فاروق ضمیر
جب بھی پاکستان میں پرفارمنگ آرٹس کی تاریخ پر بات ہوگی تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان کے نام کو نظر انداز کرسکے
اردو کی شعری تنقید میں مولانا حالی کے لیے ایک بہت مختلف، منفرد اور انوکھا سا اسم توصیف ''بھلا مانس غزل گو'' کی صورت میں وضع کیا گیا۔ میں نے جب پہلی بار فاروق ضمیر مرحوم کو دیکھا اور ان سے بات کی تو مجھے لگا کہ اگر اداکاروں میں سے کسی شخص پر القاب سب سے زیادہ فٹ بیٹھتا ہے تو وہ فاروق صاحب ہی ہیں۔ ان کا شانت چہرہ، ہمدرد آنکھیں اور دل کو چھوتا ہوا نرم اور ہموار لہجہ مل جل کر ان کی شخصیت کا ایک ایسا تاثر قائم کرتے تھے کہ ان سے ملنے والا ہر شخص خود بخود ان کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔
میں نے کئی ڈراموں کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی ایک دو بار دیکھا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک اصول پسند، ذمے دار اور حساس انسان تھے۔یہ غالباً 1970ء کے اوائل کی بات ہے کہ پی ٹی وی سے ''کہانی کی تلاش'' کے عنوان سے ایک ڈرامہ سیریز شروع ہوئی جو غالباً اس وقت تک واحد پروگرام تھا جو کسی حد تک Out Sourse کیا گیا تھا کہ اسے ڈاکٹر انور سجاد، ڈاکٹر خالد سعید بٹ اور فاروق ضمیر مل کر اپنے طور پر پروڈیوس کرتے تھے۔ یہ وہی سیریز ہے جس سے کئی اہم اداکاروں کے علاوہ روحی بانو جیسی بے مثال اداکارہ کو سامنے آنے کا موقع ملا۔
اگر اس حوالے کو صرف آواز کے زیروبم کی حد تک محدود رکھا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جس طرح دلیپ کمار صاحب نے فلم میں سرگوشی سے ملتے جلتے لہجے میں بھر پور تاثر کے ساتھ مکالمے ادا کرنے کو رواج دیا تھا اسی طرح ٹیلی وژن میں اس کا کریڈٹ طلعت حسین اور فاروق ضمیر صاحبان کو ہی جاتا ہے کہ دونوں کی ابتدائی تربیت ریڈیو سے ہوئی تھی جس نے آگے چل کر ان کی ایکٹنگ کیریئر میں کچھ ایسی جہتوں کو فروغ دیا جو ان ہی کے نام سے منسوب ہو گئیں۔
مجھے زندگی میں مختلف مواقع پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں تھیٹر، ٹی وی سیریل اور فلم تینوں شامل ہیں اور ہر مقام پر میں نے ان کی شخصیت، ایکٹنگ کے فن کی جان کاری، ہدایت کاری کی صلاحیت اور آواز کی جادوگری کے ایسے ایسے نئے اور متاثر کن مظاہرے دیکھے جن سے میرے دل میں ان کی عزت بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ 1976ء کی بات ہے میں ان دنوں میں پنجاب آرٹ کونسل میں ڈرامے اور ادب کے شعبے کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا اور دیگر سرکاری اور ثقافتی اداروں کی طرح ہم بھی قائداعظم کے سو سالہ جشن پیدائش کے حوالے سے مختلف پروگرام تیار کر رہے تھے۔
میں نے احمد ندیم قاسمی مرحوم سے ''آدمی ذات'' کے عنوان سے ایک خصوصی اسٹیج ڈرامہ فرمائش کر کے لکھوایا اور فاروق ضمیر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اس میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیں۔ کھیل پانچ مختلف سیٹس پر پھیلا ہوا تھا اور ان دنوں لاہور میں ایک بھی ایسا اسٹیج نہیں تھا جس پر دو سے زیادہ سیٹ لگائے جا سکیں جب کہ ہمارا وینیو واپڈا ہاؤس کے آڈیٹوریم کا ایک ایسا اسٹیج تھا جو خاصا لمبا ہونے کے باوجود گہرائی میں اس قدر کم تھا کہ اس پر ایک سیٹ بھی ڈھنگ سے نہیں لگایا جا سکتا تھا۔
میں بہت مشکل میں تھا کہ ایک تو وقت بہت کم تھا اور دوسرے قاسمی صاحب جیسی محترم ہستی سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ اسے دوبارہ سے ایک سیٹ تک محدود کر کے لکھ دیں اپنی جگہ ایک نازک مسئلہ تھا مگر فاروق ضمیر صاحب نے یہ سارا مسئلہ دو منٹ میں یہ کہہ کر حل کر دیا کہ ہم اس اسٹیج کی لمبائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پانچ حصوں میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ہر حصے کو ایک مختلف رنگ کے بیک ڈراپ سے علامتی انداز میں بغیر کوئی باقاعدہ سیٹ لگائے صرف اس کے آگے فوراً اٹھا کر رکھی جانے والی پراپس اور روشنیوں کے ذریعے سیٹ کا تاثر قائم کریں گے۔
ڈر صرف یہ تھا کہ کیا ہمارے تھیٹر دیکھنے والے ناظرین اس تجربے کو ہضم بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ اس ڈرامے اور اس تجربے کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی جس کا سارا کریڈٹ فاروق ضمیر مرحوم کو جاتا ہے کہ یہ سارا کمال انھیں کے وژن کا تھا۔
یوں تو انھوں نے میرے کئی ڈراموں میں کام کیا لیکن ڈرامہ سیریل ''رات'' میں ان کا ڈاکٹر پروفیسر رزاق کا کردار میرے نزدیک پہلے نمبر پر آتا ہے کہ یہ مشکل اور پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ واقعاتی ردعمل کے نو بہ نو پہلوؤں کا حامل تھا (اتفاق سے فیس بک پر ان کی جس پرفارمنس کو اپ لوڈ کیا گیا ہے اس کا تعلق بھی اسی ڈرامے اور کردار سے ہے) ہم نے کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی اسکول آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے ڈاکٹر احمد بلال کی ''ناٹک'' کے عنوان سے بنائی گئی ایک ڈرامہ ورکشاپ میں بھی مل کر کام کیا جو ایک بہت خوش آئند اور قیمتی تجربہ تھا۔ اسی طرح چند برس قبل برادرم شہزاد رفیق کی فلم ''سلاخیں'' کے جو مکالمے میں نے لکھے ان سے صحیح معنوں میں اگر کسی نے انصاف کیا تو وہ بھی فاروق ضمیر ہی تھے۔
پی ٹی وی کی باون سالہ تاریخ کا سنہری دور 1970ء سے 2000ء کے درمیان کا زمانہ ہے۔ اس عرصے میں ہر شعبے کی طرح اداکاری کے میدان میں بھی بہت سے لوگ ابھر کر سامنے آئے اور مقبولیت کی مختلف منازل پر فائز اور مقیم ہوئے لیکن جن چند لوگوں کو ایک طرح سے رول ماڈل کا درجہ دیا گیا ان میں فاروق ضمیر صرف شامل ہی نہیں بلکہ ان کا شمار اس صف کے سربرآوردہ اور اہم ترین ناموں میں ہوتا ہے۔ گلیمر کی اس چک دمک اور شور شرابے والی دنیا میں وہ اپنے دھیمے لہجے اور پروقار شخصیت کے ساتھ خواص کے ساتھ ساتھ عوام کے حلقے میں بھی ہمیشہ مقبول و محترم رہے۔
وہ ٹی وی ڈرامے کی اس عظیم عمارت کے بنیادی معماروں میں سے تھے جو فی الوقت فن کاروں کے ہاتھوں سے نکل کر تاجروں کے قبضے میں چلی گئی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے فاروق ضمیر جیسے گنی، تجربہ کار اور بے مثال لوگوں کے بجائے ڈرامہ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جن کے نزدیک یہ ایک فن اور تہذیبی اظہار اور درس گاہ کے بجائے ایک گھٹیا درجے کا ڈپارٹمنٹل اسٹور ہے جس میں اخلاقیات کی جگہ بھی معاشیات کو دیدی گئی ہے۔
فاروق ضمیر غوری نے اپنی ساری زندگی ایک سچے فن کار کی طرح اپنی بے مثال صلاحیت اور غیر معمولی شخصیت کے بل پر عزت کے ساتھ گزاری اور جب بھی پاکستان میں پرفارمنگ آرٹس کی تاریخ پر بات ہوگی تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان کے نام کو نظر انداز کرسکے اور یوں ایک اعتبار سے مجھ سمیت وہ سب لوگ خوش قسمت ہیں جنھیں ایک ایسے بڑے فن کار کے ساتھ کام کرنے اور ملاقات کا موقع ملا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
میں نے کئی ڈراموں کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی ایک دو بار دیکھا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک اصول پسند، ذمے دار اور حساس انسان تھے۔یہ غالباً 1970ء کے اوائل کی بات ہے کہ پی ٹی وی سے ''کہانی کی تلاش'' کے عنوان سے ایک ڈرامہ سیریز شروع ہوئی جو غالباً اس وقت تک واحد پروگرام تھا جو کسی حد تک Out Sourse کیا گیا تھا کہ اسے ڈاکٹر انور سجاد، ڈاکٹر خالد سعید بٹ اور فاروق ضمیر مل کر اپنے طور پر پروڈیوس کرتے تھے۔ یہ وہی سیریز ہے جس سے کئی اہم اداکاروں کے علاوہ روحی بانو جیسی بے مثال اداکارہ کو سامنے آنے کا موقع ملا۔
اگر اس حوالے کو صرف آواز کے زیروبم کی حد تک محدود رکھا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جس طرح دلیپ کمار صاحب نے فلم میں سرگوشی سے ملتے جلتے لہجے میں بھر پور تاثر کے ساتھ مکالمے ادا کرنے کو رواج دیا تھا اسی طرح ٹیلی وژن میں اس کا کریڈٹ طلعت حسین اور فاروق ضمیر صاحبان کو ہی جاتا ہے کہ دونوں کی ابتدائی تربیت ریڈیو سے ہوئی تھی جس نے آگے چل کر ان کی ایکٹنگ کیریئر میں کچھ ایسی جہتوں کو فروغ دیا جو ان ہی کے نام سے منسوب ہو گئیں۔
مجھے زندگی میں مختلف مواقع پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں تھیٹر، ٹی وی سیریل اور فلم تینوں شامل ہیں اور ہر مقام پر میں نے ان کی شخصیت، ایکٹنگ کے فن کی جان کاری، ہدایت کاری کی صلاحیت اور آواز کی جادوگری کے ایسے ایسے نئے اور متاثر کن مظاہرے دیکھے جن سے میرے دل میں ان کی عزت بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ 1976ء کی بات ہے میں ان دنوں میں پنجاب آرٹ کونسل میں ڈرامے اور ادب کے شعبے کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا اور دیگر سرکاری اور ثقافتی اداروں کی طرح ہم بھی قائداعظم کے سو سالہ جشن پیدائش کے حوالے سے مختلف پروگرام تیار کر رہے تھے۔
میں نے احمد ندیم قاسمی مرحوم سے ''آدمی ذات'' کے عنوان سے ایک خصوصی اسٹیج ڈرامہ فرمائش کر کے لکھوایا اور فاروق ضمیر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اس میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیں۔ کھیل پانچ مختلف سیٹس پر پھیلا ہوا تھا اور ان دنوں لاہور میں ایک بھی ایسا اسٹیج نہیں تھا جس پر دو سے زیادہ سیٹ لگائے جا سکیں جب کہ ہمارا وینیو واپڈا ہاؤس کے آڈیٹوریم کا ایک ایسا اسٹیج تھا جو خاصا لمبا ہونے کے باوجود گہرائی میں اس قدر کم تھا کہ اس پر ایک سیٹ بھی ڈھنگ سے نہیں لگایا جا سکتا تھا۔
