سینیٹر عبدالحسیب خان کی مثبت تجاویز
طالب علم چاہتا ہے کہ اسے ملازمت ملے جب کہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ادارے انھیں تنخواہ ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
KARACHI:
ہمارے ہاں سچی اورکھری باتیں سننے اور برداشت کرنے کا کلچر عنقا ہے۔ تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کو کھری کھری باتیں بھلی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا جب جامعہ کراچی کے شعبہ مائیکروبیالوجی میں منعقدہ ایک تقریب میں سینیٹر عبدالحسیب خان نے بغیر لگی لپٹی رکھے کھری کھری باتیں سنا دیں اور جامعہ کراچی کے اساتذہ کے کردار پر کھل کر اظہار خیال کیا۔
یہ کھری باتیں اس قدر حقیقت پر مشتمل تھیں کہ تقریب کی مرکزی کردار پروفیسر شاہانہ عروج کاظمی نے مسکراتے ہوئے عبدالحسیب خان کی طرف دیکھا اور کہہ ڈالا کہ ان کے شعبے کے لیے ایک تحقیقی سینٹر قائم کرنے میں مدد دیں تو وہ ان کی شکایت کا ازالہ کرکے دکھائیں گی۔ عبدالحسیب خان نے جامعہ کراچی سمیت ملک کی دیگر جامعات کا انڈسٹریز سے ربط نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے مختلف جامعات کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ اپنے طلبا کو ان کے پاس انڈسٹری میں تربیت کے لیے بھیجیں لیکن ان کی اپیل اور تعاون کا کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔
انھوں نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ بنگلہ دیش اور ایتھوپیا جیسے ممالک بھی اپنے طلبا کو اسی قسم کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں جو ان کی ضرورت ہے اور یہ عمل ان کی معیشت کو مضبوط تر کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دوسری طرف ہم صرف خوبصورت باتیں ہی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری بقا بھی اسی میں ہے کہ جامعات کا انڈسٹریز کے ساتھ بھرپور اور مربوط تعاون ہو۔
سینیٹر عبدالحسیب خان نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔ ان کی باتیں کڑوی گولی کی طرح تاہم حقائق پر مبنی تھیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی جامعہ کراچی کے کچھ طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ملکی ضروریات کے دائرے میں تحقیق کی جائے اور پبلک و پرائیویٹ ادارے اکیڈمیا سے تعاون کریں تو ہمارے بیشتر مسائل ازخود حل ہوجائیں۔ اس بات کی طرف عبدالحسیب خان نے بھی اشارہ دیا ہے اور اپنا شکوہ بیان کیا ہے۔
کتنی خوشی کی بات ہے کہ ایک سینیٹر ملکی جامعات کو اپنی انڈسٹری کے ساتھ رابطہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ باہمی تعاون سے دونوں ادارے ترقی کریں اور طلبا کا مستقبل بھی درخشاں ہو لیکن ہماری غفلت کے باعث عملاً ایسا نہیں ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ عبدالحسیب خان صرف باتیں نہیں کرتے انھوں نے جامعہ کراچی میں فارمیسی ریسرچ سینٹر قائم کرنے میں مکمل مدد دی جب کہ گزشتہ روز بھی شعبہ مائیکرو بیالوجی کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے عطیہ کا اعلان کیا اور اکثر وہ جامعہ کراچی کی ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں، آج بھی ان کے ادارے میں اساتذہ و طلبا کے لیے ہر قسم کے تعاون کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اکیڈمیا اور انڈسٹریز کے درمیان عملاً ربط قائم ہوجائے اور انڈسٹریز جامعات کے طلبا کو پاس آؤٹ ہونے سے قبل ہی وہ ٹریننگ دے دیں جو ملازمت کے حصول کے لیے لازمی ہے تو بھلا ڈگری لے کر جامعات سے نکلنے والے طلبا بے روزگار کیسے رہ سکتے ہیں؟
آج کا ایک بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ تعلیم یافتہ نسل کی ایک بڑی تعداد ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے دھکے کھاتی پھرتی ہے مگر ملازمت نہیں ملتی جس کی ایک وجہ رشوت اور سفارش تو ہے ہی مگر دوسری اہم وجہ ملازمت دینے والے اداروں کے لیے ان طلبا کا غیر موزوں ہونا بھی ہے۔ ظاہر ہے کمرشل ازم کے اس دور میں جب پروڈکشن کے اداروں کے پاس اتنا وقت ہی نہ ہو کہ وہ ایک بے روزگار کو پہلے روزگار فراہم کرے اور پھر بھاری تنخواہ دینے کے باوجود اس کو عملی کام کی تربیت بھی دے تو وہ ملازمت کیوں دے گا؟ دوران تعلیم جامعات اور انڈسٹریز کے ربط سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے اور ایک طالب علم پاس آؤٹ ہونے سے قبل نہ صرف کسی ادارے میں کام کرنے کے ماحول سے آگاہ بھی ہوجاتا ہے اور بہت حد تک تربیت بھی حاصل کرلیتا ہے جو کسی بھی ملازمت کے لیے موجودہ دور میں لازمی ہے۔
راقم کے نزدیک یہ عمل صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں ہی میں نہیں بلکہ اسکول کی سطح تک رائج ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑی تعداد ان طالب علموں کی ہے جو میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کرسکتے یا مجبوریوں کے باعث میٹرک کے بعد ہی چھوٹی موٹی ملازمت کرکے اپنے گھر والوں کا معاشی بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر لیبر اور نچلے درجے کی تکنیکی ملازمت کے لیے میٹرک کے طالب علموں کو ہفتوں میں چند دن، چند گھنٹوں کی تربیت تعلیم کے موضوع کے اعتبار سے انڈسٹریز میں فراہم کردی جائے تو اس عمل سے میٹرک کے رزلٹ کے ساتھ ہی نہ صرف ان طالب علموں کو بہتر روزگار میسر آسکتا ہے بلکہ انڈسٹریز کو اپنے مطلوبہ معیار کے ملازمین بھی باآسانی مل سکتے ہیں۔
اس عمل سے ایک جانب تو بیروزگاری میں کمی آئے گی تو دوسری جانب نئی نسل میں فرسٹریشن بھی کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ تعلیم کے بعد جب ملازمت نہ ملے تو پھر بہت سے نوجوان غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے پھر گھریلو پریشانیاں اور مالی مسائل آخر کسی نوجوان کو کب تک اخلاقیات کے تابع اور حلال و حرام کی تمیز کو واضح فرق کے ساتھ سامنے رکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں؟
بیروزگاری، جرائم اور تعلیم کا ملازمت کے ساتھ مضبوط رشتہ نہ ہونا ہمارے معاشرے کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن ہم مسئلے کی جڑ کو دیکھنے اور حقائق جاننے کے بجائے مسئلے کو غیرفطری اور غیر حقیقی طور پر حل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر نوجوانوں کو تعلیم سے فراغت کے ساتھ ہی روزگار مل جائے تو وہ بھلا گلی کے نکڑ پر، فٹ بال گیم اور ڈبّو پر گروہ کی شکل میں صبح و شام کیوں بیٹھے نظر آئینگے؟ اور کیوں کسی ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ جائیں گے جو انھیں جرائم کے راستے پر چلنے کے لیے راغب اور مجبور کرے؟ یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس پر تعلیم کے شعبے سے منسلک حکومتی نمایندوں، اساتذہ اور انڈسٹریز میں بیٹھے اعلیٰ دماغوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ اس کے لیے کسی حکومتی منصوبے کا انتظار کیا جائے بلکہ یہ اپنی مدد آپ کے تحت بھی حل کیا جاسکتا ہے مثلاً اسکول، کالجز اور جامعات کے اساتذہ اپنے ایسے طلبا کی فہرست مرتب کرکے جو مختلف اداروں میں عملی ٹریننگ کے خواہشمند ہوں، نجی اداروں کے ساتھ ربط قائم کرکے بھیج سکتے ہیں جس کے جواب میں مذکورہ ادارے اپنی ضرورت کے مطابق ان طلبا کی لسٹ میں سے نام منتخب کرکے واپس اساتذہ کو بھیج سکتے ہیں۔ اس عمل کے بعد اساتذہ طلبا کو مطلوبہ ادارے سے اپنے طور پر رابطہ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ یہ کام عین ممکن ہے کیونکہ کمرشل ادارے بغیر کسی تنخواہ کے طلبا سے کام لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے اور طلبا کے لیے بھی یہ بیگار کا سودا وقتی طور پر ہوگا۔ کیونکہ اس کے عوض آگے چل کر انھیں ملازمت میں ہر ممکن مدد مل سکے گی۔
عموماً تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد طالب علم چاہتا ہے کہ اسے ملازمت ملے جب کہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ادارے انھیں تنخواہ ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، یہی بنیادی گیپ بیروزگاری کا سبب بھی بنتا ہے تاہم یہ گیپ دوران تعلیم انڈسٹریز سے ربط کی بنیاد پر ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت دونوں کی غرض تنخواہ نہیں ہوتی۔
اداروں کی سطح پر اگر تعلیمی نصاب میں پاس آؤٹ ہونے سے چھ ماہ قبل عملی تجربے کے لیے انڈسٹریز سے معاہدے کے تحت عملی کام شامل کرلیا جائے تو اس کا آؤٹ پٹ بہت اچھا آئے گا نیز اس عمل سے ملکی ضروریات کی تحقیق اور ایجادات کا سفر بھی ممکن ہوسکے گا اور ان اقدامات کی عملی شکل کے بعد ہماری معیشت میں مضبوطی بھی نمایاں طور پر آئے گی۔
اگر پبلک و پرائیویٹ سیکٹر اپنے ادارے کی ترقی و تحقیق اور مسائل کے حل کے لیے جامعات کے طلبا کو اسائنمنٹ دیں اور طلبا جامعات میں بیٹھ کر اپنی تحقیق سے ان کے مسائل و مشکلات کا حل نکالیں اور ان اداروں کی پروڈکشن بڑھانے میں معاون ثابت ہوں تو یہ نہ صرف طالب علموں، جامعات اور اداروں کے حق میں بہتر ہوگا بلکہ اس سے صحیح معنوں میں ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ آئیں غور کریں۔
ہمارے ہاں سچی اورکھری باتیں سننے اور برداشت کرنے کا کلچر عنقا ہے۔ تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کو کھری کھری باتیں بھلی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا جب جامعہ کراچی کے شعبہ مائیکروبیالوجی میں منعقدہ ایک تقریب میں سینیٹر عبدالحسیب خان نے بغیر لگی لپٹی رکھے کھری کھری باتیں سنا دیں اور جامعہ کراچی کے اساتذہ کے کردار پر کھل کر اظہار خیال کیا۔
یہ کھری باتیں اس قدر حقیقت پر مشتمل تھیں کہ تقریب کی مرکزی کردار پروفیسر شاہانہ عروج کاظمی نے مسکراتے ہوئے عبدالحسیب خان کی طرف دیکھا اور کہہ ڈالا کہ ان کے شعبے کے لیے ایک تحقیقی سینٹر قائم کرنے میں مدد دیں تو وہ ان کی شکایت کا ازالہ کرکے دکھائیں گی۔ عبدالحسیب خان نے جامعہ کراچی سمیت ملک کی دیگر جامعات کا انڈسٹریز سے ربط نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے مختلف جامعات کو بھی دعوت دی گئی کہ وہ اپنے طلبا کو ان کے پاس انڈسٹری میں تربیت کے لیے بھیجیں لیکن ان کی اپیل اور تعاون کا کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔
انھوں نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ بنگلہ دیش اور ایتھوپیا جیسے ممالک بھی اپنے طلبا کو اسی قسم کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں جو ان کی ضرورت ہے اور یہ عمل ان کی معیشت کو مضبوط تر کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دوسری طرف ہم صرف خوبصورت باتیں ہی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری بقا بھی اسی میں ہے کہ جامعات کا انڈسٹریز کے ساتھ بھرپور اور مربوط تعاون ہو۔
