فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ… فیصلہ جلد ہونا چاہیے

فوجی عدالتوں کے متعلق 23 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں ردوبدل کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات برقرار ہیں


Editorial February 25, 2017
فوٹو : فائل

ملک میں فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے وفاقی حکومت اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں تاحال کوئی فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ اس قدر اہمیت کے حامل معاملے پر کوئی پیشرفت نہ ہونا اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں تاہم یہ اطلاع کسی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ہونے والی ذیلی کمیٹی میں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، تاہم اس کا حتمی فیصلہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کریں گے۔

ادھر یہ اطلاع بھی ہے کہ فوجی عدالتوں کے متعلق 23 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں ردوبدل کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات برقرار ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی تاکہ گرفتار دہشت گردوں کو جلد سزائیں دی جا سکیں کیونکہ سول عدالتوں کے جج صاحبان کو مختلف دھمکیوں کا سامنا تھا اور اس کے علاوہ ان عدالتوں پر دیگر کیسوں کا بوجھ بھی بہت زیادہ تھا۔ اسی وجہ سے خصوصی حالات میں ان کے قیام کی ضرورت پیش آتی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے روز اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمانی رہنماؤں کا ساتواں مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فوجی عدالتوں کے معاملے پر مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی نے بھی بائیکاٹ ختم کر کے شرکت کی تاہم کوئی پیشرفت نہ ہو سکی جس پر اتفاق رائے کے لیے معاملہ وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ بہرحال وفاقی حکومت اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کو دہشتگردی جیسے حساس معاملے سے نمٹنے کے لیے جلد فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس معاملے میں سیاسی مفادات کے تحفظ کا کھیل معاملات کو بگاڑ بھی سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں