جدید دنیا روبوٹ اور انسانی رشتے
انفورمیشن ٹیکنولوجی کے اس دور میں تو یوں بھی معلومات کے بغیر جینے کا مطلب ہے، غیرانسانی سطح پر زندگی گزارنا۔
مبین مرزا صاحب کا شمار اردو کے ممتاز اہل قلم میں ہوتا ہے۔ ایک شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے ادبی دنیا میں انہیں ایک محترم مقام حاصل ہے۔ ان کی نثری اور منظوم تخلیقات کے متعدد مجموعے شایع ہو چکے ہیں، جن کی پزیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔
نقادانِ ادب ہمیشہ سے ان کی قلمی کاوشوں کو سراہتے آئے ہیں کہ ان میں مطالعے اور فنی ریاضت کی بنیاد پر گہری معنویت اور بہت پُراثر اسلوب کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ مبین مرزا وقیع ادبی جریدے، ''مکالمہ'' کے ایڈیٹر ہیں، جو ان کے ادارے ''اکادمی بازیافت'' کے زیراہتمام شائع ہوتا ہے۔ اردو دنیا میں اسے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ وہ متعدد عالمی کانفرنسوں میں اپنے مقالے پیش کر چکے ہیں۔
ہماری درخواست پر مبین مرزا سنڈے میگزین میں زیرنظر شمارے سے مختلف ثقافتی، سماجی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر مضامین کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے درمیان ان مضامین کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس دنیا کے رنگ، خوش بُو اور رونقیں سب کچھ انسانی رشتوں ہی سے قائم ہیں۔ رشتوں کے بغیر یہ دنیا سائیں سائیں کرتے ہوئے صحرا سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ اس سچائی کا اعتراف شعر و ادب سے وابستہ افراد ہی نہیں کرتے، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کے ماہرین بھی اپنے اپنے انداز اور طریقِ کار کے مطابق ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں۔
انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی صورتوں، طرزِ احساس کی تبدیلی اور سماجی نظام کے بدلتے ہوئے معیار کے تحت زندگی کو دیکھنے اور اس کی اہمیت کو جاننے پرکھنے کا سانچا تو بے شک زمانوں اور معاشروں کے فرق کے ساتھ الگ ہوسکتا ہے، لیکن تاریخ کے کسی بھی دور میں اور کسی بھی سماج میں رشتوں کے وجود اور ان کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا- لیکن عہدِ جدید کی صورتِ حال ہمیں ایک بڑے سوال اور بڑے مسئلے سے دوچار کررہی ہے۔ سوال یہ ہے، کیا آنے والے وقت (مستقبل قریب) میں انسان اپنے رشتوں کی ضرورت سے آزاد ہوجائے گا؟
زندگی دونوں ہی طرح سے گزاری جاسکتی ہے، آزاد مشربی سے، یعنی بے پروا ہوکر اور سنجیدگی سے، یعنی ذمے داری کے ساتھ۔ اِس کا دارومدار اصل میں انسان کی اپنی اُفتادِ طبع پر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی طبیعت میں لااُبالی پن ہوتا ہے، ان پر کچھ بھی پڑھ کر پھونک دیا جائے یا انھیں کچھ بھی گھول کر پلا دیا جائے، مجال ہے جو وہ ٹس سے مس ہوجائیں۔ اسی طرح بردباری اور ذمے داری کا مادّہ بھی آدمی میں شروع ہی سے نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بالعموم حساس ہوتے ہیں۔ فراق نے کہا تھا:
بہت پہلے سے اِن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
یہ بات اُن سب حساس لوگوں پر صادق آتی ہے جو رُخ بدلتی ہوا کو محسوس کرلیتے ہیں اور جن تک نئے موسموں کی خوش بو پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ لوگوں کی انفرادی زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی یا سماجی سطح پر بھی۔ ہر سماج میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وقت کے قدموں کی آہٹ سے آنے والے دنوں کی صورتِ حال کا اندازہ لگاتے اور اُس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت بھی اُن سب معاشروں میں ہورہا ہے جو اپنا ایک سماجی ضابطہ اور اخلاقی نظام رکھتے ہیں۔ یہ سوچ بچار بے جا نہیں ہے۔ اس لیے کہ آنے والے دنوں میں اُن کی تہذیب، اُن کا سماج ایک بڑے گمبھیر مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
مسئلہ تو واقعی خاصا سنجیدہ ہے، بلکہ سنگین بھی۔ اس لیے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یوں بھی اگر ہم ذمے داری کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو ہمیں آنکھیں کھلی رکھنا ہوتی ہیں، باخبر رہنا ہوتا ہے، دیکھنا اور سوچنا ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ آگے ہمیں کس صورتِ حال کا سامنا کرنا ہوگا۔ انفورمیشن ٹیکنولوجی کے اس دور میں تو یوں بھی معلومات کے بغیر جینے کا مطلب ہے، غیرانسانی سطح پر زندگی گزارنا۔ ظاہر ہے، آپ، ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا۔ ویسے اس وقت ہم جس مسئلے کے بارے میں بات کررہے ہیں، وہ سنگین تو بے شک ہے، لیکن دل چسپی سے خالی نہیں۔
یہ مسئلہ سنجیدہ اور سنگین اس لیے کہ انسانی رشتوں کی تہذیب اپنے سارے اخلاقی ضابطوں کے ساتھ داؤ پر لگی دکھائی دیتی ہے۔ رہی بات دل چسپی کی تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ سارا ماجرا انسانی فطرت کی آزمائش کا ہے۔ سو وہ لوگ جو انسانی فطرت کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں، اس پر یقین کرتے ہیں یا اُسے اُمید کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اس مسئلے سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ انسانیت کی بقا کا سوال اُن کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں انسانیت کی بقا سے مراد ابنِ آدم کی محض وجودی سلامتی نہیں ہے، مراد اصل میں یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے سفر میں جو کچھ انسان نے اپنی ذات اور اپنے سماج کی پاس داری کے لیے سیکھا اور سمجھا ہے اور اس کے لیے جو نظام بنایا ہے اور جو اقدار قائم کی ہیں، اس سب کے ساتھ انسانی سماج قائم رہے۔