سینیٹر عبدالحسیب خان نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔ ان کی باتیں کڑوی گولی کی طرح تاہم حقائق پر مبنی تھیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی جامعہ کراچی کے کچھ طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ملکی ضروریات کے دائرے میں تحقیق کی جائے اور پبلک و پرائیویٹ ادارے اکیڈمیا سے تعاون کریں تو ہمارے بیشتر مسائل ازخود حل ہوجائیں۔ اس بات کی طرف عبدالحسیب خان نے بھی اشارہ دیا ہے اور اپنا شکوہ بیان کیا ہے۔
کتنی خوشی کی بات ہے کہ ایک سینیٹر ملکی جامعات کو اپنی انڈسٹری کے ساتھ رابطہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ باہمی تعاون سے دونوں ادارے ترقی کریں اور طلبا کا مستقبل بھی درخشاں ہو لیکن ہماری غفلت کے باعث عملاً ایسا نہیں ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ عبدالحسیب خان صرف باتیں نہیں کرتے انھوں نے جامعہ کراچی میں فارمیسی ریسرچ سینٹر قائم کرنے میں مکمل مدد دی جب کہ گزشتہ روز بھی شعبہ مائیکرو بیالوجی کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے عطیہ کا اعلان کیا اور اکثر وہ جامعہ کراچی کی ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں، آج بھی ان کے ادارے میں اساتذہ و طلبا کے لیے ہر قسم کے تعاون کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اکیڈمیا اور انڈسٹریز کے درمیان عملاً ربط قائم ہوجائے اور انڈسٹریز جامعات کے طلبا کو پاس آؤٹ ہونے سے قبل ہی وہ ٹریننگ دے دیں جو ملازمت کے حصول کے لیے لازمی ہے تو بھلا ڈگری لے کر جامعات سے نکلنے والے طلبا بے روزگار کیسے رہ سکتے ہیں؟
آج کا ایک بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ تعلیم یافتہ نسل کی ایک بڑی تعداد ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے دھکے کھاتی پھرتی ہے مگر ملازمت نہیں ملتی جس کی ایک وجہ رشوت اور سفارش تو ہے ہی مگر دوسری اہم وجہ ملازمت دینے والے اداروں کے لیے ان طلبا کا غیر موزوں ہونا بھی ہے۔ ظاہر ہے کمرشل ازم کے اس دور میں جب پروڈکشن کے اداروں کے پاس اتنا وقت ہی نہ ہو کہ وہ ایک بے روزگار کو پہلے روزگار فراہم کرے اور پھر بھاری تنخواہ دینے کے باوجود اس کو عملی کام کی تربیت بھی دے تو وہ ملازمت کیوں دے گا؟ دوران تعلیم جامعات اور انڈسٹریز کے ربط سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے اور ایک طالب علم پاس آؤٹ ہونے سے قبل نہ صرف کسی ادارے میں کام کرنے کے ماحول سے آگاہ بھی ہوجاتا ہے اور بہت حد تک تربیت بھی حاصل کرلیتا ہے جو کسی بھی ملازمت کے لیے موجودہ دور میں لازمی ہے۔
راقم کے نزدیک یہ عمل صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں ہی میں نہیں بلکہ اسکول کی سطح تک رائج ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑی تعداد ان طالب علموں کی ہے جو میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کرسکتے یا مجبوریوں کے باعث میٹرک کے بعد ہی چھوٹی موٹی ملازمت کرکے اپنے گھر والوں کا معاشی بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر لیبر اور نچلے درجے کی تکنیکی ملازمت کے لیے میٹرک کے طالب علموں کو ہفتوں میں چند دن، چند گھنٹوں کی تربیت تعلیم کے موضوع کے اعتبار سے انڈسٹریز میں فراہم کردی جائے تو اس عمل سے میٹرک کے رزلٹ کے ساتھ ہی نہ صرف ان طالب علموں کو بہتر روزگار میسر آسکتا ہے بلکہ انڈسٹریز کو اپنے مطلوبہ معیار کے ملازمین بھی باآسانی مل سکتے ہیں۔
