غیر آئینی مہم جوئی سے باز رہا جائے

عوام کی رائے اور ووٹ کی طاقت پر اعتماد کیا جائے تاکہ ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔


Nasir Alauddin Mehmood January 07, 2013

دورجدید میں جمہوریت ہی وہ نظام حکومت ہے کہ جو دنیا بھر میں کامیابی کے ساتھ رائج ہے اور آج جن ریاستوں میں جمہوری نظام اپنی جڑیں مستحکم کرچکا ہے ان کا شمار معاشی، اقتصادی اور عسکری طور پر مضبوط ریاستوں میں ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی حکمرانی کا تصور پارلیمنٹ کی بالادستی ہی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔پارلیمنٹ جو پوری قوم کی اجتماعی دانش گاہ ہوتی ہے ۔اس میں ملک کے کونے کونے میں بسنے والوں،مختلف زبانیں بولنے والوں اورہر رنگ ونسل،عقیدے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی نمایندگی موجود ہوتی ہے۔اس طرح عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو بجا طور پر معاشرے کے تمام طبقات کی نمایندگی کرنے والا قومی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

منتخب پارلیمنٹ چونکہ عوام کے اعتماد کا مظہر ہوتی ہے لہٰذا پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے والی قانون سازی کو پوری قوم کی مرضی اور خواہشات کا عکاس تسلیم کیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں بدقسمتی سے آئین کی پاسداری اور اس پر حقیقی روح کے مطابق عملدرآمد کی تاریخ بہت قابل رشک نہیں رہی ہے چونکہ ماضی میں ہمارے حکمراں اور طاقتور غیر جمہوری عناصر اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے آئین سے ناصرف انحراف کرتے رہے ہیں بلکہ ماورائے آئین اقدامات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں جن کے تحت کبھی آئین کو معطل تو کبھی منسوخ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے وہاں امور مملکت آئین کے مطابق ہی سر انجام دیے جاتے ہیں ۔آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ہی ایک حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کے ذریعے حکومتی اختیارات کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کو منتقل کرتی ہے ۔اس طرح انتقال اقتدار کا بہ ظاہر ایک مشکل کام آئین پر عملدرآمد کے ذریعے پرامن طور پر بآسانی انجام پا جاتا ہے۔ ہماری قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی جمہوری حکومت آمریت کی چھتری کے بغیر اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے والی ہے ۔یہ اس امر کی جانب واضح نشاندہی ہے کہ جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جمہوری نظام کو اب کوئی طالع آزما اپنی خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھا سکے گا۔

اس موقعے پر اس نوعیت کے مطالبات کرنا کہ نگراں حکومت کے قیام کے مشاورتی عمل میں آئینی طریقہ کار سے ہٹ کرپارلیمنٹ کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے علاوہ ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے ایک خطرناک رجحان کی نشان دہی کرتا ہے ۔انتخابات سے محض چند ماہ قبل علامہ طاہرالقادری کا پاکستان میں نزول فرمانا اور 40لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے وہاں اس وقت تک دھرنا دیے رکھنا جب تک انتخابی اصلاحات اور نگراں حکومت کے حوالے سے ان کے مطالبات کو قبول نہیں کرلیا جاتا ،نہ صرف آئین سے انحراف ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ملک سے جمہوریت کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

اگر اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے کا یہی طریقہ ریاست میں رائج ہوجائے تو اول تو آئین کی حکمرانی کا تصور ہی ختم ہوجائے گا اور اگرآئین سے ماورا مطالبات کو احتجاج کے ذریعے تسلیم کروانے کی روایت قائم ہوگئی تو ملک انارکی اور خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ اس طرح کوئی بھی حکومت یکسوئی کے ساتھ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے، بلیک میلنگ کا شکار رہے گی اور ملک میں بھی ہر وقت ہنگامہ آرائی کی وجہ سے انارکی کی صورتحال پیدا رہے گی جوکہ خود عوام اور ریاست دونوں کے لیے مشکلات کا باعث بنے گی۔

علامہ طاہرالقادری کے اس حق سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اصلاحات کے لیے مطالبات کریں تاہم اختلاف اس وقت اور طریقہ کار کے انتخاب سے ہے جو انھوں نے اختیار کیا ہے۔قومی انتخابات کے انعقاد میں اب جب کہ صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو اس وقت اتنے طویل مطالبات کا ایجنڈا پیش کرنا اور اُسے احتجاج کے ذریعے منوانے کی راہ اختیارکرنا محض انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

آج دنیا میں جہاں کہیں بھی پارلیمانی جمہوری نظام موجود ہے وہاں ارتقائی عمل کے دوران مسائل اور اختلافات یقینا پیدا ہوتے ہیںلیکن ان کے حل کا وہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جوکہ اس ملک کے آئین میں موجود ہوتا ہے۔اس طرح آج پاکستان میں بھی آئین کی بالادستی پہ یقین رکھنے والے افراد علامہ طاہر القادری سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کا حصہ بن کر وہاں موجود سیاسی جماعتوں کو اپنے پروگرام سے متاثر کریں اور عوام کو اس حد تک بیدار کردیں کہ ہر سیاسی کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو وہ اپنی اپنی جماعتوں میں اپنی اپنی لیڈر شپ پر یہ دبائو بڑھائیں کہ وہ اسی پارلیمانی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اس نوعیت کی انتخابی اصلاحات کریں جس کے نتیجے میں معاشرے کے تمام طبقات کے افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنیں اور پھر وہ سب وہاں بیٹھ کرقومی مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور ان پر عملدرآمد کے ضمن میں اقدامات بھی کریں۔

اس مرحلے پر بجا طور پر پوری قوم علامہ طاہر القادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات اور نگراں حکومت کے قیام کے مطالبات کے ضمن میں آئین سے انحراف کی بجائے آنے والے عام انتخابات میں عوام سے رجوع کریں۔ آئین میں کی گئی 20ویں ترمیم کا احترام کریں اور غیر جانبدار نگراں حکومت کے قیام اور موجودہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کو مزید مستحکم اور غیر متنازعہ بنانے میں مثبت کردار ادا کریں۔ اگر قوم ان کے پروگرام پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرتی ہے تو پھر آئینی طور طریقوں کے مطابق وہ اپنے مطالبات پارلیمنٹ میں پیش کرکے اُسے ضرور منظور کروائیں اور اگر قوم ان کے پروگرام کو مسترد کردیتی ہے تو پھر وہ قوم کی ''سیاسی تربیت'' کے دشوار کام کو جاری رکھیں تاوقتیکہ انھیں کامیابی حاصل نہ ہوجائے یا پھراس ملک کی طرف واپس لوٹ جائیں جس کی شہریت انھوں نے دل وجان سے قبول فرمائی ہے۔پاکستان ووٹ کے ذریعے بنا اور پھر جب ووٹ کے تقدس کا احترام نہیںکیا گیا تو ملک دو لخت ہوگیا لہٰذا عوام کی رائے اور ووٹ کی طاقت پر اعتماد کیا جائے تاکہ ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔

انتہائی خوش آیند ہے یہ امر کہ ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ عسکری قیادت نے اس قسم کے ماورائے آئین مطالبے سے خود کو دور رکھا ہے ۔فوج خود موجودہ سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ اس نے جب بھی اقتدار سنبھالا ہے تو صرف ملک اور قوم ہی کے لیے مسائل پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ خود فوج کا ادارہ بھی مشکلات کا شکار ہوا اور عوام اور فوج کے درمیان دوریاں بھی پیدا ہوئی ہیں ۔فوج کی موجودہ قیادت اب ان غلطیوں کو دہرانے کے بجائے عوام میں اپنے غیر جانبدارانہ کردار کی بدولت اعتماد کی بحالی چاہتی ہے۔اس موقعے پر انھیں دوبارہ سیاست میں ملوث کرکے ان کے کردار کو متنازعہ بنانے کا دانستہ یا غیر دانستہ عمل جمہوریت اور ملکی سالمیت دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا کسی طرح کی بھی غیر آئینی مہم جوئی سے باز رہا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں