حکومت کی ذمے داریاں کیا کیا

پانچ برسوں اور اس سے پہلے کے پانچ برسوں اور اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں کیا کچھ بدلا؟ صرف حکومتی چہرے۔ ۔ ۔


Shehla Aijaz January 07, 2013
[email protected]

ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ایک خبر نظر سے گزری تھی جس میں چینی فوج میں پرتعیش کھانوں پر پابندی لگانے اورمہنگے تحائف کے لین دین پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔ خبر خاصی دلچسپ تھی یعنی اب چین میں فوج کے بڑے افسران کے لیے علیحدہ سے ضیافت کا انتظام ختم، اب سب افسران کو عام فوجیوں کی طرح عام کھانا قطاریں لگا کر لینا ہوگا، اسی طرح بڑے اور مہنگے تحائف کے لین دین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پابندی لگادی گئی، یہ تمام پابندیاں دراصل اخراجات کو کم کرنے کی پالیسی پر مبنی تھیں۔

حکومت کا یہ اقدام چینی عوام کے لیے کس حد تک مفید ثابت ہوسکتا ہے یہ کچھ ہی عرصے میں چینی عوام پر عیاں ہوجائے گا۔دنیا بھر میں چینی مصنوعات کی شہرت چینی طاقت چینی پالیسیاں دنیا بھر میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ بڑی طاقتوں کے لیے چین کی اہمیت کیا ہے اس سے خود چین بھی اچھی طرح سے واقف ہے لیکن اپنے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اس نے جس انداز سے پابندیاں عائد کی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نظریں کتنی بلندی پر ہیں، ظاہر ہے کہ جب حکومت کی اخراجات کی کمی کے حوالے سے اتنی سخت پابندیاں ہیں تو عوام کے لیے کیا کچھ ہوگا ؟

ہر منتخب حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کے لیے کام کرے۔ بے نظیربھٹو کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے المناک واقعے نے بڑے بڑوں کی آنکھیں نم کردی تھیں اور نتیجتاً پیپلز پارٹی کے لیے لوگوں کے دل میں نرمی پیدا ہوگئی اور یوں ایک جمہوری حکومت سامنے آئی بظاہر تو بہت کچھ محسوس ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جہاں ایک جمہوری حکومت اپنا وقت پورا گزارتی رہی وہیں بہت سے بخیئے کھل کر سامنے آگئے پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جو اپنی مدت پوری کر رہی ہے لیکن اس جمہوری حکومت نے اتنے برسوں کیا کام کیے، کتنے منصوبے مکمل کیے، کتنے ترقی کے پروجیکٹس ادھورے پڑے ہیں اور کتنے محض کاغذی کارروائی سے آگے بڑھ نہیں پائے۔

یوسف رضا گیلانی ملتان کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جب وزارت کی کرسی پر بٹھائے گئے تو خیال تھا کہ کم ازکم ملتان کی حالت تو ضرور سدھرے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ ملتان اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی، بے روزگاری کا تناسب بھی وہی رہا، ذرا کراچی میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیے سرائیکی بولنے والے آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے، ان کا ایک ہی گلہ ہے کہ ان کو اپنے علاقے میں روزگار نہیں ملتا، اس لیے وہ کیا کرتے، اپنا علاقہ چھوڑ کر کراچی کا رخ کرنا پڑا اور کراچی کے بے روزگار۔۔۔۔۔۔؟ خیر بارشوں نے بھی دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں مالی مسائل پیدا کیے ۔

جو ہمارے ایک عزیز نے اپنے ادھورے گھر میں کسی غریب سرائیکی خاندان کو رکھا ہوا تھا اس طرح گھر کی حفاظت بھی ہورہی تھی اور گھر والوں کو چھت بھی نصیب ہورہی تھی کچھ عرصے بعد وہ خاندان دوبارہ صادق آباد چلا گیا۔ بارشیں ہوئیں تو تھوڑے عرصے بعد وہ خاندان پھر کراچی آگیا ، پوچھا گیا کہ اب کیوں آئے ہو تو جواب ملا کہ بارشوں سے بہت بربادی ہوئی ہے ہمارے علاقے میں تو اب بھی پانی بھرا ہے ہم اپنے علاقے میں رہنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں کوئی پوچھتا ہی نہیں ادھر، مجبوراً دوبارہ کراچی آنا پڑا۔

اب ایک بدلتا ٹرینڈ دیکھا گیا ہے ۔ پہلے کراچی میں اندرون سندھ سے لوگ بہت بڑی تعداد میں آتے تھے لیکن اب اندرون سندھ کی بجائے اندرون پنجاب سے ہر روز لوگوں کی بڑی تعداد کراچی منتقل ہورہی ہے یہ وہ اپنے علاقوں کی حالت سے پریشان لوگ ہیں جو اپنے گھروں کو بحالت مجبوری چھوڑ کر دوسری جگہ صرف روزی روٹی کے حصول کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، اسی نقل مکانی نے بڑے شہر خالی کرکے رکھ دیے ہیں۔کراچی کے مسائل سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں، چوری، ڈکیتی، اغواء اور قتل کی وارداتیں عام ہورہی ہیں۔ ڈکیتی کے حوالے سے مختلف علاقوں سے جرائم پیشہ افراد باقاعدہ پلاننگ کے تحت بڑے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں اور واردات کے بعد دوبارہ اپنے علاقے میں روپوش ہوجاتے ہیں اس طرح کراچی شہر بدامنی کا گہوارہ بنتا جارہا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری حکومت کے منتخب کردہ نمایندے الیکشن کے دنوں میں بہت سر چڑھ کر بولتے ہیں جیسے عوام کے لیے درد رکھنا ان کے کام آنا ان کی سب سے بڑی ذمے داری ہے، لیکن اصل میں ان کا کام الیکشن سے پہلے معصوم ووٹرز کو رجھانے کا ہوتا ہے، عوام ان کے جال میں آجاتے ہیں اور پھر منتخب نمایندے ان کے ووٹوں سے کھیلتے نوٹوں کے درختوں پر چڑھ جاتے ہیں اپنے اپنے علاقوں کی فکر سے زیادہ انھیں اپوزیشن کے رویے اور حرکات و سکنات کی فکر ہوتی ہے، اسمبلیوں میں سوائے بحث مباحثے کے کیا ہوتا ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے کیا اس کا براہ راست عوام کو فائدہ ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں، ہمارے سیاسی نمایندے سیاست کی بساط پر کھیلنے کو حکومت کرنا سمجھتے ہیں۔

حالانکہ عوام کے لیے کام کرنا ہی ان کا کام ہے جس کے لیے انھیں حکومت کی جانب سے بھاری تنخواہیں بھی ملتی ہیں وہ کسی پر احسان تو نہیں کرتے البتہ کچھ نہ کرکے عوام پر ظلم ضرور کرتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں بارشیں جس طرح تباہی مچا رہی ہیں اس کے لیے حکومتی لیول پر کیا انتظامات کیے گئے جس سے چھوٹے شہروں اور دیہات میں نکاسی کا مناسب بہاؤ ہوسکے، بارش کے قیمتی پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ حکومتی حوالے سے ایک بہت معمولی سے مسئلے کو پیش کرتی ہوں ۔ لاڑکانہ میں ستمبر 2006 میں دماغی امراض کے لیے ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین جیسے مہنگے ٹیسٹوں کو سہل بنانے کے لیے چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال میں ان مشینوں کے منصوبے کو باقاعدہ منظور کیا گیا تھا، اعلیٰ درجے کی منظوریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی اس پر ذرا برابر کام نہ ہوا۔

یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ عام پرائیویٹ لیبارٹریز میں بہت مہنگے پڑتے ہیں جو ایک غریب انسان کے بس سے باہر ہے، لیکن ہائے ہماری حکومت۔۔۔۔۔۔ان چار ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین یونٹس کی قیمت 564 ملین روپے بنتی تھی۔ فی یونٹ کی سول اسپتال کراچی، جامشورو، نوابشاہ اور چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال میں منتقلی تھی لیکن ایسا ہو نہ سکا، سابقہ ایم ایس ذوالفقار سیال نے جنوری 2010 میں صوبائی وزارت صحت کے سیکریٹری کو شکایتی خط لکھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خط کے لکھنے سے پہلے ایم ایس نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثار احمد کھوڑو کو 30 اکتوبر 2009 کو اسی منصوبے کے افتتاح کے لیے مدعو کیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس منصوبے کے لیے حکومت کے پاس فنڈ نہیں ہیں کہ جس سے کام شروع کیا جاسکے۔

اس افتتاحی تقریب سے ذوالفقار سیال کو کتنا ثواب پہنچا یہ تو وہی جان سکتے تھے لیکن 2006 میں ایک بڑا منصوبہ جسے عوام کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا کاغذی کارروائیوں کی نذر ہوگیا۔ عمر کوٹ اور سانگھڑ میں کتنے اسپتال اور اسکول ہیں، بدین میں منشیات کی کیا صورت حال ہے، خسرہ کی وبا سے کتنے بچے جاں بحق ہوئے یہ سب درد بھرے سوال ہیں، لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ الیکشن کیوں ہوتے ہیں؟ پاکستان کی غریب عوام چاہے بلوچستان میں ہو، خیبرپختونخوا، سندھ یا پنجاب میں ہو کیا ان کا بھلا ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ان پچھلے پانچ برسوں اور اس سے پہلے کے پانچ برسوں اور اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں کیا کچھ بدلا؟ صرف حکومتی چہرے... غریب عوام دال روٹی، مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں