مغربی مابعد جدیدیت اور اُردو کا تناظر…آخری حصہ
اردو میں مابعد جدیدیت کو درآمد کرنے کا کوئی بھی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جواز پیش کیا گیا تھا۔
ان سے برسرِ پیکار ہونا شعرا اورکہانی کاروں کے بس کا روگ نہیں تھا۔ مارکسیت کے نقطہ نظر سے لوئی التھیوسے، پیئر ماشیرے، گولڈمان کے نام اہم ہیں۔ جن کے خیالات مابعد ساختیات میں ابتدا ہی سے سرائیت کرگئے ان میں ژاک دریدا اور رولاں بارتھ کے نام بہت اہم ہیں۔ تاہم اردو کے شارحین کے لیے یہ دیکھنا لازمی تھا کہ مغرب میں مرکزیت، مآخذ، مصنف اور معنی کے خاتمے جیسے خیالات سے کیا مراد تھی اور ہمارے ہاں ان وسیع سطح پر ہونے والے اعلانات کا کیا جواز تراشا جانا ضروری تھا؟ افسوس کہ ہمارے ہاں کچھ بھی نہ ہوا۔ حقیقت میں ''خاتمے'' کے تصورسے مراد ان تعقلات کی معذوری کو عیاں کرنا تھا جن کی بنیاد پر مذکورہ بالا تمام آئیڈیالوجیز کو متشکل کیا گیا تھا ۔ جب مخصوص تعقلات نئے ظہور کرتے ہوئے معاشرتی، ثقافتی اور ادبی رجحانات کی شناخت نہیں کرسکتے ہوں تو انھیں تعقلات کی معذوری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مغرب میں ژاک دریدا، پیئر ماشیرے اور رولاں بارتھ کے خیالات کے تحت ان تعقلات میں ایسے تضادات یا گیپس دکھائی دینے لگے کہ جن کے عیاں ہونے سے ان تعقلات کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ۔ اس حوالے سے دیکھیں تو مابعد جدید نظری مباحث بڑی باریکی سے مغربی سماج کے سماجی، فلسفیانہ، ادبی اور ثقافتی متون کو انتہائی قریبی ربط میں رہ کر گیپس یا تضادات کی تلاش کرتے ہیں۔لاتشکیل مغربی معاشرے کے داخلی تضادات کا اظہار ہے،اس کا گہرا تعلق ''موجودگی کی مابعد الطبیعات'' کی بنیاد پر پنپنے والے ان رجحانات کے ساتھ ہے جو الٰہیات، منطق اور علم الوجود کے اس اشتراکی نکتے کی بنیاد رکھتی ہے جو مرکزیت کی عکاسی کرتاہے۔ دریدا اور بارتھ کے ذہن میں لاتشکیل کی تشکیل کرتے وقت اسلام کا کوئی پہلو موجود نہیں تھا۔
اس نے بار بار واضح کیا کہ مابعد الطبیعات سے اس کی مراد مغربی مابعد الطبیعات کے ساتھ ہے، جو فوقیتی ترتیب کو تشکیل دے کر خارجیت کی تخفیف اور معنی کی تشکیل کا دعویٰ کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت کی لاتشکیلی جہت جن متون کو ڈی کنسٹرکٹ کرتی ہے، اور متعین معنی سے تضادات کو برآمد کرتی ہے، وہ ایک مخصوص پسِ منظر میں متشکل ہوئے تھے اور اسی وجہ سے انھیں ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یعنی معنی کی تعیین کے بعد اس کی عدم تعیین بھی مغربی سماج ہی کے تضادات کو نمایاں کرتی ہے۔ لہٰذا دونوں ہی صورتیں یعنی تشکیل اور لاتشکیل ایک مخصوص تناظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس عمل کی تفہیم کے بغیر نظری اوزاروں سے اپنے سماج میں پنپنے والے تضادات کو عیاں کرنے کا مطلب گمراہی پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
