پاکستان ترکی اور جمہوریت

سیاسی جماعتیں آمریت کا راستہ مستقل بنیادوں پر روکنا چاہتی ہیں تو انھیں اپنے اقدامات سے عوام کو یقین دلانا ہوگا

ایک ایسے وقت جب پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی مدت اب تقریباً پوری کرچکی ہے اور عام انتخابات زیادہ سے زیادہ4یا 5 ماہ کے فاصلے پرہیں تو یہ بحث زور پکڑتی جارہی ہے کہ آیا انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟نگراں حکومت کتنی مدت کے لیے تشکیل دی جائے گی؟اور کیابنگلہ دیش ماڈل کا تجربہ پاکستان میں بھی کیاجائے گا؟تحریک منہاج القرا ن کے خوش گفتار اور خوش لباس قائد علامہ طاہر القادری کی پاکستان آمد، مینار پاکستان پر جلسے ،ایم کیوایم کی جانب سے حمایت اور لانگ مارچ کے اعلان کے بعدعام انتخابات کے بروقت انعقاد اور نگراں حکومت کی تشکیل کے معاملے نے اور زیادہ اہمیت اختیارکرلی ہے۔

سوال یہ ہے پاکستان میں جب کبھی بھی عام انتخابات کا وقت قریب ہوتا ہے تو جمہوری نظام کیوں داؤ پرلگ جاتا ہے ؟کیوں انتخابات نہیں احتساب ، چہرے نہیں نظام بدلو اور ریاست نہیں سیاست بچاؤ جیسے نعرے فضا میں گونجنے لگتے ہیں ؟ہم جانتے ہیںکہ 90 کی دہائی کی وسط میں جب صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی جماعت کو ایوان اقتدار سے چلتا کیا تو ایک دینی جماعت کے سربراہ نے انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ بلند کیا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھرمیں جلوسوں اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ایک معروف میوزیکل گروپ نے احتساب کے نعرے کو گانے کی شکل دی تو یہ مطالبہ زبان زدعام ہوگیا ۔انتخابات تو مقررہ وقت پر ہوگئے مگر میاں صاحب ہیوی مینڈیٹ کے باوجود زیادہ عرصے ایوان وزیراعظم میں قیام نہ کرسکے اورجلد ہی ملک میں اگلے نو سال کے لیے فوجی راج قائم ہوگیا۔

پاکستان میں جمہوری عمل کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ ایوان میں بیٹھے منتخب نمایندوں کو ہرچند ماہ بعد کبھی بوٹوںکی آوازسنائی دینے لگتی ہے تو کبھی امپورٹڈ وزیراعظم کے نام شہر اقتدار کی فضاؤں میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کو لاحق خطرات کی ایک بڑی وجہ تو بار بار کی فوجی مداخلت ہے لیکن اب تو سابق جرنیل برملا یہ بات کہتے ہیں کہ وہ خود نہیں آتے بلکہ سیاستدان انھیں دعوت دیتے ہیں۔ خیال تھا کہ میثاق جمہوریت اور اعلان مری جیسے وعدوں اور معاہدوں کے بعد اب ملک میں جمہوریت کبھی پٹڑی سے نہ اترے گی مگر اس کا کیا کیجیے کہ اب جب کہ عام انتخابات چندماہ کے فاصلے پر ہیں تو بعض سیاستدان اس پٹڑی کو ہی اکھاڑ پھینکنے کی بات کررہے ہیں ۔

دراصل جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوجائیں تو اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں اکثریت ان پڑھ ہو وہاں عوام اس بات کی زیادہ پروا نہیں کرتے کہ آئین میں کیا لکھا ہے؟ پھر اگر آئین کو کاغذکا ٹکڑا قرار دینے والا آمر انھیں کچھ ریلیف فراہم کردے تو وہ اسی کو مرد مومن مرد حق قرار دے ڈالتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی سطح پر جس قدر پذیرائی ذوالفقار علی بھٹو کو ملی وہ شاید ہی کسی کو مل سکے مگر یہ بات بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ اگر عوام کسی منتخب نمایندے کی مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھے کہ اس کے خلا ف تحریک میں اپنی جان و مال تک قربان کرنے سے گریز نہ کیا تو وہ بھی قائد عوام ہی تھے۔

ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اگر ملک میں جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہیں توانھیں کچھ سبق دوست ملک ترکی سے ضرور سیکھنا چاہیے جس کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی مثالیں آج ہر جگہ دی جاتی ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کوکم ازکم سانس لینے کی آزادی تو ہمیشہ رہی ہے مگر ترکی میںتو کمال اتاترک کے بعد سے فوج نظام پر اس قدر حاوی تھی کہ جب کسی نے اس نظام کو تبدیل کرنے کی معمولی سے جرات بھی کی تو یا اس کا مقدر سزائے موت ٹھہری جیسے عدنان مندریس یا پھر اس کی حکومت کو چند ماہ بعد ہی چلتا کرکے اس جماعت پر ہی پابندی عائد کردی گئی جیسے نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی۔پاکستان میں نیشنل سیکیورٹی کونسل نامی کسی ادارے کا وجود نہیں ہے مگر ترکی میں اب بھی فوجی سربراہ اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔


ایک ایسے ملک سے، جہاں عشروں تک فوج نظام پر مکمل قابض رہی ہو ،جب ہر چند ماہ بعد یہ خبر آئے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں سابق آرمی چیف سمیت متعدد جرنیل گرفتار کرلیے گئے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی ترکی ہے جہاں بلامبالغہ سیاستدان فوج کی اجازت کے بغیر چھینک بھی نہیں مار سکتے تھے ۔

سوال یہ ہے کہ رجب طیب اردگان کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی تھی یا کوئی الہامی نسخہ کہ جس پر عمل پیرا ہوکر انھوں نے نہ صرف سیاسی عمل سے فوجی مداخلت ختم کردی بلکہ ماضی میں بغاوتیں کرنے والے جرنیل اب کٹہرے میں کھڑے ہیں۔درحقیت ترک وزیر اعظم نے دس سال قبل جب اقتدار سنبھالا تو ملک میں افرا ط زر کی شرح 30فیصد تک پہنچ چکی تھی، کرنسی کی اہمیت کاغذکے ٹکڑے سے زیادہ نہ تھی ،کرپشن عروج پر تھی اور ادارے تباہ حال تھے ۔مگر 10 سال بعد ملک کی صورتحال یہ ہے کہ ترک سرمایہ کار سرمایہ لیے گھوم رہے ہیں کہ اب بیرون ملک کہاں سرمایہ کاری کی جائے ؟افراط زر کی شرح 10فیصد پر آگئی ہے جسے رواںسال 5فیصد تک لانے کا پروگرام ہے،2012 میں ملکی برآمدات میں 13فیصد تک اضافہ ہوا ۔

ایک ایسے وقت جب امریکی اور یورپی معیشتیں بدترین دور سے گزر رہی ہیں ترک اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں ۔یورپ میںکتنی ہی جماعتوں کو اس بناء پر انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اقتصادی بحران پر قابو پانے میں ناکام رہیں مگر ترکی میں خواہ پارلیمانی انتخابات ہوں یابلدیاتی انتخابات خواہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم ہو،ہرمرتبہ کامیابی اے کے پارٹی کے حصے میں آئی ۔صرف2011 کے عام انتخابات میںحکمراں جماعت نے کل 50 فیصد ووٹ حاصل کیے حالانکہ جب کہ 2002 میں جب یہ جماعت پہلی بار برسر اقتدار آئی تھی تو اس نے صرف34فیصد ووٹ حاصل کیے تھے ۔ترک مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ اے کے پارٹی کی عوام میں مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ابھی آیندہ 10سال تک بھی یہی جماعت ملک پر حکومت کرے گی۔

یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ 10 سال کے اس عرصے میں طیب اردگان شفافیت کے ساتھ حکومت کرتے رہے اور ترک فوج خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ اس دوران کئی بار فوجی بغاوتوں کی کوشش ناکام بنائی گئی ، عدلیہ میں حکمران جماعت کو کالعدم قرار دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی ، صدر اور وزیر اعظم کی اہلیہ کے اسکارف پہننے پر لبرل جماعتوں نے ہنگامہ بھی کیا ،مگر ملک میں جب کبھی کسی بحران نے سر اٹھانا شروع کیا تو حکمران جماعت نے بجائے من مانے فیصلے کرنے کے عوام سے رابطہ کیا ، قبل از وقت انتخابات کرائے اور پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے اپنی گرفت اور مضبوط کرلی۔

آج تر ک وزیر اعظم کے پیچھے ترک عوام کھڑے ہیں اور فوج ایوان اقتدار کے بجائے بیرکوں میں ہے۔ اگر پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں آمریت کا راستہ مستقل بنیادوں پر روکنا چاہتی ہیں تو انھیں اپنے اقدامات سے عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ملکی ترقی اور استحکام کا ضامن صرف جمہوریت ہے بصورت دیگر عوام اس بات سے لاتعلق ہی رہیں گے کہ شہر اقتدارمیں شیروانی والے بیٹھے ہیں یا وردی والے؟
Load Next Story