جنوبی ایشیا سخت خطرے میں
دنیا کی آبادی پہلی صدی کے اختتام تک 15 کروڑ نفوس پر مشتمل تھی
دنیا کی آبادی پہلی صدی کے اختتام تک 15 کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک یہ تعداد ایک ارب اور بیسویں صدی کے خاتمے تک 6 ارب سے تجاوزکرچکی تھی۔اس وقت کرہ ارض پر رہائش پذیرانسانوں کی تعداد تقریباً 7 ارب ہے۔انسانوں کی اس آبادی میں جنوبی ایشیا کے آٹھ ملکوں جن میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ شامل ہیں،دنیا کی کل آبادی کے 26 فیصد افراد رہائش پذیرہیں۔
عالمی ترقیاتی رپورٹ 2014 کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ غربت بھی اسی خطے میں ہے جہاں 700 ملین لوگ 1.25 امریکی ڈالر یومیہ پرگزارہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام میں یہ خطہ انتہائی خصوصیات کا حامل ہے، جہاں برف سے ڈھکے دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش موجود ہیں۔
اس کے علاوہ تین بڑے دریاؤں سمیت معاون دریاؤں کا نظام، وسیع وعریض وادیاں، پلیٹو، بڑے ریگستانی سلسلے، صاف پانی کی بڑی جھیلیں اورخشک زمینوں کے ساتھ دس ہزارکلومیٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی ہے جو اس خطے کو دنیا کے دیگر حصوں سے منفرد بناتی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال یہ خزانے ان ملکوں کی معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کی جانے والی پانچویں تجزیاتی رپورٹ (2013-14) میں واضح طور پر متنبہ کردیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کا خطہ موسمیاتی تبدیلی کی براہ راست زد میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں لیکن زیادہ شدت کے ساتھ اس کا نشانہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک ہیں ، جس کے باعث ان ملکوں کو زرعی نقصان، پانی کی کمی، گلیشیر کا پگھلاؤ، خشک سالی، سیلاب، گرمی کی شدید لہراور شدید گرمی، سمندری طوفان، شدید ہواؤں کے جھکڑکے علاوہ غذائی عدم تحفظ جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی اندازوں کے مطابق صرف گلیشیرزکے پگھلنے کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوں گے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا موجودہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو جنوبی ایشیا کے ملکوں کو اس کے منفی اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اب سے لے کر 2100 تک ہر سال 73 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی لیکن اگر عالمی درجہ حرارت 2.5 ڈگری سیلیس سے کم رہتا ہے تو یہ شرح 40.6 بلین ڈالر ہوجائے گی۔
ماحولیاتی اورحیاتی تنوع سے بھرپور اس خطے میں صرف ہندوکش، ہمالیہ اورقراقرم کی پٹی پر ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار سے زائد درختوں اورجانوروں کی نسلیں موجود ہیں جو آج موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات اور اس سے وابستہ قدرتی آفات کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ بارشوں کے نظام الاوقات میں تبدیلی کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں ان ملکوں کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے زرعی نظام پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں گندم کی پیداوارگرم آب و ہوا کی وجہ سے شدید متاثر ہورہی ہے۔ سمندری دخل اندازی ان ملکوں کی لاکھوں ایکڑ زمینوں کو بنجرکرچکی ہے، پانی کی شدید قلت کے باعث اندرونی طور پر تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ساحلی اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ جس کے باعث ان علاقوں میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ان عوامل کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ماحولیاتی مہاجرین دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا کے 11 بڑے میگا شہروں جس میں سے 5 کا تعلق جنوبی ایشیا کے ملکوں سے ہے جن میں کراچی، کولکتہ ، ممبئی، دہلی اور ڈھاکہ شامل ہیں۔ ان شہروں میں پہلے سے ہی بے پناہ مسائل موجود ہیں جن میں غیر تسلی بخش اور بوسیدہ انفرا اسٹرکچر، شہری سہولتوں کا فقدان ،صحت کی نامناسب سہولیات جیسے عوامل شامل ہیں۔ ماحولیاتی مہاجرین کی آمد سے ان شہروں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے 2050 ء تک جنوبی ایشیا کے ملکوں کی آدھی آبادی شہروں میں رہائش پذیرہوگی۔
2016 ء کے وسط میں گلوبل ملٹری ایڈوائزری کونسل آن کلائمیٹ چینج کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ ''کلائمیٹ چینج اینڈ سیکیورٹی ان ساؤتھ ایشیا: کوآپریشن فار پیس'' جس کے مصنف 3 سینئر ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران جن میں لیفٹننٹ جنرل طارق وسیم غازی (پاکستان)، میجر جنرل این ایم اے منیر الزمان (بنگلہ دیش) اور ائیر مارشل اے۔ کے۔ سنگھ (انڈیا) ہیں میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے، ساؤتھ ایشیا کے ممالک موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرے سے دوچار ہیں جو ان کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پرکوئی تعاون موجود نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آب وہوا کو تبدیل کردے گی جس کے نتیجے میں شدید قدرتی آفات ، پانی کی قلت اورغذائی عدم تحفظ کے ساتھ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی۔اس کے علاوہ زمین اور قدرتی وسائل پر سخت مقابلے بازی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بدلتے موسموں کے تناظر میں انسانی مصائب میںبے پناہ اضافہ ہوگا جس کے باعث میں عدم استحکام مزید بڑھے گا۔
رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو قومی سطح پر بنائی جانے والی تمام پالیسیوں میں شامل کریں، تمام بڑے سرکاری اداروں بشمول خزانہ، زراعت توانائی، پانی اوردفاع کے وزارتوں کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جامع اور موثر حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے مل جل کرکام کریں تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے اثرات کے نتیجے میں آنے والے بحرانوں سے نمٹا جاسکے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے علاقائی سطح پر تعاون کو مضبوط بنایا جائے اور ایک ایڈوائزری کونسل قائم کی جائے جو باقاعدگی سے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سلامتی کے خطرات کا تجزیہ کرکے حکومتوں کو سفارشات دے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کا زیادہ انحصار قدرتی وسائل پر ہے جن میں پانی، زرعی زمینیں، جنگلات، گراس لینڈ اور فشریز شامل ہیں ۔ یہ قدرتی وسائل پہلے ہی سے غربت، بڑھتی ہوئی آبادی، تباہ حال انفرااسٹرکچر اور اداروں کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے ان ملکوں کو فوری اور دیرپا حل تلاش کرنا ہوں گے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا کی 26 فیصد آبادی براہ راست متاثر ہورہی ہے۔ علاقائی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دو بڑے فورم پہلے ہی سے موجود ہیں جن میں سارک ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے وزیروں پر مشتمل فورم ''ساؤتھ ایشیا کو آپریٹو اینوائرمنٹ پروگرام'' جب کہ دوسرا اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے جس کا نام ''ساؤتھ ایشیا ریجنل سیز پروگرام'' ہے جو ساحلی پٹی اور سمندر کے تعلق سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل میں مدد دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیا سخت خطرے میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی سطح پر پہلے سے موجود ان فورموں کو موثر بنانے کے ساتھ سول سوسائٹی ، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی ان میں شامل کیا جائے تاکہ کرہ ارض کی گنجان اور غریب آبادی والے اس خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل اور امکانی تباہ کاریوں سے مشترکہ طور پر نمٹا جاسکے۔
عالمی ترقیاتی رپورٹ 2014 کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ غربت بھی اسی خطے میں ہے جہاں 700 ملین لوگ 1.25 امریکی ڈالر یومیہ پرگزارہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام میں یہ خطہ انتہائی خصوصیات کا حامل ہے، جہاں برف سے ڈھکے دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش موجود ہیں۔
اس کے علاوہ تین بڑے دریاؤں سمیت معاون دریاؤں کا نظام، وسیع وعریض وادیاں، پلیٹو، بڑے ریگستانی سلسلے، صاف پانی کی بڑی جھیلیں اورخشک زمینوں کے ساتھ دس ہزارکلومیٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی ہے جو اس خطے کو دنیا کے دیگر حصوں سے منفرد بناتی ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال یہ خزانے ان ملکوں کی معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کی جانے والی پانچویں تجزیاتی رپورٹ (2013-14) میں واضح طور پر متنبہ کردیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کا خطہ موسمیاتی تبدیلی کی براہ راست زد میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے پیدا ہونے والے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں لیکن زیادہ شدت کے ساتھ اس کا نشانہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک ہیں ، جس کے باعث ان ملکوں کو زرعی نقصان، پانی کی کمی، گلیشیر کا پگھلاؤ، خشک سالی، سیلاب، گرمی کی شدید لہراور شدید گرمی، سمندری طوفان، شدید ہواؤں کے جھکڑکے علاوہ غذائی عدم تحفظ جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی اندازوں کے مطابق صرف گلیشیرزکے پگھلنے کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوں گے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا موجودہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو جنوبی ایشیا کے ملکوں کو اس کے منفی اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اب سے لے کر 2100 تک ہر سال 73 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی لیکن اگر عالمی درجہ حرارت 2.5 ڈگری سیلیس سے کم رہتا ہے تو یہ شرح 40.6 بلین ڈالر ہوجائے گی۔
