لال حویلی گئے دنوں کی کہانی
راولپنڈی کی لال حویلی گاہے گاہے خبروں میں آتی رہتی ہے
COLOMBO:
راولپنڈی کی لال حویلی گاہے گاہے خبروں میں آتی رہتی ہے۔ شیخ رشیدکے مخالف کہتے ہیں، وہ ان سے لال حویلی خالی کرائیں گے۔شیخ رشید کہتے ہیں، کوئی مائی کالعل ان کولال حویلی سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ عالمی ذرایع ابلاغ مٰیں لال حویلی کی گونج پہلی باراس وقت سنائی دی، جب بعض کشمیری حریت پسندوں نے یہاں کچھ عرصہ کے لیے قیام کیا۔ ان دنوں لوک سبھا میں بھی اس کا چرچا ہوا۔
پچھلے دنوں مہیش بھٹ پاکستان آئے توان کی خواہش تھی کہ حویلی کے مناظرفلمبندکریں، مگرشیخ رشیدکورام نہ کرسکے۔ اسرار کے پردوں میں لپٹی یہ لال حویلی کس نے بنوائی، کس کے لیے بنوائی اورکس طرح یہ شیخ رشیدکے پاس آئی، اس کی بھی ایک کہانی ہے۔
کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے جہلم کے رائے صاحب کرپا رام کے نوجوان بیٹے بیرسٹردھن راج سہگل کوایک لڑکی بدھاں بائی سے عشق ہوگیا۔ دھن راج ان دنوں راولپنڈی میں رہ رہے تھے۔ وہ سیالکوٹ ایک شادی کی تقریب میں گئے، جہاں رات کی مجرے کا بندوبست بھی تھا۔ بدھاں ناچتی رہی۔ رات بھرناچتی رہی۔ دھن راج اس کوایک ٹک دیکھاکیے۔ وہ شادی شدہ ہی نہیں، تین بچوں کے باپ بھی تھے۔ پیکرجمال بدھاں بائی مگررات کی رات میں ان کادل لوٹ لے گئی۔
بدھاںبائی کے بغیراب ان کو زندگی بے رنگ نظرآتی تھی۔ دھن راج اوربدھاںکے درمیان سماج کی ایک نہیں،کئی دیواریں حائل تھیں۔ تاہم کسی نہ کسی طرح دھن راج بدھاں کورام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بدھاں راولپنڈی آگئی تودھن راج نے شہر کے وسط میں اس کورہنے کے لیے ایک پرشکوہ مکان بنواکے دیا۔ یہ مکان اس زمانے میں سہگل حویلی کہلاتا تھا۔حویلی سے متصل دھن راج نے اپنے لیے مندراوربدھاں کے لیے مسجدبنوائی۔ دھن راج سے منسوب ہونے کے باوجود بدھاں نے مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔
ناچ گانا مگر اس نے ترک کر دیا تھا اور سرتاپا ایک گھریلوعورت بن گئی تھی۔ دھن راج نے دنیاکی ہرآسایش بدھاں کے قدموں میں رکھ دی۔ اب وہ بدھاں بائی نہیںبدھاںرانی تھی،شہرکی متمول ترین عورت۔ 1947ء سے پہلے وہ راولپنڈی کی واحدعورت تھی، جس کے پاس شاندار گاڑی ہوا کرتی تھی۔
یہ گاڑی کوئلے سے چلتی تھی، جو آرڈر پر تیار کرایا جاتا تھا۔ دھن راج اوربدھاں گرمیوں میں اس گاڑی پرکشمیرسیرکے لیے جایاکرتے تھے۔ بدھاں دنیا والوں کی نظروں میں بھلے ایک ناچنے والی تھی، مگر دھن راج کے بعدبھی اس نے جس پروقاراندازمیں زندگی گزاری، وہ مال ودولت سے اس کی بے نیازی کاثبوت تھی۔ پاکستان بننے کے بعدبدھاں اگرعدالت میں صرف اتناکہہ دیتی کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرچکی ہے، یادھن راج اپنامذہب تبدیل کرچکاتھا، تووہ پاکستان میں دھن راج کی اربوں کی جائیداد کی واحدقانونی وارث ہوسکتی تھی، مگراس نے ایسا نہیں کیا۔
