برطانیہ کیونکر امیر بنا
1599 سے قبل برطانیہ کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد بھوک سے مرگیا تھا
1599 سے قبل برطانیہ کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد بھوک سے مرگیا تھا۔ آٹھ ماہ وہاں کی زمین برف سے ڈھکی رہتی ہے، باقی چارماہ میں کھیتی ممکن نہیں۔کاشتکاری کے لیے پانی،دھوپ، مٹی ضروری ہے،اگر آپ وہاں شوگرمل لگانا چاہیں تو گنا کاشت کرنا ہوگا اورگنا کارخانوں میں نہیں زمین میں اگتا ہے، اگر ٹیکسٹائل کا کارخانہ لگائیں تو اس کے لیے کپاس کی ضرورت ہو گی۔ اب وہاں زندگی گزارنے کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔
ایک اگر کہیں تالاب میں پانی ہو تو وہاں مچھلی پکڑ کے کھائیں یا پھر جنگل میں شکارکر کے جانوروں کا گوشت بھون کے کھائیں اور اس کی کھال کو جسم پہ لپیٹ لیں، کپڑے تو تھے نہیں۔ تیسرا راستہ ایک اور تھا اور وہ تھا لوٹ مارکا ۔ ہندوستان سے پانی کے جہازوں پر لدے ہو ئے مال و دولت افریقہ اور جنوبی امریکا جایا کرتے تھے ۔ ان جہازوں کو لندن کے ساحل سے گزرنا ہوتا تھا اور اسی دوران انگریز ہندوستانی جہازوں کو لوٹتے تھے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ صرف پانی کے جہاز سے لوٹ مار پر اتنا مال مل سکتا ہے تو پھر جہاں سے یہ دولت لائی جاتی ہے وہاں کتنے بڑے پیمانے پر دولت کے ذخائر ہوں گے۔
اس کے بعد ہی ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی گئی۔ جب یہ کمپنی بنائی گئی تواس کے پاس کوئی رقم نہیں تھی، یعنی سفر پر کھڑی تھی ۔ جب اس کمپنی نے برطانیہ کے راجہ سے انڈیا جانے کی اجازت مانگی تو راجہ نے سوال کیا کہ آپ انڈیا سے کیا خریدیں گے اور یہاں سے کیا لے جائیں گے ۔ جس پر کمپنی کے نمایندے نے جواب میں کہا کہ ہم نہ بیچیں گے اورنہ خریدیں گے، ہم ٹریڈ یعنی لوٹ مارکریں گے۔ برطانیہ کے را جہ نے اجازت دے دی ۔
1618 میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پہنچی تو شہنشاہ جہانگیر کی حکمرانی تھی ۔ان سے اجازت نامہ چاہا تو جہانگیر نے سوال کیا کہ آپ کیا خریدیں گے اور کیا بیچیں گے ۔کمپنی کے نمایندہ تھامس رو نے بڑی عیاری، سے کہا کہ ہم کچھ بھی خریدیں اور نہ بیچیں گے، ہم ٹریڈ کریں گے۔
واضح رہے کہ جہانگیر کو انگریزی نہیں آ تی تھی۔ بڑی چا لاکی سے کمپنی کے نمایندے تھامس رو نے کہا کہ ہم آپ کے ہاں سے مال حاصل کریں گے اور برطانیہ میں بیچیں گے، منافع خود رکھیں گے اور اصل رقم آپ کو لوٹا دیں گے۔ شہنشاہ جہانگیر نے کمپنی کو اجازت دے دی۔اب جب سب سے پہلے سورت شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے قدم رکھا تو مقامی اجرتی قاتلوں اور لٹیروں کی ایک ٹیم بنائی، پھر دولت مند تاجروں کے گھر لوٹے، بہت سوں کو خطوط بھیجے کہ تم اتنے روز کے اندر اتنے رقم پہنچا دو۔ خوف کے مارے کچھ لوگ رقم پہنچاتے رہے اورجنھوں نے نہیں پہنچایا،ان کے گھروں کو لوٹا گیا۔
یہ لوٹ مارجب زیادہ بڑھ گئی تو شہنشاہ جہانگیر تک شکایت پہنچی اورانھوں نے پوچھ گچھ کی توکمپنی نے جواب دیا کہ ہم ٹریڈ کرنے آئے ہیں، اس میں لوٹ مار تو ہوتی ہے۔ جب شہنشاہ جہانگیر نے کارروائی کرنے کی کوشش کی تو وہ ڈٹ گئے۔ اس کے بعدکمزور راجاؤں پر ہاتھ ڈالا اور ان سے وصولیابی شروع کردیں۔
بعد ازاں کلکتہ سے سمندری جہازکے ذریعے تجارتی سامان لے جانے کے غرض سے سراج الدولہ کے سپاہ سالار میرجعفرکو رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کو شہید کروا کر میرجعفرکو چند سال کے لیے نواب بنادیا اور بعد میں اسے بھی قتل کروا کے میرقاسم کو نواب بنادیا اور بعد میں اسے اقتدار سے ہٹا کر لارڈ کلائیو خود گورنر جنرل بن گئے۔ لارڈ کلائیو کے دور میں پانی کے نو جہاز بھر کے سونے، چاندی کے سکے، ہیرے اور بیش بہا قیمتی جواہرات ہندوستان سے برطانیہ بھیجے گئے۔ایک جہاز میں ستر میٹرک ٹن کے سونے چاندی، ہیرے اوردیگر جواہرات تھے۔
لارڈ کلائیوکا برطانیہ کے راجہ سے یہ معاہدہ تھا کہ لوٹ کے مال میں سے اسے بھی حصہ دیا جائے گا، لیکن کلائیو ساری دولت ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ جس پر عدالت میں مقدمہ چلا ، مقدمے میں کلائیو کو پھانسی کی سزا ہوگئی اور سزائے موت سے ایک روز قبل کلائیو نے اپنے آپ کو گولی مارلی۔ بعد میں ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت راجہ سے لے کر چپراسی تک میں تقسیم کردی گئی تھی۔
صرف ایک اورنگ زیب بادشاہ نے کچھ جرات دکھائی تواس کے دور میں لوٹ مار کم ہوئی۔ جب کمپنی نے سارے انڈیا پر قبضہ جما لیا تو اپنا نظام رائج کرنے کے لیے چونتیس ہزار سات سو پینتیس ادارے قائم کیے اور یہ ادارے صرف اور صرف لوٹ مار، جبر، قتل اور غلام بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ انھوں نے لوٹ مار کا سامان جمع کرنے کے لیے کلکٹربنائے۔
کلکٹر کا مطلب اکٹھا کرنا یعنی لوٹ کے مال کو جمع کرکے برطانیہ بھیجنا تھا ۔ انھوں نے ایسے افسران مقررکیے جن کا کام تھا عوام سے ٹیکس اور آمدنی کے مد میں رقم جمع کرنا، انھیں تنخواہیں نہیں ملتی تھیں، لوٹ کے مال سے کمیشن ملتا تھا، اس لیے انھیں کمشنرکہا جاتا تھا۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر اور سب ڈپٹی کمشنرمقررکیے گئے جو کسان ٹیکس نہیں دیتے تھے ان سے جبرا ٹیکس وصول کرنے کے لیے انڈین پولیس ایکٹ کا قانون بنایا گیا۔ جب بھتہ خوری کو قانون کا درجہ دیا گیا تو پولیس کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ ٹیکس نہ دینے پرکسانوں کے گھروں کو آگ لگا دے،ان کی خواتین کا ریپ کیا جائے، ان کے مویشیوں کو جلادیا جائے اورکسا نوں کوکوڑے مارے جائیں وہ کوڑے بھی چمڑے کے بنے ہو تے تھے جس پردونوں جانب نوکیلے کیل باندھ دیے جا تے تھے اورسو سوکبھی کبھی پانچ پانچ سوکوڑے مارے جاتے تھے
۔کوڑے مارنے کے وقت جب کوڑے پلٹ کرکھینچے جاتے تھے تواکثر جسم کی کھال نکل آتی تھی۔ آ گے چل کر بیوپاریوں سے بھی رقوم کی وصولی اور کہیں وصولی کی دستیابی میں دقت پیش آتی تھی توسنٹرل ایکسائزٹیکس اور سیلزٹیکس کے نام پر اس لوٹ کو قانونی شکل دی جاتی تھی۔
برطانوی سامراج نے ڈھائی سوسال میں برصغیر سے تین سولاکھ کروڑ اسٹرلنگ پاؤنڈ لوٹے جب کہ ہمارے کالے انگریزوں نے انہتر برسوں میں اس کا ریکارڈ توڑدیا۔ اس طرح سے دنیا کا غریب ترین ملک برطانیہ امیربنا اور ہندوستان امیر ملک سے غریب بنا۔ جب چودہ اگست انیس سوسینتالیس میں انگریزچلے گئے تو اسی کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر،کمشنر، تحصیل دار اورنائب تحصیلدار کے نظام کو ہی برقرار رکھتے ہو ئے انگریزوں کے وقت کی طرح عوام سے لوٹ ماراب بھی جاری ہے۔
اب یہ ساری دولت لوٹ کرسوئز بینک، پاناما آف شورکمپنیوں، ماریشس، سو ری نام ،جیمیکا اور بہاما وغیرہ کی خفیہ کمپنیوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ ایک جانب ہم اپنے پیسے بیرون ملک کمپنیوں اور بینکوں میں جمع کرتے ہیں اور دوسری جانب ترقی کے نام پرآئی ایم ایف اورورلڈ بینک سے قرضے لے کر مزید لوٹ مارکرتے ہیںَ ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا ادارہ آکسفیم کا کہنا ہے کہ ''دنیا میں سب سے زیادہ خیرات بل گیٹس بانٹتا ہے لیکن خیرات سے غربت میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے''۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی کمیونسٹ نظام یا پنچایتی نظام یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہے۔ جہاں دنیا ایک ہوجائے گی۔ ساری دو لت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