ماحولیاتی اورحیاتی تنوع سے بھرپور اس خطے میں صرف ہندوکش، ہمالیہ اورقراقرم کی پٹی پر ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار سے زائد درختوں اورجانوروں کی نسلیں موجود ہیں جو آج موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات اور اس سے وابستہ قدرتی آفات کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ بارشوں کے نظام الاوقات میں تبدیلی کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں ان ملکوں کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے زرعی نظام پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں گندم کی پیداوارگرم آب و ہوا کی وجہ سے شدید متاثر ہورہی ہے۔ سمندری دخل اندازی ان ملکوں کی لاکھوں ایکڑ زمینوں کو بنجرکرچکی ہے، پانی کی شدید قلت کے باعث اندرونی طور پر تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ساحلی اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان خطرات کا سامنا کررہے ہیں۔ جس کے باعث ان علاقوں میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ان عوامل کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ماحولیاتی مہاجرین دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا کے 11 بڑے میگا شہروں جس میں سے 5 کا تعلق جنوبی ایشیا کے ملکوں سے ہے جن میں کراچی، کولکتہ ، ممبئی، دہلی اور ڈھاکہ شامل ہیں۔ ان شہروں میں پہلے سے ہی بے پناہ مسائل موجود ہیں جن میں غیر تسلی بخش اور بوسیدہ انفرا اسٹرکچر، شہری سہولتوں کا فقدان ،صحت کی نامناسب سہولیات جیسے عوامل شامل ہیں۔ ماحولیاتی مہاجرین کی آمد سے ان شہروں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے 2050 ء تک جنوبی ایشیا کے ملکوں کی آدھی آبادی شہروں میں رہائش پذیرہوگی۔
2016 ء کے وسط میں گلوبل ملٹری ایڈوائزری کونسل آن کلائمیٹ چینج کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ ''کلائمیٹ چینج اینڈ سیکیورٹی ان ساؤتھ ایشیا: کوآپریشن فار پیس'' جس کے مصنف 3 سینئر ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران جن میں لیفٹننٹ جنرل طارق وسیم غازی (پاکستان)، میجر جنرل این ایم اے منیر الزمان (بنگلہ دیش) اور ائیر مارشل اے۔ کے۔ سنگھ (انڈیا) ہیں میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے، ساؤتھ ایشیا کے ممالک موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرے سے دوچار ہیں جو ان کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پرکوئی تعاون موجود نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آب وہوا کو تبدیل کردے گی جس کے نتیجے میں شدید قدرتی آفات ، پانی کی قلت اورغذائی عدم تحفظ کے ساتھ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی۔اس کے علاوہ زمین اور قدرتی وسائل پر سخت مقابلے بازی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بدلتے موسموں کے تناظر میں انسانی مصائب میںبے پناہ اضافہ ہوگا جس کے باعث میں عدم استحکام مزید بڑھے گا۔
رپورٹ میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو قومی سطح پر بنائی جانے والی تمام پالیسیوں میں شامل کریں، تمام بڑے سرکاری اداروں بشمول خزانہ، زراعت توانائی، پانی اوردفاع کے وزارتوں کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جامع اور موثر حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے مل جل کرکام کریں تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے اثرات کے نتیجے میں آنے والے بحرانوں سے نمٹا جاسکے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے علاقائی سطح پر تعاون کو مضبوط بنایا جائے اور ایک ایڈوائزری کونسل قائم کی جائے جو باقاعدگی سے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سلامتی کے خطرات کا تجزیہ کرکے حکومتوں کو سفارشات دے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کا زیادہ انحصار قدرتی وسائل پر ہے جن میں پانی، زرعی زمینیں، جنگلات، گراس لینڈ اور فشریز شامل ہیں ۔ یہ قدرتی وسائل پہلے ہی سے غربت، بڑھتی ہوئی آبادی، تباہ حال انفرااسٹرکچر اور اداروں کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے ان ملکوں کو فوری اور دیرپا حل تلاش کرنا ہوں گے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دنیا کی 26 فیصد آبادی براہ راست متاثر ہورہی ہے۔ علاقائی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دو بڑے فورم پہلے ہی سے موجود ہیں جن میں سارک ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے وزیروں پر مشتمل فورم ''ساؤتھ ایشیا کو آپریٹو اینوائرمنٹ پروگرام'' جب کہ دوسرا اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے جس کا نام ''ساؤتھ ایشیا ریجنل سیز پروگرام'' ہے جو ساحلی پٹی اور سمندر کے تعلق سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل میں مدد دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیا سخت خطرے میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی سطح پر پہلے سے موجود ان فورموں کو موثر بنانے کے ساتھ سول سوسائٹی ، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی ان میں شامل کیا جائے تاکہ کرہ ارض کی گنجان اور غریب آبادی والے اس خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل اور امکانی تباہ کاریوں سے مشترکہ طور پر نمٹا جاسکے۔