جب عدالت نے کہاکہ اس بیان حلفی کے بعد تم اربوں روپے کی جائیدادسے محروم ہوجاوگی تو بھی متزلزل نہ ہوئی اورکہا، جائیدادجاتی ہے توجائے، میں سچ سے منحرف نہیں ہوںگی۔ جوشرفا بدھاں کی جائیدادپرقصبہ کرنے کے لیے اس کو زیردام لانے کی سعی فرمارہے تھے، ان کے منہ پریہ گویاایک طمانچہ تھا۔ بدھاں کے بیان حلفی کی بنیادپردھن راج فیملی کی تمام جائیدادمتروکہ ملکیت ڈکلیئرکردی گئی؛ سوائے ان دوتین کمروں پرمشتمل اس حصے کے، جس میں وہ رہ رہی تھی۔ یہی قریب قریب پانچ مرلہ کامستثنیٰ حصہ ہی اب لال حویلی کہلاتا ہے۔
یہ حویلی شیخ رشیدکے پاس کس طرح آئی، یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔1985ء میں شیخ رشید پہلی باررکن اسمبلی منتخب ہوئے، تو بھابڑابازارمیں واقع ان کے آبائی گھر کی بیٹھیک اتنی چھوٹی تھی کہ ان سے ملنے کے لیے آنے والوں اوران کے گھروالوں کودقت کاسامناہوتاتھا۔ شیخ رشیدبچپن میں دیکھتے تھے کہ مسلم لیگ کے محموداحمدمنٹوکے گھرمیں بڑی گہماگہمی ہوتی تھی۔ دوسری طرف دھن راج کی سہگل حویلی بھی ان کواپنی طرف کھینچتی تھی۔
یہ حویلی بدھاں کی موت کے بعدکئی باربک چکی تھی اورمنحوس سمجھی جانے لگی تھی۔شیخ رشیدنے جب اسے خریدنے اورپھرسے آبادکرنے کاارادہ ظاہرکیاتوان کے کئی دوستوں نے ان کوبازرکھنے کی سعی کی۔ شیخ رشیدکامگرکہنا تھایہ حویلی پنڈی کی جانی پہچانی جگہ ہے، جہاں جلسہ کی صورت میں حویلی کی بالکونی سے خطاب بھی کیا جاسکتا ہے،اورسیاسی دفترکے لیے یہ ہرلحاظ سے موزوں جگہ ہے۔شیخ رشیدکا یہ ارادہ مگرترنت ہی پورا نہیں ہوگیا۔ مگر ایک روزآناًفاناًہی سودا طے پاگیا اور شیخ رشید اس کے امین قرار پاگئے۔
سوچا گیا کہ حویلی کونیاپن کیسے دیاجائے۔ لال رنگ شروع سے ہی شیخ رشیدکی کمزوری ہے اورانھوں نے سوچ رکھا تھا کہ اگریہ حویلی ان کومل گئی تواس پرلال رنگ کرائیں گے۔ ان دنوں ان کی گلی مٰیں ایک احراری کارکن رہتے تھے۔ان سے پوچھا، حویلی کانیانام کیارکھیں۔ ان کے منہ سے نکلا، لال کوٹھی۔ شیخ رشید نے 'کوٹھی' کی جگہ 'حویلی' لگاکے اس کواس کے ماضی سے جڑا رہنے دیا۔ 'سہگل حویلی' اب 'لال حویلی' کہلانے لگی۔
وہی حویلی جوبدقسمتی کی علامت قرارپاچکی تھی، شیخ رشیدکے سکونت اختیارکرتے ہی ان کی کامیابی کا زینہ بن گئی۔یہ حویلی، ان کے ماضی کے حلیف اورآج کے حریف نوازشریف کے لیے بھی نیک فال ثابت ہوئی۔جب صدراسحٰق خان نے ان کی حکومت برطرف کی اوران کامستقبل مخدوش نظرآرہاتھا، توپہلاعوامی خطاب انھوں نے لال حویلی کی بالکونی سے ہی کیاتھا۔ یہیں سے ان کی تحریک نجات کا آغاز ہوا۔ یہیں ان دنوں شیخ رشید اور پولیس کے درمیان گھمسان کارن پڑا۔ فائرنگ اور شیلنگ سے درجنوں کارکن زخمی ہوگئے۔
حویلی اوراس کے اردگردکاعلاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ وجہ یہ تھی کہ یہاںسے نواز شریف کے حق میں احتجاجی ریلی نکالنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ گویا نوازشریف کی عوامی اننگ جواب تک جاری ہے، تاریخی طورپراس کا آغاز لال حویلی سے ہوا۔ ستم یہ ہے کہ یہی لال حویلی آج نوازشریف اوران کے حامیوں کوکھٹکنے لگی ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ باتوں باتوں میں لال حویلی اوربدھاں کاذکرچھڑگیا۔شیخ صاحب نے ایک عجیب بات بتائی۔کہنے لگے، مجھے لال حویلی منتقل ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہواتھا۔ ایک روز میں کسی نے آکے بتایاکہ کوئی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔ان کاچہرہ غم میں ڈوباہواتھا۔ بوجھل قدموں سے اوپر آئے۔ میں نے پوچھا، خریت توہے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کہنے لگے، میں حویلی کے کمروں کو گھوم پھر کر دیکھ سکتا ہوں؟ پھروہ دیوانہ وارحویلی کے کمروں میں گھومنے لگے۔پھرجو انھوں نے مجھے بتایا، اسے سن کے میری آنکھیں بھیگ گئیں۔
کہنے لگے، یہ میرا آبائی گھرہے، مگرمیں اب اس پوزیشن میں نہیں کہ دنیا کے سامنے حویلی سے اپنے تعلق کوظاہر کر سکوں۔ میری ماں نے زندگی بھراس بارے میں خاموشی اختیارکی تھی اورکبھی دنیا کے سامنے مجھے اپنا بیٹا ظاہرنہیں کیا تھا۔ ان کاکہنا تھاکہ یہی ہم دونوں کے لیے بہترہے۔ اب کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا، حتیٰ کہ میرے بیوی بچے بھی نہیں۔یہ کہہ کے انھوں نے اپنے آنسو پونچھے اورکہا، یہ رازمیرے بعداب آپ ہی جانتے ہیں۔ میں نے کہا،کسی ماں کارازمیں کس طرح فاش کرسکتاہوں۔ وہ اعلیٰ افسررومال سے آنسوپونچھتے ہوئے اسی طرح بوجھل قدموں سے سیڑھیاں اترگئے، جس طرح اوپرآئے تھے۔ میں مبہوت کھڑا تھا۔'
پچھلے دنوں کسی نے بتایاکہ بعض حکومتی عناصرسیاسی رقابت میںراولپنڈی کی اس تاریخی یادگارکوبوسیدہ قراردے کرگرانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یہ خبرسن کے جی بہت اداس ہوا۔ ایسی بھی کیا سیاسی رقابت ۔ آج رات کے اس پہرلال حویلی کی یہ بھولی بسری کہانی لکھ رہاہوں، توباہر بارش زوروں پر ہے۔ بجلی چمکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں اورہوائیں سیٹیاں بجاتی ہیں توبارش کی بوندیں ایک زناٹے کے ساتھ باہرصحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے ٹکراتی ہیں اور بہتی ہوئی نیچے کی اورگرتی جاتی ہیں،ا ورذہن کے کسی گوشے میں برسوں پہلے کے دیکھے ہوئے لال حویلی کے اندرونی مناظر ابھرنے لگتے ہیں۔ منیرنیازی نے کہاتھا،
سواد شہر کے کھنڈر
گئے دنوں کی خوشبووں سے بھرگئے ہیں