ذکرِ الٰہی حصولِ معرفت کا ذریعہ
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں، میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں، جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے۔
اسلامی اصطلاح میں ذکر سے مراد اللہ تعالٰی کو یاد کرنا ہے۔ ذکر کے بالمقابل غفلت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
انسان ہمیشہ اسی کو یاد کرتا ہے، جس کے ساتھ اس کا گہرا لگاؤ ہو اور یہ دلی لگاؤ مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ یہ وجوہ اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بری بھی۔ ایک مومنِ کامل کی دلی محبت اور مخلصانہ الفت صرف ذات الٰہی اور اس کے محبوب کریم ﷺ سے ہوتی ہے۔ بلاشبہ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، اولاد اور عزیز اقارب کے ساتھ بھی محبت ہوتی ہے اور یہ محبت شرعا جائز اور فطری بھی ہے۔ مگر مومن کامل کا جو خصوصی تعلق ذاتِ حق کے ساتھ ہوتا ہے، دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں ہوتا۔
اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: '' مومن کو سب سے زیادہ محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔'' اور پھر جب تک ہم اس کے پیغمبر آخر ﷺ سے اپنی جان، مال اور اولاد سے بڑھ کر محبت نہیں رکھتے تو ہمارا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ حُبِ خداوندی کا تقاضا ہے کہ ذکر الٰہی ہر لمحہ ورد زبان رہے۔ سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ آپؐ ہر لمحے اللہ کو یاد کرتے تھے۔ مومن کی شان بھی یہی ہے کہ وہ اللہ کو ہر دم یاد رکھے۔
خود اللہ تعالٰی نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومن وہ ہیں جو کھڑے ہوئے، بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا یاد کرتے ہیں۔ اور پھر جب بندہ اپنے مالک حقیقی کو یاد کرتا ہے تو محبت کی یہ تحریک دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ جب بندہ اپنے اللہ کو یاد کرتا ہے، تو اللہ بھی اسے یاد فرماتا ہے۔ بندے کی معراج یہ ہے کہ اس کا ذکر خود رحمن کرے۔
احادیث مبارکہ میں کثرت سے ذکر کے فضائل سرکار دوعالم ﷺ نے امت کو بیان فرمائے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں، میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے۔
ترمذی شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم جنت کے باغات سے گزرا کرو، تو وہاں سے کچھ کھایا کرو۔
صحابہ کرام ؓنے استفسار کیا کہ جنت کے باغ کون سے ہیں۔۔۔؟
اللہ کے حبیب کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے: '' اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو، تاکہ تمہیں کام یابی حاصل ہو۔''
سیدہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انسان کی جو گھڑی ذکر الہی سے خالی گزری، وہی قیامت میں حسرت کا باعث ہوگی۔
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں حاصل ہوتے۔ حضرت عبداللہ بن یسر ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولؐ، اسلام کے احکامات کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے لہذا آپؐ مجھے کوئی آسان سی بات بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا آپؐ نے فرمایا کہ افضل ذکر لاالہ الااللہ اور افضل دعا الحمدﷲ ہے۔
آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ( اللہ بہ طور فخر) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے، جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔
ذکر الٰہی، شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اور ذاکر سے اللہ راضی ہو جاتا ہے۔ ذکر الٰہی، غموں، دکھوں اور پریشانیوں کا علاج ہے۔ ذکر الٰہی سے دل میں سکون، مسرت اور خوشی پیدا ہوتی اور بدن کو تقویت ملتی ہے۔ ذکر الٰہی قرب الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے اس سے معرفت و حقیقت کے دروازے کھلتے ہیں۔ ذکر الٰہی کرنے سے معرفت کے ساتھ دل میں اللہ کی ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے۔ ذکر الہی کرنے والے کا ذکر خود اللہ کرتا ہے۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگ دستی دور فرما دیتا ہے۔ انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے۔ ذکر کی وجہ سے انسان اللہ کا برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ ذکر کی برکتوں سے وہ نعمتیں عطا ہوتی ہیں، جو مانگنے سے بھی نہیں مل سکتیں۔
ذکر خدا سب عبادات سے افضل اور آسان عبادت ہے۔ اللہ تعالی ذکر کی بہ دولت ذاکرین کی دنیا خوب صورت بناتا ہے، قبر اور آخرت بھی روشن فرما دیتا ہے۔ ذکر سے دل کی سختی دور ہوکر نرمی میں بدل جاتی ہے۔ ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے۔ ذکرالہی، ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے۔ ذکر الٰہی، اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤں کا موجب ہے۔ ذکر الٰہی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوگا۔ ذکر انسان اور جہنم کے درمیان دیوار بن جاتا ہے۔ فرشتے اللہ کے ذاکر کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ سبحان اﷲ، والحمدﷲ، اور ولاالہ الااللہ واﷲاکبر کہنا میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے، اس کے برعکس ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
جو اللہ کے ذکر پاک سے انحراف کرتے ہیں اللہ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے۔
اللہ کریم ہمیں اپنے ذکر کی حقیقی لذتوں سے آشنا فرما کر ہمیں ہر لمحہ اپنی یاد اور اپنے محبوب کریم ﷺ کی یاد کی بے مثال، لازوال و باکمال دولت سے سرفراز فرمائے۔ امت مسلمہ کی انفرادی و اجتماعی مشکلات کو اپنے نبی کریم ﷺ کے طفیل آسان فرمائے اور ہمیں صالح حکم ران عطا فرمائے۔ آمین
انسان ہمیشہ اسی کو یاد کرتا ہے، جس کے ساتھ اس کا گہرا لگاؤ ہو اور یہ دلی لگاؤ مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر ہوسکتا ہے۔ یہ وجوہ اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بری بھی۔ ایک مومنِ کامل کی دلی محبت اور مخلصانہ الفت صرف ذات الٰہی اور اس کے محبوب کریم ﷺ سے ہوتی ہے۔ بلاشبہ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، اولاد اور عزیز اقارب کے ساتھ بھی محبت ہوتی ہے اور یہ محبت شرعا جائز اور فطری بھی ہے۔ مگر مومن کامل کا جو خصوصی تعلق ذاتِ حق کے ساتھ ہوتا ہے، دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں ہوتا۔
اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: '' مومن کو سب سے زیادہ محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔'' اور پھر جب تک ہم اس کے پیغمبر آخر ﷺ سے اپنی جان، مال اور اولاد سے بڑھ کر محبت نہیں رکھتے تو ہمارا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ حُبِ خداوندی کا تقاضا ہے کہ ذکر الٰہی ہر لمحہ ورد زبان رہے۔ سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ آپؐ ہر لمحے اللہ کو یاد کرتے تھے۔ مومن کی شان بھی یہی ہے کہ وہ اللہ کو ہر دم یاد رکھے۔
خود اللہ تعالٰی نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومن وہ ہیں جو کھڑے ہوئے، بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا یاد کرتے ہیں۔ اور پھر جب بندہ اپنے مالک حقیقی کو یاد کرتا ہے تو محبت کی یہ تحریک دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ جب بندہ اپنے اللہ کو یاد کرتا ہے، تو اللہ بھی اسے یاد فرماتا ہے۔ بندے کی معراج یہ ہے کہ اس کا ذکر خود رحمن کرے۔
احادیث مبارکہ میں کثرت سے ذکر کے فضائل سرکار دوعالم ﷺ نے امت کو بیان فرمائے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں، میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے۔
ترمذی شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم جنت کے باغات سے گزرا کرو، تو وہاں سے کچھ کھایا کرو۔
صحابہ کرام ؓنے استفسار کیا کہ جنت کے باغ کون سے ہیں۔۔۔؟
اللہ کے حبیب کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے: '' اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو، تاکہ تمہیں کام یابی حاصل ہو۔''
سیدہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انسان کی جو گھڑی ذکر الہی سے خالی گزری، وہی قیامت میں حسرت کا باعث ہوگی۔
ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں حاصل ہوتے۔ حضرت عبداللہ بن یسر ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولؐ، اسلام کے احکامات کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے لہذا آپؐ مجھے کوئی آسان سی بات بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا آپؐ نے فرمایا کہ افضل ذکر لاالہ الااللہ اور افضل دعا الحمدﷲ ہے۔
آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انھیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ( اللہ بہ طور فخر) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے، جو اس کے پاس ہوتے ہیں۔
ذکر الٰہی، شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اور ذاکر سے اللہ راضی ہو جاتا ہے۔ ذکر الٰہی، غموں، دکھوں اور پریشانیوں کا علاج ہے۔ ذکر الٰہی سے دل میں سکون، مسرت اور خوشی پیدا ہوتی اور بدن کو تقویت ملتی ہے۔ ذکر الٰہی قرب الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے اس سے معرفت و حقیقت کے دروازے کھلتے ہیں۔ ذکر الٰہی کرنے سے معرفت کے ساتھ دل میں اللہ کی ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے۔ ذکر الہی کرنے والے کا ذکر خود اللہ کرتا ہے۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگ دستی دور فرما دیتا ہے۔ انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے۔ ذکر کی وجہ سے انسان اللہ کا برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ ذکر کی برکتوں سے وہ نعمتیں عطا ہوتی ہیں، جو مانگنے سے بھی نہیں مل سکتیں۔
ذکر خدا سب عبادات سے افضل اور آسان عبادت ہے۔ اللہ تعالی ذکر کی بہ دولت ذاکرین کی دنیا خوب صورت بناتا ہے، قبر اور آخرت بھی روشن فرما دیتا ہے۔ ذکر سے دل کی سختی دور ہوکر نرمی میں بدل جاتی ہے۔ ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے۔ ذکرالہی، ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے۔ ذکر الٰہی، اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤں کا موجب ہے۔ ذکر الٰہی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوگا۔ ذکر انسان اور جہنم کے درمیان دیوار بن جاتا ہے۔ فرشتے اللہ کے ذاکر کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ سبحان اﷲ، والحمدﷲ، اور ولاالہ الااللہ واﷲاکبر کہنا میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے، اس کے برعکس ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
جو اللہ کے ذکر پاک سے انحراف کرتے ہیں اللہ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے۔
اللہ کریم ہمیں اپنے ذکر کی حقیقی لذتوں سے آشنا فرما کر ہمیں ہر لمحہ اپنی یاد اور اپنے محبوب کریم ﷺ کی یاد کی بے مثال، لازوال و باکمال دولت سے سرفراز فرمائے۔ امت مسلمہ کی انفرادی و اجتماعی مشکلات کو اپنے نبی کریم ﷺ کے طفیل آسان فرمائے اور ہمیں صالح حکم ران عطا فرمائے۔ آمین