یہی غلطی وزیر آغا سے ہوئی کہ اپنے سماج کے مخصوص رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اگر مابعد جدیدیت میں سے کوئی ایک بھی ایسا نکتہ دریافت کرلیتے تو ''امتزاج'' کی بجائے اس عدمِ امتزاج کی تبلیغ کرنے لگتے جو غالب مغربی نظری مباحث سے ماورا رہتا ہے۔ مابعد جدیدیت ایک سیاسی تحریک ہے، جس کی کئی جہتیں ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈی کنسٹرکشن بنیاد پرستی کی حد تک سیاسی ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے میں نے کئی اہم نکات پر بحث کی تھی جنیں دہرانا یہاں مناسب نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت میں مضمر سیاست کو اس کی پیش کردہ ثقافتی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مابعد جدید مباحث میں دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد تحریر کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اور جہاں تک تحریر کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں سیوسئیر سے دریدا تک تمام نقاد متفق ہیں کہ تحریر حقیقت میں ثقافتی تشکیل ہے۔
اگر تحریر ثقافتی تشکیل ہے اور سماج کی تمام جہات تحریر کے اصولوں کے تحت متعین ہوتی ہیں تو تحریر کی حیثیت مرکزی کہلاتی ہے۔اس مفہوم میں تحریر یعنی ثقافتی تشکیل ہی سیاسی عمل کا تعین کرتی ہے۔ تحریر کے اصولوں کے تحت ہی سیاسی متون کی قرأت کا عمل طے پاتا ہے۔ تحریر کی ''مرکزیت'' ہی بورژوا سیاست میں کم از کم نظری سطح پر سبجیکٹ کے انہدام کا باعث بنتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت کی بنیاد پر ہی کنارے لگے ہوئے طبقات کو'' مرکز'' میں لانے کی سعی کی جاتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت ہی سے معنی کا التوا ممکن ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو تحریر ہی وہ بڑا بیانیہ ہے جو خود تو بڑا بیانیہ رہتا ہے مگر تاریخ کے بڑے بیانیے کو جسے پہلے ہی کنارے پر پڑا تصور کرلیا گیا تھا، اس کے اوصاف سے محروم کر کے مرکز میں لاتا ہے۔ لیوٹارڈ نے تحریر کی مرکزیت کا سوال اٹھا کر یہ واضح کردیا تھا کہ اب تحریر ہی تعقل کے راستے میں حائل ہوگی۔ یہی وہ نکات ہیں جن کی وجہ سے ثقافت اور سیاست کے مابین ایک اندرونی تعلق قائم ہوتا ہے۔
اگر ہم اردو میں ہونے والے مابعد جدید مباحث کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ پیداواری قوتوں کے عدم ارتقا کی وجہ سے نہ ہی تعقل اس سطح پر پہنچ پایا کہ انسان کی مرکزیت قائم کی جاتی اور بعد ازاں اس کے تعقلاتی نظام کو مابعد جدیدیت کے نام پر منہدم کیا جاتا۔ اس لیے اردو کی مابعد جدیدیت، اگر کوئی تھی، تو تعقلات کی تشکیل اور پس منظر میں پیداواری قوتوں کے اغلب کردار کی وجہ سے باطل محض تھی۔ مغرب میں اس کے خدو وخال نہ صرف علمیات کے مختلف شعبوں میں نمایاں تھے بلکہ ثقافتی حالت اور رویوں کو بھی منعکس کررہے تھے۔
ہمارے ہاں شناختوں کا بحران تو تھا مگر یہ روشن خیالی پروجیکٹ کے بحران کا نتیجہ نہیں تھا،بلکہ ہمارے ہاں دراصل حقیقی بحران روشن خیالی کا نہ پنپنا تھا، اس میں سے جس شناخت کا قضیہ پھوٹتا ہے وہ دراصل روشن خیالی کے ارتقا کے بغیر ممکن نہیں ہے، جب کہ مغربی مابعد جدیدیت کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ جدیدیت کا بحران یا اس کی توسیع تصور کی جاسکتی ہے۔مغرب میں شناختوں کا بحران کسی نئی شناخت کا پیش خیمہ نہیں ہے، جب کہ ہمارے ہاں انسان کی مرکزیت پر قائم ہوئی اس شناخت کا مسئلہ اہم ہے، جسے الٰہیاتی مابعد اطبیعات نے ایک مدت سے دبا رکھا ہے۔
اس پس منظر میں پورے یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں مابعد جدیدیت کو درآمد کرنے کا کوئی بھی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جواز پیش کیا گیا تھا۔ یعنی کوئی بھی ''نقاد'' یا محقق اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ اردو میں مابعد جدیدیت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ایسی علمیاتی، جمالیاتی ،علم البشریاتی اور سیاسی تحریکیں جو فرانس اور امریکا میں شروع ہوئیں انھیں پاکستان یا ہندوستان میں کسی بھی طرح کے تنقیدی جائزے کے بغیر کیسے قبول کرنا یا ان کا درس دینا ایک طفلانہ عمل ہے۔ خیالات کہیں خلا میں جنم نہیں لیتے۔ ان کی آفاقیت کو تناظر کی تبدیلی سے چیلنج کیا جاسکتاہے۔ اگر خیالات کو آفاقی گردان لیا جائے تو اس صورت میں بھی آفاقیت کا یہ قضیہ مابعد جدیدیت کی نظری جہت کی زد پر رہتا ہے۔
(ختم شد)
مغرب میں ژاک دریدا، پیئر ماشیرے اور رولاں بارتھ کے خیالات کے تحت ان تعقلات میں ایسے تضادات یا گیپس دکھائی دینے لگے کہ جن کے عیاں ہونے سے ان تعقلات کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ۔ اس حوالے سے دیکھیں تو مابعد جدید نظری مباحث بڑی باریکی سے مغربی سماج کے سماجی، فلسفیانہ، ادبی اور ثقافتی متون کو انتہائی قریبی ربط میں رہ کر گیپس یا تضادات کی تلاش کرتے ہیں۔لاتشکیل مغربی معاشرے کے داخلی تضادات کا اظہار ہے،اس کا گہرا تعلق ''موجودگی کی مابعد الطبیعات'' کی بنیاد پر پنپنے والے ان رجحانات کے ساتھ ہے جو الٰہیات، منطق اور علم الوجود کے اس اشتراکی نکتے کی بنیاد رکھتی ہے جو مرکزیت کی عکاسی کرتاہے۔ دریدا اور بارتھ کے ذہن میں لاتشکیل کی تشکیل کرتے وقت اسلام کا کوئی پہلو موجود نہیں تھا۔
اس نے بار بار واضح کیا کہ مابعد الطبیعات سے اس کی مراد مغربی مابعد الطبیعات کے ساتھ ہے، جو فوقیتی ترتیب کو تشکیل دے کر خارجیت کی تخفیف اور معنی کی تشکیل کا دعویٰ کرتی ہے۔ مابعد جدیدیت کی لاتشکیلی جہت جن متون کو ڈی کنسٹرکٹ کرتی ہے، اور متعین معنی سے تضادات کو برآمد کرتی ہے، وہ ایک مخصوص پسِ منظر میں متشکل ہوئے تھے اور اسی وجہ سے انھیں ڈی کنسٹرکٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یعنی معنی کی تعیین کے بعد اس کی عدم تعیین بھی مغربی سماج ہی کے تضادات کو نمایاں کرتی ہے۔ لہٰذا دونوں ہی صورتیں یعنی تشکیل اور لاتشکیل ایک مخصوص تناظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس عمل کی تفہیم کے بغیر نظری اوزاروں سے اپنے سماج میں پنپنے والے تضادات کو عیاں کرنے کا مطلب گمراہی پھیلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
یہی غلطی وزیر آغا سے ہوئی کہ اپنے سماج کے مخصوص رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اگر مابعد جدیدیت میں سے کوئی ایک بھی ایسا نکتہ دریافت کرلیتے تو ''امتزاج'' کی بجائے اس عدمِ امتزاج کی تبلیغ کرنے لگتے جو غالب مغربی نظری مباحث سے ماورا رہتا ہے۔ مابعد جدیدیت ایک سیاسی تحریک ہے، جس کی کئی جہتیں ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈی کنسٹرکشن بنیاد پرستی کی حد تک سیاسی ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے میں نے کئی اہم نکات پر بحث کی تھی جنیں دہرانا یہاں مناسب نہیں ہے۔ مابعد جدیدیت میں مضمر سیاست کو اس کی پیش کردہ ثقافتی شکل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مابعد جدید مباحث میں دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد تحریر کے اصولوں پر رکھی گئی ہے اور جہاں تک تحریر کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں سیوسئیر سے دریدا تک تمام نقاد متفق ہیں کہ تحریر حقیقت میں ثقافتی تشکیل ہے۔
