھائیں۔ ایم۔این۔اے کے علاوہ بطور سینیٹر بھی انھوں نے ایک مثالی کردار ادا کیا۔ وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پرآشوب دور میں پیپلز پارٹی کے عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی گئی زبردست قومی تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ محض اپنی ذاتی لیاقت اور مقبولیت کی بنا پر ہی وہ پاکستان قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد کے سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ 1973 کا آئین بنانے میں انھوں نے نہایت اہم بلکہ مرکزی کردار ادا کیا اور اسی بنا پر انھوں نے نہ صرف اپنے ہمنواؤں کا دل جیتا بلکہ مخالفین کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے انھیں بہترین پارلیمنٹیرین کے خطاب سے نوازا۔
یہ انھی کا دم تھا کہ جس نے اپنے تدبر اور تحمل کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو جیسے ماہر سیاست داں سے صدارتی نظام کے بجائے پارلیمانی طرز حکومت پر اتفاق کرایا۔دستور سازی کی 25 رکنی کمیٹی میں پروفیسر غفور احمد کا کردار سب سے نمایاں اور قائدانہ تھا۔ قومی اسمبلی میں مفتی محمود احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیرباز خان مزاری اور مولانا ظفر احمد انصاری جیسے زیرک سیاستدانوں کو ساتھ ملاکر قوم کو ایک متفقہ آئینی دستاویز کی فراہمی کا ڈول ڈالنا پروفیسر غفور احمد کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ یہ کیا کم بڑی بات ہے کہ ہر قومی اتحاد میں انھی کو سیکریٹری جنرل کا کلیدی منصب پیش کیا گیا۔ وہ اس حسین کہکشاں کا درخشندہ ستارہ تھے جس میں حضرت مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، سردار غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی اور سائیں جی ایم سید جیسے جید سیاستدان شامل تھے۔ ان میں سے ایک بھی سیاستداں ایسا نہیں ہے جس نے پروفیسر صاحب کی شخصیت اور ان کے اعلیٰ اوصاف کا اعتراف نہ کیا ہو۔
غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن صاف و شفاف اور ہر قسم کی آلودگی سے ہمیشہ پاک و صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، حلیم الطبعی، سیاسی بصیرت اور دوراندیشی اپنے ہم عصروں سے بڑھ کر تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نہایت upright اور uassuming قسم کے سو فیصد مخلص اور محب وطن سیاستداں تھے۔
تہذیب و شائستگی اور توازن کی دلآویز شخصیت کا خاصہ تھا۔ یہ جوہر ان کے جوش خطابت میں بھی ہمیشہ نمایاں نظر آیا۔ تواضح اور منکسرالمزاجی کی جو کیفیت ہمیں پروفیسر غفور احمد کے علاوہ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے یہاں نظر آئی وہ اور کہیں نہیں ملی۔
پروفیسر غفور احمد محض اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ تھے۔ ان کا سانحہ ارتحال ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہے جس کے نتیجے میں ہماری سیاست شرافت و دیانت کے ایک قابل تقلید نمونے سے محروم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت پر اپنے اور پرائے سب کے سب یکساں ملول اور مغموم ہیں۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے (آمین)۔