میں بہت مشکل میں تھا کہ ایک تو وقت بہت کم تھا اور دوسرے قاسمی صاحب جیسی محترم ہستی سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ اسے دوبارہ سے ایک سیٹ تک محدود کر کے لکھ دیں اپنی جگہ ایک نازک مسئلہ تھا مگر فاروق ضمیر صاحب نے یہ سارا مسئلہ دو منٹ میں یہ کہہ کر حل کر دیا کہ ہم اس اسٹیج کی لمبائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پانچ حصوں میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ہر حصے کو ایک مختلف رنگ کے بیک ڈراپ سے علامتی انداز میں بغیر کوئی باقاعدہ سیٹ لگائے صرف اس کے آگے فوراً اٹھا کر رکھی جانے والی پراپس اور روشنیوں کے ذریعے سیٹ کا تاثر قائم کریں گے۔
ڈر صرف یہ تھا کہ کیا ہمارے تھیٹر دیکھنے والے ناظرین اس تجربے کو ہضم بھی کر سکیں گے یا نہیں۔ اس ڈرامے اور اس تجربے کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی جس کا سارا کریڈٹ فاروق ضمیر مرحوم کو جاتا ہے کہ یہ سارا کمال انھیں کے وژن کا تھا۔
یوں تو انھوں نے میرے کئی ڈراموں میں کام کیا لیکن ڈرامہ سیریل ''رات'' میں ان کا ڈاکٹر پروفیسر رزاق کا کردار میرے نزدیک پہلے نمبر پر آتا ہے کہ یہ مشکل اور پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ واقعاتی ردعمل کے نو بہ نو پہلوؤں کا حامل تھا (اتفاق سے فیس بک پر ان کی جس پرفارمنس کو اپ لوڈ کیا گیا ہے اس کا تعلق بھی اسی ڈرامے اور کردار سے ہے) ہم نے کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی اسکول آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کے ڈاکٹر احمد بلال کی ''ناٹک'' کے عنوان سے بنائی گئی ایک ڈرامہ ورکشاپ میں بھی مل کر کام کیا جو ایک بہت خوش آئند اور قیمتی تجربہ تھا۔ اسی طرح چند برس قبل برادرم شہزاد رفیق کی فلم ''سلاخیں'' کے جو مکالمے میں نے لکھے ان سے صحیح معنوں میں اگر کسی نے انصاف کیا تو وہ بھی فاروق ضمیر ہی تھے۔
پی ٹی وی کی باون سالہ تاریخ کا سنہری دور 1970ء سے 2000ء کے درمیان کا زمانہ ہے۔ اس عرصے میں ہر شعبے کی طرح اداکاری کے میدان میں بھی بہت سے لوگ ابھر کر سامنے آئے اور مقبولیت کی مختلف منازل پر فائز اور مقیم ہوئے لیکن جن چند لوگوں کو ایک طرح سے رول ماڈل کا درجہ دیا گیا ان میں فاروق ضمیر صرف شامل ہی نہیں بلکہ ان کا شمار اس صف کے سربرآوردہ اور اہم ترین ناموں میں ہوتا ہے۔ گلیمر کی اس چک دمک اور شور شرابے والی دنیا میں وہ اپنے دھیمے لہجے اور پروقار شخصیت کے ساتھ خواص کے ساتھ ساتھ عوام کے حلقے میں بھی ہمیشہ مقبول و محترم رہے۔
وہ ٹی وی ڈرامے کی اس عظیم عمارت کے بنیادی معماروں میں سے تھے جو فی الوقت فن کاروں کے ہاتھوں سے نکل کر تاجروں کے قبضے میں چلی گئی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے فاروق ضمیر جیسے گنی، تجربہ کار اور بے مثال لوگوں کے بجائے ڈرامہ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جن کے نزدیک یہ ایک فن اور تہذیبی اظہار اور درس گاہ کے بجائے ایک گھٹیا درجے کا ڈپارٹمنٹل اسٹور ہے جس میں اخلاقیات کی جگہ بھی معاشیات کو دیدی گئی ہے۔
فاروق ضمیر غوری نے اپنی ساری زندگی ایک سچے فن کار کی طرح اپنی بے مثال صلاحیت اور غیر معمولی شخصیت کے بل پر عزت کے ساتھ گزاری اور جب بھی پاکستان میں پرفارمنگ آرٹس کی تاریخ پر بات ہوگی تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان کے نام کو نظر انداز کرسکے اور یوں ایک اعتبار سے مجھ سمیت وہ سب لوگ خوش قسمت ہیں جنھیں ایک ایسے بڑے فن کار کے ساتھ کام کرنے اور ملاقات کا موقع ملا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