اگر تحریر ثقافتی تشکیل ہے اور سماج کی تمام جہات تحریر کے اصولوں کے تحت متعین ہوتی ہیں تو تحریر کی حیثیت مرکزی کہلاتی ہے۔اس مفہوم میں تحریر یعنی ثقافتی تشکیل ہی سیاسی عمل کا تعین کرتی ہے۔ تحریر کے اصولوں کے تحت ہی سیاسی متون کی قرأت کا عمل طے پاتا ہے۔ تحریر کی ''مرکزیت'' ہی بورژوا سیاست میں کم از کم نظری سطح پر سبجیکٹ کے انہدام کا باعث بنتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت کی بنیاد پر ہی کنارے لگے ہوئے طبقات کو'' مرکز'' میں لانے کی سعی کی جاتی ہے۔ تحریر کی مرکزیت ہی سے معنی کا التوا ممکن ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو تحریر ہی وہ بڑا بیانیہ ہے جو خود تو بڑا بیانیہ رہتا ہے مگر تاریخ کے بڑے بیانیے کو جسے پہلے ہی کنارے پر پڑا تصور کرلیا گیا تھا، اس کے اوصاف سے محروم کر کے مرکز میں لاتا ہے۔ لیوٹارڈ نے تحریر کی مرکزیت کا سوال اٹھا کر یہ واضح کردیا تھا کہ اب تحریر ہی تعقل کے راستے میں حائل ہوگی۔ یہی وہ نکات ہیں جن کی وجہ سے ثقافت اور سیاست کے مابین ایک اندرونی تعلق قائم ہوتا ہے۔
اگر ہم اردو میں ہونے والے مابعد جدید مباحث کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ پیداواری قوتوں کے عدم ارتقا کی وجہ سے نہ ہی تعقل اس سطح پر پہنچ پایا کہ انسان کی مرکزیت قائم کی جاتی اور بعد ازاں اس کے تعقلاتی نظام کو مابعد جدیدیت کے نام پر منہدم کیا جاتا۔ اس لیے اردو کی مابعد جدیدیت، اگر کوئی تھی، تو تعقلات کی تشکیل اور پس منظر میں پیداواری قوتوں کے اغلب کردار کی وجہ سے باطل محض تھی۔ مغرب میں اس کے خدو وخال نہ صرف علمیات کے مختلف شعبوں میں نمایاں تھے بلکہ ثقافتی حالت اور رویوں کو بھی منعکس کررہے تھے۔
ہمارے ہاں شناختوں کا بحران تو تھا مگر یہ روشن خیالی پروجیکٹ کے بحران کا نتیجہ نہیں تھا،بلکہ ہمارے ہاں دراصل حقیقی بحران روشن خیالی کا نہ پنپنا تھا، اس میں سے جس شناخت کا قضیہ پھوٹتا ہے وہ دراصل روشن خیالی کے ارتقا کے بغیر ممکن نہیں ہے، جب کہ مغربی مابعد جدیدیت کی کوئی سمت نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ جدیدیت کا بحران یا اس کی توسیع تصور کی جاسکتی ہے۔مغرب میں شناختوں کا بحران کسی نئی شناخت کا پیش خیمہ نہیں ہے، جب کہ ہمارے ہاں انسان کی مرکزیت پر قائم ہوئی اس شناخت کا مسئلہ اہم ہے، جسے الٰہیاتی مابعد اطبیعات نے ایک مدت سے دبا رکھا ہے۔
اس پس منظر میں پورے یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں مابعد جدیدیت کو درآمد کرنے کا کوئی بھی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جواز پیش کیا گیا تھا۔ یعنی کوئی بھی ''نقاد'' یا محقق اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کہ اردو میں مابعد جدیدیت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ایسی علمیاتی، جمالیاتی ،علم البشریاتی اور سیاسی تحریکیں جو فرانس اور امریکا میں شروع ہوئیں انھیں پاکستان یا ہندوستان میں کسی بھی طرح کے تنقیدی جائزے کے بغیر کیسے قبول کرنا یا ان کا درس دینا ایک طفلانہ عمل ہے۔ خیالات کہیں خلا میں جنم نہیں لیتے۔ ان کی آفاقیت کو تناظر کی تبدیلی سے چیلنج کیا جاسکتاہے۔ اگر خیالات کو آفاقی گردان لیا جائے تو اس صورت میں بھی آفاقیت کا یہ قضیہ مابعد جدیدیت کی نظری جہت کی زد پر رہتا ہے۔
(ختم شد)