سی پیک ایک خواب کا شرمندۂ تعبیر ہونا
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے معاشی مستقبل کی سمت ایک بڑی پیشرفت ہے
لاہور:
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے معاشی مستقبل کی سمت ایک بڑی پیشرفت ہے اور اس منصوبہ کو اگر گیم چینجر کہا جاتا ہے تو اس پر کسی کو چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں۔
دنیا کے ہر ملک کو اس بات کا بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کی اقتصادی مشکلات کم کرنے اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کسی بھی اقتصادی تصور کو عملی شکل دینے میں جب کہ خطے کے پڑوسی ملکوں اور خصوصا سارک تنظیم سے وابستہ رکن ملکوں کو اس منصوبہ کی ہمہ جہتی اور پاک چین دوستی کے تحت تکمیل کو ایک خوش آئند پیش قدمی سے تعبیر کرنا چاہیے اور ہو سکے تو اس میں شمولیت کے ذریعہ مشترکہ اقتصادی اہداف تک رسائی کا بین الملکی پیراڈائم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے لیکن وزیراعظم نواز شریف نے جن خیالات کا دورہ ترکی میں اظہار کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ قوتوں کے لیے سی پیک حلق میں کانٹا بن کر چبھ گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے امریکا یا مغرب سے کوئی سازش محسوس نہیں ہوتی تاہم خطے کی بعض طاقتیں اس منصوبہ سے ناخوش ہیں جب کہ ''خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم'' کے مصداق وزیراعظم نے خطے کے کسی ملک کا نام نہیں لیا مگر سی پیک کی مخالفت اور مزاحمت میں بھارت ساری سفارتی، سیاسی اور نفسیاتی حدیں عبور کر چکا ہے اور پاکستان کو حالیہ دہشتگردی کا جو نیا چیلنج ملا ہے اس کا سیاسی قیادت اور پاک فوج سی پیک اور دیگر زمینی حقائق کی روشنی میں فعال جائزہ لے رہی ہے اور ممکنہ دشمنوں کے عزائم کو مد نظر رکھتے ہوئے آپریشن رد الفساد شروع کیا ہے جو دشمن کے جنگجویانہ مائنڈ سیٹ اور معاندانہ سفارتکاری کے خلاف زبردست رد عمل اور غیروں کے سیاسی و عسکری ہتھکنڈوں سے نمٹنے کا آہنی راستہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا راہداری منصوبہ میں ترکی کی شمولیت کا خیرمقدم کرینگے، پرامن افغانستان پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے، نوازشریف نے چند لفظوں میں بیان کیا کہ افغانستان سے الزامات کی بوچھاڑ ہوئی مگر انھیں جواب نہیں دیا، کوئی ہنگامہ آرائی نہیں چاہتے تاہم ارباب اختیار کو ادراک کرنا چاہیے کہ دشمن طوفان اٹھانے کی دھمکیاں دیتا ہو، کنٹرول لائن پر کشیدگی کو ہوا دے رہا ہو، پاکستان کے بیگناہ شہریوں کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیوں میں علی الاعلان ملوث ہو۔
پاکستان کے مخالف عسکریت پسندوں کو شہ دی جا رہی ہو، تو پاکستان مجبور ہوا ہے کہ اس بلاجواز دہشتگردی کا مقابلہ ریاستی عزم و حوصلے سے کرے اور پاکستان نے بجا طور پر اپنے عوام اور ملکی مفاد کے پیش نظر جو کارروائیاں شروع کی ہیں وہ ملکی سالمیت کے لیے ضروری ہیں۔ وزیراعظم کی یہ خواہش قابل تعریف ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ترکی وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ترقی دے سکتا ہے، ہمارا مستقبل کا وژن خنجراب سے چین، کرغزستان اورقزاقستان تک وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر مرکوز ہے، ترکی کے صدر کے ساتھ ملاقات میں شام، روس اور داعش کے علاوہ آزاد تجارت کے معاہدے اور اقتصادی تعاون سمیت مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔
لاہور میں دھماکہ کے حوالے سے میڈیا کے ذریعے غلط تاثر کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان اس کا خیرخواہ ہے اور ہم ایک پرامن افغانستان چاہتے ہیں کیونکہ یہ خطے کے مفاد میں ہے، افغانستان کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، پشاور۔ کابل موٹر وے کی تعمیر کے لیے فزیبلٹی کا کام جاری ہے جب کہ پشاور، جلال آباد شاہراہ پر 60 فیصد ترقیاتی کام مکمل ہو چکا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے متعلق بہت سے رابطوں کا پتہ افغانستان کے ساتھ چلا ہے تاہم پاکستان اپنے پڑوسی ملک میں استحکام کی حمایت جاری رکھے گا۔
بلاشبہ خطے کی ضرورت امن و استحکام سے مشروط ہے اور امن لہو سے لالہ زار کشمیر کے دامن مظلومیت سے پیوست ہے، پاکستان کا دکھ یہ ہے کہ برادر پڑوسی ملک افغانستان بجائے داخلی امن و سلامتی کے عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کے پیش نظر اس کے شانہ بشانہ چلے، بھارت کا آلہ کار نہ بنے، الزام تراشی سے بچے تا کہ دونوں برادر ملک آسودگی، معاشی و سیاسی استحکام کی مشترکہ منزل تک رسائی حاصل کریں۔
سی پیک اسی خواب کو چین کی مدد سے شرمندہ تعبیر کرنے کا ایک والہانہ اقتصادی منصوبہ ہے جس میں یورپ، روس اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں نے شمولیت پر دلچسپی ظاہر کی ہے جب کہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سے مخاصمت کا خاتمہ کر کے بھارت، افغانستان اور دیگر محتاط ملک باہمی معاونت کے اس کثیرالمقاصد میگا پروجیکٹ میں شامل ہو کر خطے کی اجتماعی تقدیر بدلنے پر رضامند ہو جائیں۔
پاکستان منتظر ہے کہ سی پیک میں افغانستان، بھارت، ایران، وسطی ایشیائی ریاستیں اور دیگر ممالک شامل ہو جائیں۔ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ گھر کی چھت کی مرمت اسی وقت کریں جب سورج چمک رہا ہو۔ دشمن کو نوید ہو کہ پاکستان تو اپنے گھر کی معاشی تعمیر میں مصروف ہے۔