قتل اگر طالبان نے کیا ہوتا
طالبان کے ہاتھوں زخمی ملالہ کو اس قدر پذیرائی ملی ہے تو طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے پر اے شاہ زیب تم تو امر ہو جاتے۔
گزشتہ دنوں تمام ملکی اخبارات یکساں نوعیت کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے جیسے ''ملالہ پر حملہ ملک کی سالمیت پر حملہ ہے، ملالہ قوم کی بیٹی ہے، ملالہ پر حملہ کرنے والے مسلمان کہلانے کے لائق نہیں، ملالہ پر حملہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، ملالہ واقعے پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے، ملالہ واقعے پر متعدد این جی اوز کے ملک گیر مظاہرے ، ملالہ کو طبی امداد دی جارہی ہے، ملالہ حملے پر امریکہ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک کا صدر وزیراعظم سے اظہار مذمت، ملالہ کو بیرون ملک علاج معالجے کی پیشکش، ملالہ کو حکومتی خرچے پر خصوصی طیارے کے ذریعے بیرون ملک روانہ کردیا گیا، ملالہ کے ساتھ خصوصی طیارے میں ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم مستعد، ملالہ نے آنکھ کھول لی، ملالہ نے آنکھ بند کرلی، ملالہ کی صحت بحال ہوگئی، ملالہ نے اپنے پیروں پر چلنا شروع کردیا، صدر پاکستان نے لندن کے کوئن الزبتھ اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی، پاکستانی سیاستدانوں کا ملالہ کو زبردست خراج تحسین، ملالہ کو عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا، ملالہ کی مادرعلمی کو ملالہ کے نام سے منسوب کردیا گیا، ملالہ کے والد کو اقوام متحدہ کا اتاشی مقرر کردیا گیا، ملالہ یہ ملالہ وہ، وغیرہ وغیرہ۔''
کراچی میں بہن کے ولیمے سے واپس گھر پہنچنے والے نوجوان شاہ زیب کو معمولی تلخ کلامی پر زمیندارانہ و وڈیرانہ طرز عمل کے عادی سندھ کے دو بااثر خاندانی پس منظر کے حامل عیاش نوجوانوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ہلاک ہونے والے نوجوان کے والد حاضر سروس ڈی ایس پی ہیں۔ نجی یونیورسٹی کے ذہین طالب علم شاہ زیب کے قتل کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ نہ تو ہمارے سیاستدانوں کے کانوں پر جوں رینگی اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے۔ شاہ زیب کے مبینہ قاتلوں میں سے ایک ملزم کے ملک سے فرار ہوجانے کی اطلاعات بھی سننے میں آئی ہیں۔ جن ملزمان پر نوجوان شاہ زیب کے قتل کی ذمے داری ڈالی جارہی ہے وہ سندھ کے بااثر زمینداروں کے چشم و چراغ بتائے جاتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس اندوہناک واقعے سے چشم پوشی اور نامزد ملزمان کو گرفتار کرنے میں روایتی بے حسی کا مظاہرہ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے، کے مصداق ہے۔ شاہ زیب کے قتل کو تقریباً ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود عوامی درد رکھنے والے کسی سیاستدان کی طرف سے کوئی درد انگیز اور تشویشناک بیان اتنے تواتر سے نہیں آیا جتنا کہ ملالہ واقعے پر ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں تھا۔
شاہ زیب اور ملالہ واقعے میں فرق واضح ہے۔ ملالہ پر حملہ کرنے کا الزام کیونکہ طالبان کے سر تھا اس لیے ہر ادارہ، حکومت، اپوزیشن، ملکی جماعتیں اور این جی اوز بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے تاکہ بیرونی آقائوں کو خوش کیا جاسکے مگر شاہ زیب کے قتل کا الزام چونکہ طالبان کے سر نہیں بلکہ اشرافیہ کی ایک شاخ زمیندارانہ ثقافت سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد سے ہے اس لیے محض معمول کی بیان بازی پر ہی اکتفا کیا گیا۔ بھلا ہو اس ملک کے سوشل میڈیا کا جس کی بدولت نوجوان شاہ زیب کی اندوہناک ہلاکت کا سوموٹو نوٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود لے لیا۔
طالبان بلاشبہ ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں گے، یہ ہمارے ملک کی سرحدیں عبور کرکے خفیہ طور پر وطن عزیز میں داخل بھی ہوجاتے ہیں اور پھر سارا سال حکومت عوام کو ان کا ڈر سناتی رہتی ہے جیسے فلمی مکالمہ ہے کہ سوجا بیٹا ورنہ گبر آجائے گا۔ مگر جو آستین کے سانپ وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ، زمیندارانہ سوچ اور طرز عمل کو ساتھ لے کر ہمارے ہی ملک کے باعزت و با اثر گھرانوں کے افراد کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، ان کے وڈیرہ شاہی ظلم سے عوام کو کون بچائے گا؟ یہاں مجھے وہ گانا یاد آرہا ہے جس کے بول ہیں ''وڈیرے کا بیٹا، میں ہوں وڈیرے کا بیٹا''۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت دکھ تو ہورہا ہے لیکن قومی رہنمائوں، ملکی جماعتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت اور این جی اوز کی شاہ زیب قتل پر پراسرار خاموشی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کہیں وڈیروں اور زمینداروں کے بجائے اگر شاہ زیب کے قتل کا الزام طالبان کے سر لگا دیا جاتا تو شاید جو سرخیاں کالم کی ابتدا میں ملالہ کے لیے آئی ہیں وہ شاہ زیب کے لیے آتیں۔پھر اسی پر بس نہیں، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مقتول شاہ زیب کے والد حاضر سروس ڈی ایس پی کو فوری آؤٹ آف ٹرن پروموشن دیتے ہوئے ڈی آئی جی بنادیا جاتا۔
طالبان کے ہاتھوں صرف زخمی ہونے والی ملالہ کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس قدر پذیرائی ملی ہے تو طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے پر اے شاہ زیب تم تو امر ہوجاتے۔ یہ قوم تمہارے مجسمے ملک کی شاہراہوں پر جگہ جگہ نصب کرکے درود فاتحہ اور دعائے مغفرت کے بجائے غیرمسلموں کی تقلید میں دن رات تمہاری یاد میں شمعیں روشن کرکے اپنا دینی اور شرعی فرض پورا کرتی رہتی۔ مگر افسوس کہ تم قتل ہوئے بھی تو اس ملک کی طرز حکمرانی کے ہاتھوں۔