ویسے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ آج اچانک پیدا نہیں ہوا۔ اب سے کئی برس پہلے اس کی نشان دہی اُس وقت ہوگئی تھی، جب ۸۰۰۲ء میں ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی کی کتاب ''روبوٹس سے محبت اور مباشرت'' (Sex and Love with Robots) منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس پر گفتگو کا آغاز تو فوراً ہی ہوگیا تھا، لیکن اس موضوع کی معلومات اور اس پر گفتگو کا دائرہ محدود رہا، یعنی کچھ مخصوص حلقوں کے معدودے چند ہی لوگوں نے اس مسئلے کو توجہ کے قابل سمجھا تھا۔ تاہم بیس ویں صدی کے آخری برسوں اور اکیس ویں صدی میں داخل ہوتے ہوتے ٹیکنولوجی نے جس حیرت انگیز بلکہ چکرا دینے والی رفتار سے ترقی کرکے دکھائی ہے اور اُس کے اثرات جس طرح امیروں کی دنیا کے ساتھ ساتھ آج ہمارے سامنے غریب ملکوں کے غریب تر عوام تک بھی پہنچ گئے ہیں، اُس نے اس سوال کو سوچنے اور غور کرنے والے لوگوں کے لیے اب محض نظری یا خیالی مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ اب تو اسے ایک ایسی زمینی حقیقت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لیے کہ آج کی دنیا میں جو کچھ ہمارے تجربے کا حصہ بن رہا ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے مستقبلِ قریب میں جو کچھ ہونے جارہا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں رہا۔
فرسٹ ورلڈ کے علمی، سائنسی (ٹیکنولوجی) اور نفسیات داں حلقوں میں اس مسئلے پر بحث میں شدت اُس وقت آئی جب اس موضوع پر اہلِ نظر کی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی کانفرنس 2014ء میں پرتگال میں ہوئی۔ دوسری 2015ء میں ملائیشیا میں رکھی گئی، لیکن کانفرنس کے انعقاد سے کچھ وقت پہلے حکومت نے منع کردیا۔ چناںچہ دوسری کانفرنس گذشتہ سال (2016ء) لندن میں ہوئی۔ اس کے بعد سے یہ موضوع اپنے مختلف پہلوؤں کے ساتھ نمایاں طور پر بہت سے ایسے حلقوں میں گونج رہا ہے جو سماجیات، نفسیات، سائنس اور معاشیات وغیرہ کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے یورپ کے سماجی مزاج میں جو اہم تبدیلیاں آئیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہاں ہر موضوع پر گفتگو کی آزادی کا تصور رائج ہوگیا۔ اس سے کسی کو غرض نہ رہی کہ دیکھے آیا موضوع قابلِ غور ہے بھی کہ نہیں، یا کہ سماج پر اس کے اثرات منفی ہوں گے کہ مثبت۔ بس اظہار کی آزادی کا تصور قبول کرلیا گیا۔ چناںچہ اظہار کی آزادی کا یہ حق ہر شخص کو حاصل ہوگیا، خواہ اُس کا موضوعِ بحث سے کوئی علمی، فکری یا تحقیقی تعلق ہو یا نہ ہو۔ چناںچہ ہر موضوع پر گفتگو کا راستہ کھل گیا۔ اب یہ آزادی صرف ہائڈ پارک تک محدود نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی اور کہیں بھی کسی بھی موضوع پر بات کرسکتا ہے۔
جیسا کہ انسانی معاشروں میں عام طور سے ہوتا آیا ہے کہ ہر خیال، مسئلے یا سوال کی بابت دو گروہ فوراً ہی بن جاتے ہیں، ایک جو اس کے حق میں رائے رکھتا ہے اور دوسرا مخالف۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور سے یہ دونوں حلقے کسی لمبی چوڑی بحث کے بعد وجود میں نہیں آتے، بلکہ ابتدا ہی میں قائم ہوجاتے ہیں۔
روبوٹ سے محبت کے مسئلے پر بھی یورپ میں ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف ڈاکٹر ڈرس کول نے رائے دی کہ ابھی روبوٹ سے محبت اور قربت کے لمحات کا خیال الجھن کا باعث ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب انسان روبوٹ کی محبت میں مبتلا ہوجائے گا۔ خود ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی نے تو ۷۰۰۲ء میں یہ کہہ دیا تھا کہ ۰۵۰۲ء کے آتے آتے روبوٹ کی شخصی (وجودی) حیثیت سماج میں اس حد تک قبول کرلی جائے گی کہ لوگ اس سے شادی کرنے لگیں گے۔
جب کہ ڈاکٹر ایان پیئر سن کا تو کہنا یہ ہے کہ اس وقت (2050ء) تک بروتھل اور اسٹرپ کلب جیسی جگہوں پر روبوٹ کا کردار اتنا نمایاں اور تسلیم شدہ ہوگا کہ لوگ اس کے ساتھ قربت کے لمحات کے لیے اپنی خواہش کا اظہار ترجیحی بنیاد پر کریں گے۔ یہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی زندگی میں بھی انسان کے بجائے روبوٹ کے ساتھ قربت کے لمحات گزارنے کا رویہ اس حد تک فروغ پاچکا ہوگا، کہ انسان اور انسان کے بجائے انسان اور روبوٹ کے درمیان قربت کا تناسب سماج میں کہیں زیادہ ہوگا۔ تاہم اس بحث میں ہمیں دوسرے رویے کا اظہار بھی ملتا ہے۔
اس کی نمائندگی ڈاکٹر کیتھلین رچرڈ سن جیسے لوگ کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ روبوٹ کے ساتھ ایسی قربت کا تصور سخت ناگوار ہے اور ایسے خیال کو رد کرنا چاہیے اور اس پر گفتگو کو ہرگز بڑھاوا نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس موضوع پر جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی اتنی جلدی یہ خیال انسانوں کے لیے قابلِ قبول ہوجائے گا۔ ایسی ناگوار صورتِ حال کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے کسی موضوع پر گفتگو ہی نہ کی جائے۔
اس بحث میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خاموشی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس مسئلے کے بارے میں کچھ اور سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلق کے حوالے سے ہر سماج میں ایک نظام پایا جاتا ہے، جو ایک مخصوص سماج میں ایسے تعلق کے اخلاقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ کیا انسان اور روبوٹ کا تعلق بھی اسی نظام کے زیرِاثر ہوگا؟