اس عمل سے ایک جانب تو بیروزگاری میں کمی آئے گی تو دوسری جانب نئی نسل میں فرسٹریشن بھی کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ تعلیم کے بعد جب ملازمت نہ ملے تو پھر بہت سے نوجوان غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے پھر گھریلو پریشانیاں اور مالی مسائل آخر کسی نوجوان کو کب تک اخلاقیات کے تابع اور حلال و حرام کی تمیز کو واضح فرق کے ساتھ سامنے رکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں؟
بیروزگاری، جرائم اور تعلیم کا ملازمت کے ساتھ مضبوط رشتہ نہ ہونا ہمارے معاشرے کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن ہم مسئلے کی جڑ کو دیکھنے اور حقائق جاننے کے بجائے مسئلے کو غیرفطری اور غیر حقیقی طور پر حل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر نوجوانوں کو تعلیم سے فراغت کے ساتھ ہی روزگار مل جائے تو وہ بھلا گلی کے نکڑ پر، فٹ بال گیم اور ڈبّو پر گروہ کی شکل میں صبح و شام کیوں بیٹھے نظر آئینگے؟ اور کیوں کسی ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ جائیں گے جو انھیں جرائم کے راستے پر چلنے کے لیے راغب اور مجبور کرے؟ یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس پر تعلیم کے شعبے سے منسلک حکومتی نمایندوں، اساتذہ اور انڈسٹریز میں بیٹھے اعلیٰ دماغوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ اس کے لیے کسی حکومتی منصوبے کا انتظار کیا جائے بلکہ یہ اپنی مدد آپ کے تحت بھی حل کیا جاسکتا ہے مثلاً اسکول، کالجز اور جامعات کے اساتذہ اپنے ایسے طلبا کی فہرست مرتب کرکے جو مختلف اداروں میں عملی ٹریننگ کے خواہشمند ہوں، نجی اداروں کے ساتھ ربط قائم کرکے بھیج سکتے ہیں جس کے جواب میں مذکورہ ادارے اپنی ضرورت کے مطابق ان طلبا کی لسٹ میں سے نام منتخب کرکے واپس اساتذہ کو بھیج سکتے ہیں۔ اس عمل کے بعد اساتذہ طلبا کو مطلوبہ ادارے سے اپنے طور پر رابطہ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ یہ کام عین ممکن ہے کیونکہ کمرشل ادارے بغیر کسی تنخواہ کے طلبا سے کام لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے اور طلبا کے لیے بھی یہ بیگار کا سودا وقتی طور پر ہوگا۔ کیونکہ اس کے عوض آگے چل کر انھیں ملازمت میں ہر ممکن مدد مل سکے گی۔
عموماً تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد طالب علم چاہتا ہے کہ اسے ملازمت ملے جب کہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ادارے انھیں تنخواہ ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، یہی بنیادی گیپ بیروزگاری کا سبب بھی بنتا ہے تاہم یہ گیپ دوران تعلیم انڈسٹریز سے ربط کی بنیاد پر ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت دونوں کی غرض تنخواہ نہیں ہوتی۔
اداروں کی سطح پر اگر تعلیمی نصاب میں پاس آؤٹ ہونے سے چھ ماہ قبل عملی تجربے کے لیے انڈسٹریز سے معاہدے کے تحت عملی کام شامل کرلیا جائے تو اس کا آؤٹ پٹ بہت اچھا آئے گا نیز اس عمل سے ملکی ضروریات کی تحقیق اور ایجادات کا سفر بھی ممکن ہوسکے گا اور ان اقدامات کی عملی شکل کے بعد ہماری معیشت میں مضبوطی بھی نمایاں طور پر آئے گی۔
اگر پبلک و پرائیویٹ سیکٹر اپنے ادارے کی ترقی و تحقیق اور مسائل کے حل کے لیے جامعات کے طلبا کو اسائنمنٹ دیں اور طلبا جامعات میں بیٹھ کر اپنی تحقیق سے ان کے مسائل و مشکلات کا حل نکالیں اور ان اداروں کی پروڈکشن بڑھانے میں معاون ثابت ہوں تو یہ نہ صرف طالب علموں، جامعات اور اداروں کے حق میں بہتر ہوگا بلکہ اس سے صحیح معنوں میں ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ آئیں غور کریں۔