کیا انسان اور روبوٹ کے تعلق کو سماجی حیثیت حاصل ہوگی؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جس طرح ایک مرد یا عورت کی کسی دوسری عورت یا مرد کی قربت کی خواہش کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اسی طرح کیا روبوٹ کو بھی اس سطح کا شعور فیڈ کیا گیا ہوگا اور کیا وہ اقرار یا انکار کا اختیار استعمال کرسکے گا؟
ڈاکٹر کیٹ ڈیولن جو اس موضوع پر لندن میں ہونے والی دوسری کانفرنس کی مجلسِ صدارت کا حصہ تھیں، انھوں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ''ہمیں انسان اور روبوٹ کے تعلق کے سلسلے میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے جس میں روبوٹ کو صرف ایک مشین یا ایک جنسی ہدف کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے انسان کے ساتھی کے طور پر دیکھا جائے، جسے خود انسان نے اپنے لیے بنایا ہے۔'' ان سب باتوں، اس قسم کے سوالوں اور ایسی بحثوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مغرب میں روبوٹ کی وجودی حیثیت کو کس حد تک تسلیم کیا جاچکا ہے۔
لگ بھگ پون صدی پہلے فرانس کے مسلمان دانش ور عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) نے وقت کے دھارے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا، عہدِجدید ایک ایسے طوفان کی صورت رکھتا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا، اس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا۔ زندگی کے گذشتہ تین چار عشروں کو سامنے رکھا جائے تو رینے گینوں کے اس بیان کی سچائی اور اس عہد کے مزاج کی حقیقت کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
آج نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح کا مطلب بھی ہم پر پوری طرح آشکار ہوچکا ہے۔ اب قوموں اور ملکوں کے درمیان جنگ کا روایتی تصور بڑی حد تک تبدیل ہوگیا ہے۔ چناںچہ جنگ کے ذریعے دنیا کے جغرافیے کو بدلنے کا رجحان بہت حد تک ختم ہوچکا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں اب برقرار رکھی جاتی ہیں۔ البتہ ثقافتی نقشہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تہذیب کی کایا پلٹ دی جاتی ہے۔ سماجی اور اخلاقی اقدار کا تصور ختم کردیا جاتا ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، حالیہ برسوں میں عراق، افغانستان، مصر اور اب شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
لگ بھگ ساٹھ باسٹھ برس پہلے عالمی منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برٹرینڈ رسل نے مشرق کی بیداری کے آثار دیکھے تھے۔ اس بیداری میں اسے تین تہذیبوں کا مرکزی کردار محسوس ہوا تھا، یعنی مسلم، چینی اور ہندی۔ ان تینوں کے دبیز اور وقیع ثقافتی مظاہر اور اپنے اپنے سماج پر ان کے گہرے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے رسل نے کہا تھا کہ مشرق کے نئے طلوع میں ان تینوں تہذیبوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس نے کہا تھا کہ ان تینوں تہذیبوں کو یکسانیت کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ انھیں اپنی اپنی انفرادی شناخت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بیداری مشرق کی ہو یا شمال یا پھر جنوب کی، سامراجیت کے لیے کیوں کر قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔
چناںچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں سامراجی حیلے بھی بدل گئے ہیں۔ آج انسانی آزادی، سماجی حقوق، امداد، اصلاح اور فلاح کے نام پر استحصالی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب و سماج کی بقا اور استحکام میں ایک اہم کردار اُس کے انفرادی ثقافتی نقوش اور سماجی نظام کا بھی ہوتا ہے۔ نئی سامراجیت نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کا پورا پورا بندوبست کیا ہے۔ آج دنیا میں ایک سرے سے لے کر دوسرے تک برگر اور کولا کا پھیلاؤ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کو تو چھوڑیے کہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں سیاست نے جمہوریت کے نام پر وہی کھیل کھیلے ہیں جو آمریت نے کھیلے ہیں۔
یہاں سماجی اکائی کو توڑ کر سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی عدم استحکام کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ یہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک کی مشترک تقدیر ہے۔ افسوس تو زیادہ اس بات کا ہے کہ چین جیسا روایتی معاشرہ بھی جو اپنی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے بجا طور پر فرسٹ ورلڈ کا حصہ ہے وہ بھی سامراجی ہتھکنڈوں کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا۔ اب وہاں بھی آپ کو کولا اور برگر کی دنیا دیکھنے کو ملتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے یکسانیت کا نفوذ، یک رنگی کا پھیلاؤ، یعنی تہذیبوں کی اپنی اپنی انفرادی شناخت کا مٹ جانا۔ جب مشرق اور مغرب دونوں ایک جیسے ہوں تو پھر بھلا مشرق کی بیداری کے کیا معنی رہ جاتے ہیں۔
آج ہم سب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی ایک مشینی سانچے میں ڈھالی جارہی ہے، اور یہ کام بہت تیزی سے ہورہا ہے۔ ساری دنیا ایک ہی طرح کے سماج میں تبدیل ہورہی ہے۔ گلوبل ولیج کا یہی مطلب ہے- یعنی ایک بے اقدار اور بے ثقافت سماج۔ ہمیں اس حقیقت کو واضح طور پر ابھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے سماج کے لوگوں کی زندگی میں نہ تو اُلوہی یا روحانی رہنمائی کی گنجائش ہوگی اور نہ ہی انھیں ایسے مضامین، کہانیوں اور شاعری کی ضرورت ہوگی جو اُن کے اندر اپنی روح کی آواز سننے کی خواہش پیدا کریں۔ انھیں اپنے وجود سے اوپر اٹھنے اور اردگرد موجود دنیا اور اس کی حقیقتوں سے برتر حقائق کے بارے میں سوچنے، جاننے اور کوئی عملی راہ اختیار کرنے کی راہ سجھائیں۔ یہ سب حال مست لوگ ہوں گے۔ اخلاقی کشاکش، جذباتی اتار چڑھاؤ اور روحانی بحران سے قطعی ناآشنا لوگ۔ زندگی کے مارے ہوئے، زندگی سے عاری لوگ- مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹ کی طرح۔
اس جدید دنیا میں جہاں اب تیزی سے انسانوں کی زندگی مشینوں کے قبضے میں جارہی ہے، ابھی روبوٹ سے انسان کی شادی کا سوال حیرت کا باعث ہے۔ انسان کسی مشین سے کیسے ایسا رشتہ قائم کرسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگ ابھی اس مسئلے پر بات ہی نہیں کررہے۔ خود یورپ کے بھی بہت سے لوگ حیرت کے ساتھ سوچتے ہیں، کیا واقعی یہ دنیا اور اس کے لوگ ایسے ہوجائیں گے؟ یورپ میں سائنس اور نفسیات کے شعبوں میں بہ یک وقت کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سوال ابھی لوگوں کے ذہن میں اس لیے آتا ہے کہ وہ انسان کی جسمانی قربت کا تعلق اُس کے دل کے زیرِاثر سمجھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اس قربت کے لیے جمالیات کا ایک تصور رکھتے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سارے مسائل جلد حل کرلیے جائیں گے۔
جہاں تک بات دل کی ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں خصوصیت کے ساتھ اس خیال کو فروغ دیا جارہا ہے کہ انسان کی خواہشیں بھی اصل میں اُس کی ضرورتوں ہی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی تحصیل میں بھی جذبے، شوق یا جوش سے نہیں محض عقل سے کام لینا چاہیے۔ گویا زندگی کے لیے دل کی نہیں صرف عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہم مشرق اور مغرب کے مزاج کا فرق بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مغرب عقل کو بڑی شے اور ایک الگ حقیقت سمجھتا ہے، جب کہ مشرق عقل کو دل کے ماتحت سمجھتا ہے۔ اس لیے اہلِ مشرق کہتے ہیں:
العقل فی القلب۔
یعنی عقل تو دل میں ہوتی ہے۔
اب رہی بات جمالیاتی ذوق کی۔ روبوٹ سے انسان کی ساری ضرورتوں (بشمول جنس اور جبلت) کو پورا کرنے کے خواہش مند ماہرین اہلِ مشرق کے اس رجحان سے بھی غافل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت روبوٹ کو دل کشی اور حسن کا وہ سارا سامان فراہم کیا جائے گا جو مرد کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی طرح مرد روبوٹ کو بھی ایسا ہی بنایا جائے گا کہ وہ عورتوں کے لیے ایک عام مرد سے زیادہ پرکشش ہو۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آنے والے زمانے میں انسانی زندگی سے دل کی پکار اور روح کی سرشاری کو نکال باہر کیا جائے گا۔ گویا روح، جذبے، ذوق، لگن اور تسکین ایسے غیرمادّی تصورات ہی انسان کی زندگی سے خارج ہوجائیں گے۔ جسم اور صرف جسم ہی ساری توجہ کا مرکز ہوگا۔ بس پھر تو انسان کے جمالیاتی ذوق کو بدلنا بھی مشکل نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بیس ویں صدی کے اختتام پر کم سے کم تھرڈ ورلڈ میں تو یہ نہیں سوچا جارہا تھا کہ موبائل فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسی ساری اشیا اور سہولتیں عام لوگوں تک بھی اتنی فراوانی سے پہنچ جائیں گی۔ ہمارے یہاں اس وقت ڈیڑھ دو روپے میں ملنے والی تندوری روٹی اب آٹھ روپے کی ہوگئی۔ یہ افراطِ زر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ اسی عرصے میں صرف فون کرنے اور میسج بھیجنے والے موبائل فون سے آج کے اسمارٹ فون تک کا سفر دیکھ لیجیے۔ اس فون کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات کو دیکھ لیجیے اور پھر ان کی قیمت کو بھی پیشِ نظر رکھیے۔ چناںچہ ماننا چاہیے کہ ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا، اور پھر دنیا کو ایسا بنانے کے لیے تو اربوں ڈالر اور پاؤنڈ خرچ کیے جارہے ہیں، لہٰذا ایسا ہونے کے امکان سے انکار کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہوگا۔
اس وقت ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا میں ہم اپنے اس تہذیبی، اخلاقی اور سماجی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں جس میں زندگی کا مطلب صرف جسمانی ضرورتیں اور خواہشیں نہیں ہیں، بلکہ وہ انسانی وجود کو روح کے ساتھ دیکھتا ہے۔ روح کے بغیر اُس میں جسم کے کوئی معنی نہیں۔ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہو تو پھر ہمیں ضرور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ایسا کس طور سے ممکن ہے اور اس کے لیے ہمیں کس کس سطح پر کن کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
رینے گینوں جیسے لوگ آتے ہوئے وقت کی چاپ سن کر اس کے رُجحانات اور مسائل کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اسی لیے اُس نے کہا تھا، عہدِجدید طوفان کی صورت رکھتا ہے، اور طوفان میں فصلیں کاشت نہیں کی جاتیں، صرف بیج کو بچایا جاتا ہے۔ رینے گینوں کی یہ بات درست ہے، اس لیے کہ بیج اگر بچ گیا تو فصلِ گل و لالہ بعد میں پھر سے اٹھائی جاسکتی ہے۔ آج ہم اپنی تہذیبی اور انسانی قدروں کی بقا کے لیے جو بھی حکمتِ عملی بنائیں ہمیں اس بات کا دھیان سب سے بڑھ کر رکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمیں اپنے بنیادی تصورات کو خلط ملط یا گم نہیں ہونے دینا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم انسان کو انسان کے مقام پر اور روبوٹ کو روبوٹ کی جگہ رکھ پائیں گے۔
نقادانِ ادب ہمیشہ سے ان کی قلمی کاوشوں کو سراہتے آئے ہیں کہ ان میں مطالعے اور فنی ریاضت کی بنیاد پر گہری معنویت اور بہت پُراثر اسلوب کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ مبین مرزا وقیع ادبی جریدے، ''مکالمہ'' کے ایڈیٹر ہیں، جو ان کے ادارے ''اکادمی بازیافت'' کے زیراہتمام شائع ہوتا ہے۔ اردو دنیا میں اسے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ وہ متعدد عالمی کانفرنسوں میں اپنے مقالے پیش کر چکے ہیں۔
ہماری درخواست پر مبین مرزا سنڈے میگزین میں زیرنظر شمارے سے مختلف ثقافتی، سماجی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر مضامین کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے درمیان ان مضامین کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس دنیا کے رنگ، خوش بُو اور رونقیں سب کچھ انسانی رشتوں ہی سے قائم ہیں۔ رشتوں کے بغیر یہ دنیا سائیں سائیں کرتے ہوئے صحرا سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ اس سچائی کا اعتراف شعر و ادب سے وابستہ افراد ہی نہیں کرتے، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کے ماہرین بھی اپنے اپنے انداز اور طریقِ کار کے مطابق ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں۔
انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی صورتوں، طرزِ احساس کی تبدیلی اور سماجی نظام کے بدلتے ہوئے معیار کے تحت زندگی کو دیکھنے اور اس کی اہمیت کو جاننے پرکھنے کا سانچا تو بے شک زمانوں اور معاشروں کے فرق کے ساتھ الگ ہوسکتا ہے، لیکن تاریخ کے کسی بھی دور میں اور کسی بھی سماج میں رشتوں کے وجود اور ان کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا- لیکن عہدِ جدید کی صورتِ حال ہمیں ایک بڑے سوال اور بڑے مسئلے سے دوچار کررہی ہے۔ سوال یہ ہے، کیا آنے والے وقت (مستقبل قریب) میں انسان اپنے رشتوں کی ضرورت سے آزاد ہوجائے گا؟
زندگی دونوں ہی طرح سے گزاری جاسکتی ہے، آزاد مشربی سے، یعنی بے پروا ہوکر اور سنجیدگی سے، یعنی ذمے داری کے ساتھ۔ اِس کا دارومدار اصل میں انسان کی اپنی اُفتادِ طبع پر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی طبیعت میں لااُبالی پن ہوتا ہے، ان پر کچھ بھی پڑھ کر پھونک دیا جائے یا انھیں کچھ بھی گھول کر پلا دیا جائے، مجال ہے جو وہ ٹس سے مس ہوجائیں۔ اسی طرح بردباری اور ذمے داری کا مادّہ بھی آدمی میں شروع ہی سے نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بالعموم حساس ہوتے ہیں۔ فراق نے کہا تھا:
بہت پہلے سے اِن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
یہ بات اُن سب حساس لوگوں پر صادق آتی ہے جو رُخ بدلتی ہوا کو محسوس کرلیتے ہیں اور جن تک نئے موسموں کی خوش بو پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ لوگوں کی انفرادی زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی یا سماجی سطح پر بھی۔ ہر سماج میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وقت کے قدموں کی آہٹ سے آنے والے دنوں کی صورتِ حال کا اندازہ لگاتے اور اُس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت بھی اُن سب معاشروں میں ہورہا ہے جو اپنا ایک سماجی ضابطہ اور اخلاقی نظام رکھتے ہیں۔ یہ سوچ بچار بے جا نہیں ہے۔ اس لیے کہ آنے والے دنوں میں اُن کی تہذیب، اُن کا سماج ایک بڑے گمبھیر مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
مسئلہ تو واقعی خاصا سنجیدہ ہے، بلکہ سنگین بھی۔ اس لیے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یوں بھی اگر ہم ذمے داری کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو ہمیں آنکھیں کھلی رکھنا ہوتی ہیں، باخبر رہنا ہوتا ہے، دیکھنا اور سوچنا ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ آگے ہمیں کس صورتِ حال کا سامنا کرنا ہوگا۔ انفورمیشن ٹیکنولوجی کے اس دور میں تو یوں بھی معلومات کے بغیر جینے کا مطلب ہے، غیرانسانی سطح پر زندگی گزارنا۔ ظاہر ہے، آپ، ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا۔ ویسے اس وقت ہم جس مسئلے کے بارے میں بات کررہے ہیں، وہ سنگین تو بے شک ہے، لیکن دل چسپی سے خالی نہیں۔
یہ مسئلہ سنجیدہ اور سنگین اس لیے کہ انسانی رشتوں کی تہذیب اپنے سارے اخلاقی ضابطوں کے ساتھ داؤ پر لگی دکھائی دیتی ہے۔ رہی بات دل چسپی کی تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ سارا ماجرا انسانی فطرت کی آزمائش کا ہے۔ سو وہ لوگ جو انسانی فطرت کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں، اس پر یقین کرتے ہیں یا اُسے اُمید کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اس مسئلے سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ انسانیت کی بقا کا سوال اُن کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں انسانیت کی بقا سے مراد ابنِ آدم کی محض وجودی سلامتی نہیں ہے، مراد اصل میں یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے سفر میں جو کچھ انسان نے اپنی ذات اور اپنے سماج کی پاس داری کے لیے سیکھا اور سمجھا ہے اور اس کے لیے جو نظام بنایا ہے اور جو اقدار قائم کی ہیں، اس سب کے ساتھ انسانی سماج قائم رہے۔
ویسے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ آج اچانک پیدا نہیں ہوا۔ اب سے کئی برس پہلے اس کی نشان دہی اُس وقت ہوگئی تھی، جب ۸۰۰۲ء میں ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی کی کتاب ''روبوٹس سے محبت اور مباشرت'' (Sex and Love with Robots) منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس پر گفتگو کا آغاز تو فوراً ہی ہوگیا تھا، لیکن اس موضوع کی معلومات اور اس پر گفتگو کا دائرہ محدود رہا، یعنی کچھ مخصوص حلقوں کے معدودے چند ہی لوگوں نے اس مسئلے کو توجہ کے قابل سمجھا تھا۔ تاہم بیس ویں صدی کے آخری برسوں اور اکیس ویں صدی میں داخل ہوتے ہوتے ٹیکنولوجی نے جس حیرت انگیز بلکہ چکرا دینے والی رفتار سے ترقی کرکے دکھائی ہے اور اُس کے اثرات جس طرح امیروں کی دنیا کے ساتھ ساتھ آج ہمارے سامنے غریب ملکوں کے غریب تر عوام تک بھی پہنچ گئے ہیں، اُس نے اس سوال کو سوچنے اور غور کرنے والے لوگوں کے لیے اب محض نظری یا خیالی مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ اب تو اسے ایک ایسی زمینی حقیقت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لیے کہ آج کی دنیا میں جو کچھ ہمارے تجربے کا حصہ بن رہا ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے مستقبلِ قریب میں جو کچھ ہونے جارہا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں رہا۔
فرسٹ ورلڈ کے علمی، سائنسی (ٹیکنولوجی) اور نفسیات داں حلقوں میں اس مسئلے پر بحث میں شدت اُس وقت آئی جب اس موضوع پر اہلِ نظر کی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی کانفرنس 2014ء میں پرتگال میں ہوئی۔ دوسری 2015ء میں ملائیشیا میں رکھی گئی، لیکن کانفرنس کے انعقاد سے کچھ وقت پہلے حکومت نے منع کردیا۔ چناںچہ دوسری کانفرنس گذشتہ سال (2016ء) لندن میں ہوئی۔ اس کے بعد سے یہ موضوع اپنے مختلف پہلوؤں کے ساتھ نمایاں طور پر بہت سے ایسے حلقوں میں گونج رہا ہے جو سماجیات، نفسیات، سائنس اور معاشیات وغیرہ کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے یورپ کے سماجی مزاج میں جو اہم تبدیلیاں آئیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہاں ہر موضوع پر گفتگو کی آزادی کا تصور رائج ہوگیا۔ اس سے کسی کو غرض نہ رہی کہ دیکھے آیا موضوع قابلِ غور ہے بھی کہ نہیں، یا کہ سماج پر اس کے اثرات منفی ہوں گے کہ مثبت۔ بس اظہار کی آزادی کا تصور قبول کرلیا گیا۔ چناںچہ اظہار کی آزادی کا یہ حق ہر شخص کو حاصل ہوگیا، خواہ اُس کا موضوعِ بحث سے کوئی علمی، فکری یا تحقیقی تعلق ہو یا نہ ہو۔ چناںچہ ہر موضوع پر گفتگو کا راستہ کھل گیا۔ اب یہ آزادی صرف ہائڈ پارک تک محدود نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی اور کہیں بھی کسی بھی موضوع پر بات کرسکتا ہے۔
جیسا کہ انسانی معاشروں میں عام طور سے ہوتا آیا ہے کہ ہر خیال، مسئلے یا سوال کی بابت دو گروہ فوراً ہی بن جاتے ہیں، ایک جو اس کے حق میں رائے رکھتا ہے اور دوسرا مخالف۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور سے یہ دونوں حلقے کسی لمبی چوڑی بحث کے بعد وجود میں نہیں آتے، بلکہ ابتدا ہی میں قائم ہوجاتے ہیں۔
روبوٹ سے محبت کے مسئلے پر بھی یورپ میں ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف ڈاکٹر ڈرس کول نے رائے دی کہ ابھی روبوٹ سے محبت اور قربت کے لمحات کا خیال الجھن کا باعث ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب انسان روبوٹ کی محبت میں مبتلا ہوجائے گا۔ خود ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی نے تو ۷۰۰۲ء میں یہ کہہ دیا تھا کہ ۰۵۰۲ء کے آتے آتے روبوٹ کی شخصی (وجودی) حیثیت سماج میں اس حد تک قبول کرلی جائے گی کہ لوگ اس سے شادی کرنے لگیں گے۔
جب کہ ڈاکٹر ایان پیئر سن کا تو کہنا یہ ہے کہ اس وقت (2050ء) تک بروتھل اور اسٹرپ کلب جیسی جگہوں پر روبوٹ کا کردار اتنا نمایاں اور تسلیم شدہ ہوگا کہ لوگ اس کے ساتھ قربت کے لمحات کے لیے اپنی خواہش کا اظہار ترجیحی بنیاد پر کریں گے۔ یہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی زندگی میں بھی انسان کے بجائے روبوٹ کے ساتھ قربت کے لمحات گزارنے کا رویہ اس حد تک فروغ پاچکا ہوگا، کہ انسان اور انسان کے بجائے انسان اور روبوٹ کے درمیان قربت کا تناسب سماج میں کہیں زیادہ ہوگا۔ تاہم اس بحث میں ہمیں دوسرے رویے کا اظہار بھی ملتا ہے۔
اس کی نمائندگی ڈاکٹر کیتھلین رچرڈ سن جیسے لوگ کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ روبوٹ کے ساتھ ایسی قربت کا تصور سخت ناگوار ہے اور ایسے خیال کو رد کرنا چاہیے اور اس پر گفتگو کو ہرگز بڑھاوا نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس موضوع پر جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی اتنی جلدی یہ خیال انسانوں کے لیے قابلِ قبول ہوجائے گا۔ ایسی ناگوار صورتِ حال کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے کسی موضوع پر گفتگو ہی نہ کی جائے۔
اس بحث میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خاموشی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس مسئلے کے بارے میں کچھ اور سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلق کے حوالے سے ہر سماج میں ایک نظام پایا جاتا ہے، جو ایک مخصوص سماج میں ایسے تعلق کے اخلاقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ کیا انسان اور روبوٹ کا تعلق بھی اسی نظام کے زیرِاثر ہوگا؟
کیا انسان اور روبوٹ کے تعلق کو سماجی حیثیت حاصل ہوگی؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جس طرح ایک مرد یا عورت کی کسی دوسری عورت یا مرد کی قربت کی خواہش کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اسی طرح کیا روبوٹ کو بھی اس سطح کا شعور فیڈ کیا گیا ہوگا اور کیا وہ اقرار یا انکار کا اختیار استعمال کرسکے گا؟
ڈاکٹر کیٹ ڈیولن جو اس موضوع پر لندن میں ہونے والی دوسری کانفرنس کی مجلسِ صدارت کا حصہ تھیں، انھوں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ''ہمیں انسان اور روبوٹ کے تعلق کے سلسلے میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے جس میں روبوٹ کو صرف ایک مشین یا ایک جنسی ہدف کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے انسان کے ساتھی کے طور پر دیکھا جائے، جسے خود انسان نے اپنے لیے بنایا ہے۔'' ان سب باتوں، اس قسم کے سوالوں اور ایسی بحثوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مغرب میں روبوٹ کی وجودی حیثیت کو کس حد تک تسلیم کیا جاچکا ہے۔
لگ بھگ پون صدی پہلے فرانس کے مسلمان دانش ور عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) نے وقت کے دھارے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا، عہدِجدید ایک ایسے طوفان کی صورت رکھتا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا، اس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا۔ زندگی کے گذشتہ تین چار عشروں کو سامنے رکھا جائے تو رینے گینوں کے اس بیان کی سچائی اور اس عہد کے مزاج کی حقیقت کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
آج نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح کا مطلب بھی ہم پر پوری طرح آشکار ہوچکا ہے۔ اب قوموں اور ملکوں کے درمیان جنگ کا روایتی تصور بڑی حد تک تبدیل ہوگیا ہے۔ چناںچہ جنگ کے ذریعے دنیا کے جغرافیے کو بدلنے کا رجحان بہت حد تک ختم ہوچکا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں اب برقرار رکھی جاتی ہیں۔ البتہ ثقافتی نقشہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تہذیب کی کایا پلٹ دی جاتی ہے۔ سماجی اور اخلاقی اقدار کا تصور ختم کردیا جاتا ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، حالیہ برسوں میں عراق، افغانستان، مصر اور اب شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
لگ بھگ ساٹھ باسٹھ برس پہلے عالمی منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برٹرینڈ رسل نے مشرق کی بیداری کے آثار دیکھے تھے۔ اس بیداری میں اسے تین تہذیبوں کا مرکزی کردار محسوس ہوا تھا، یعنی مسلم، چینی اور ہندی۔ ان تینوں کے دبیز اور وقیع ثقافتی مظاہر اور اپنے اپنے سماج پر ان کے گہرے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے رسل نے کہا تھا کہ مشرق کے نئے طلوع میں ان تینوں تہذیبوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس نے کہا تھا کہ ان تینوں تہذیبوں کو یکسانیت کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ انھیں اپنی اپنی انفرادی شناخت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بیداری مشرق کی ہو یا شمال یا پھر جنوب کی، سامراجیت کے لیے کیوں کر قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔
چناںچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں سامراجی حیلے بھی بدل گئے ہیں۔ آج انسانی آزادی، سماجی حقوق، امداد، اصلاح اور فلاح کے نام پر استحصالی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب و سماج کی بقا اور استحکام میں ایک اہم کردار اُس کے انفرادی ثقافتی نقوش اور سماجی نظام کا بھی ہوتا ہے۔ نئی سامراجیت نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کا پورا پورا بندوبست کیا ہے۔ آج دنیا میں ایک سرے سے لے کر دوسرے تک برگر اور کولا کا پھیلاؤ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کو تو چھوڑیے کہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں سیاست نے جمہوریت کے نام پر وہی کھیل کھیلے ہیں جو آمریت نے کھیلے ہیں۔
یہاں سماجی اکائی کو توڑ کر سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی عدم استحکام کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ یہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک کی مشترک تقدیر ہے۔ افسوس تو زیادہ اس بات کا ہے کہ چین جیسا روایتی معاشرہ بھی جو اپنی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے بجا طور پر فرسٹ ورلڈ کا حصہ ہے وہ بھی سامراجی ہتھکنڈوں کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا۔ اب وہاں بھی آپ کو کولا اور برگر کی دنیا دیکھنے کو ملتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے یکسانیت کا نفوذ، یک رنگی کا پھیلاؤ، یعنی تہذیبوں کی اپنی اپنی انفرادی شناخت کا مٹ جانا۔ جب مشرق اور مغرب دونوں ایک جیسے ہوں تو پھر بھلا مشرق کی بیداری کے کیا معنی رہ جاتے ہیں۔
آج ہم سب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی ایک مشینی سانچے میں ڈھالی جارہی ہے، اور یہ کام بہت تیزی سے ہورہا ہے۔ ساری دنیا ایک ہی طرح کے سماج میں تبدیل ہورہی ہے۔ گلوبل ولیج کا یہی مطلب ہے- یعنی ایک بے اقدار اور بے ثقافت سماج۔ ہمیں اس حقیقت کو واضح طور پر ابھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے سماج کے لوگوں کی زندگی میں نہ تو اُلوہی یا روحانی رہنمائی کی گنجائش ہوگی اور نہ ہی انھیں ایسے مضامین، کہانیوں اور شاعری کی ضرورت ہوگی جو اُن کے اندر اپنی روح کی آواز سننے کی خواہش پیدا کریں۔ انھیں اپنے وجود سے اوپر اٹھنے اور اردگرد موجود دنیا اور اس کی حقیقتوں سے برتر حقائق کے بارے میں سوچنے، جاننے اور کوئی عملی راہ اختیار کرنے کی راہ سجھائیں۔ یہ سب حال مست لوگ ہوں گے۔ اخلاقی کشاکش، جذباتی اتار چڑھاؤ اور روحانی بحران سے قطعی ناآشنا لوگ۔ زندگی کے مارے ہوئے، زندگی سے عاری لوگ- مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹ کی طرح۔
اس جدید دنیا میں جہاں اب تیزی سے انسانوں کی زندگی مشینوں کے قبضے میں جارہی ہے، ابھی روبوٹ سے انسان کی شادی کا سوال حیرت کا باعث ہے۔ انسان کسی مشین سے کیسے ایسا رشتہ قائم کرسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگ ابھی اس مسئلے پر بات ہی نہیں کررہے۔ خود یورپ کے بھی بہت سے لوگ حیرت کے ساتھ سوچتے ہیں، کیا واقعی یہ دنیا اور اس کے لوگ ایسے ہوجائیں گے؟ یورپ میں سائنس اور نفسیات کے شعبوں میں بہ یک وقت کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سوال ابھی لوگوں کے ذہن میں اس لیے آتا ہے کہ وہ انسان کی جسمانی قربت کا تعلق اُس کے دل کے زیرِاثر سمجھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اس قربت کے لیے جمالیات کا ایک تصور رکھتے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سارے مسائل جلد حل کرلیے جائیں گے۔
جہاں تک بات دل کی ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں خصوصیت کے ساتھ اس خیال کو فروغ دیا جارہا ہے کہ انسان کی خواہشیں بھی اصل میں اُس کی ضرورتوں ہی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی تحصیل میں بھی جذبے، شوق یا جوش سے نہیں محض عقل سے کام لینا چاہیے۔ گویا زندگی کے لیے دل کی نہیں صرف عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہم مشرق اور مغرب کے مزاج کا فرق بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مغرب عقل کو بڑی شے اور ایک الگ حقیقت سمجھتا ہے، جب کہ مشرق عقل کو دل کے ماتحت سمجھتا ہے۔ اس لیے اہلِ مشرق کہتے ہیں:
العقل فی القلب۔
یعنی عقل تو دل میں ہوتی ہے۔
اب رہی بات جمالیاتی ذوق کی۔ روبوٹ سے انسان کی ساری ضرورتوں (بشمول جنس اور جبلت) کو پورا کرنے کے خواہش مند ماہرین اہلِ مشرق کے اس رجحان سے بھی غافل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت روبوٹ کو دل کشی اور حسن کا وہ سارا سامان فراہم کیا جائے گا جو مرد کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی طرح مرد روبوٹ کو بھی ایسا ہی بنایا جائے گا کہ وہ عورتوں کے لیے ایک عام مرد سے زیادہ پرکشش ہو۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آنے والے زمانے میں انسانی زندگی سے دل کی پکار اور روح کی سرشاری کو نکال باہر کیا جائے گا۔ گویا روح، جذبے، ذوق، لگن اور تسکین ایسے غیرمادّی تصورات ہی انسان کی زندگی سے خارج ہوجائیں گے۔ جسم اور صرف جسم ہی ساری توجہ کا مرکز ہوگا۔ بس پھر تو انسان کے جمالیاتی ذوق کو بدلنا بھی مشکل نہیں رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بیس ویں صدی کے اختتام پر کم سے کم تھرڈ ورلڈ میں تو یہ نہیں سوچا جارہا تھا کہ موبائل فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسی ساری اشیا اور سہولتیں عام لوگوں تک بھی اتنی فراوانی سے پہنچ جائیں گی۔ ہمارے یہاں اس وقت ڈیڑھ دو روپے میں ملنے والی تندوری روٹی اب آٹھ روپے کی ہوگئی۔ یہ افراطِ زر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ اسی عرصے میں صرف فون کرنے اور میسج بھیجنے والے موبائل فون سے آج کے اسمارٹ فون تک کا سفر دیکھ لیجیے۔ اس فون کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات کو دیکھ لیجیے اور پھر ان کی قیمت کو بھی پیشِ نظر رکھیے۔ چناںچہ ماننا چاہیے کہ ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا، اور پھر دنیا کو ایسا بنانے کے لیے تو اربوں ڈالر اور پاؤنڈ خرچ کیے جارہے ہیں، لہٰذا ایسا ہونے کے امکان سے انکار کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہوگا۔
اس وقت ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا میں ہم اپنے اس تہذیبی، اخلاقی اور سماجی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں جس میں زندگی کا مطلب صرف جسمانی ضرورتیں اور خواہشیں نہیں ہیں، بلکہ وہ انسانی وجود کو روح کے ساتھ دیکھتا ہے۔ روح کے بغیر اُس میں جسم کے کوئی معنی نہیں۔ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہو تو پھر ہمیں ضرور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ایسا کس طور سے ممکن ہے اور اس کے لیے ہمیں کس کس سطح پر کن کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
رینے گینوں جیسے لوگ آتے ہوئے وقت کی چاپ سن کر اس کے رُجحانات اور مسائل کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اسی لیے اُس نے کہا تھا، عہدِجدید طوفان کی صورت رکھتا ہے، اور طوفان میں فصلیں کاشت نہیں کی جاتیں، صرف بیج کو بچایا جاتا ہے۔ رینے گینوں کی یہ بات درست ہے، اس لیے کہ بیج اگر بچ گیا تو فصلِ گل و لالہ بعد میں پھر سے اٹھائی جاسکتی ہے۔ آج ہم اپنی تہذیبی اور انسانی قدروں کی بقا کے لیے جو بھی حکمتِ عملی بنائیں ہمیں اس بات کا دھیان سب سے بڑھ کر رکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمیں اپنے بنیادی تصورات کو خلط ملط یا گم نہیں ہونے دینا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم انسان کو انسان کے مقام پر اور روبوٹ کو روبوٹ کی جگہ رکھ پائیں گے۔