انگلیاں فگار اپنی
اور پھر ایک اور سانحہ ہو جاتا ہے، لعل شہباز قلندر کا مزار لہولہان ہو جاتا ہے
لاہور:
غالبؔ نے کہا تھا:
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
یہ مصرعہ جیسے موجودہ حالت کا عکاس ہے۔ لکھتے لکھتے قلم کاروں کی انگلیاں زخمی ہوگئیں۔ جیسے قلم بھی خون کے آنسو رو رہا ہو۔ دہشتگردی کا سیلاب جیسے بند توڑ کے شہروں میں داخل ہوگیا ہو۔ وہی پرانے بیانات اور لفاظیاں جو پہلے سے کسی بھی سانحے پر دینے کے لیے تیار رکھے رہتے ہیں۔
''شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔''
''بزدلانہ حملوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔''
''دہشتگردوں کا ملک بھر میں پیچھا کر کے نشانہ بنائیں گے۔''
اور پھر ایک اور سانحہ ہو جاتا ہے، لعل شہباز قلندر کا مزار لہولہان ہو جاتا ہے۔ پھر ویسے ہی بیانات کی بھرمار۔ بس لفظوں کے ہیر پھیرسے وہی پرانی کہانی کہ ''بزدلانہ کارروائیوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے، دہشتگردوں کی کمر توڑ دیں گے'' وغیرہ وغیرہ۔ اب بھی خطرہ ہے۔ نہ جانے کب اور کہاں کس کو نشانہ بنا دیا جائے۔ ایک عام آدمی جس کی تعلیم صرف اپنا نام لکھنے کی حد تک ہے، وہ بھی سوچتا ہے کہ اتنے اتنے بڑے دعوے کرنے والے محض عوام کو بے وقوف بنانے والی بات ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار ہماری اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ یہ اونچی اونچی اور سنگلاخ دیواروں کے اندر تخت شاہی پہ جلوہ افروز ہونے والوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کہاں دھماکا ہوا اور کہاں خودکش بمبار نے خود کو اڑا کر ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اونچی مسندوں پہ بیٹھنے والوں کی سیکیورٹی کا یہ حال کہ میلوں دور سے کوئی اجنبی ان کی سرحد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم اور صدر محترم جہاں جہاں قدم رنجہ فرماتے ہیں وہاں چاروں طرف سادہ لباس میں سیکیورٹی والے انھیں گھیرے میں لیے ہوتے ہیں۔
محلات شاہی کے اسرار بہت انوکھے ہیں، کوئی موبائل لے کر بھی داخل نہیں ہو سکتا کہ حضور والا کی جان بہت قیمتی ہے۔ کتنے دھماکے، کتنے کرپشن کے الزامات، کتنے سانحے۔ لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ سرکلر اور خبریں جاری کر دی جاتی ہیں، بہت ہوا تو مرنے والوں کے لواحقین کو لاشوں کا معاوضہ دے کر نمبر بڑھا لیے اور بس اللہ اللہ خیر صلا۔ یہاں استعفیٰ دینے کا کوئی رواج نہیں، نہ ہی کسی بھی کرپشن کیس میں کسی کو سزا دینے کا تصور۔ کیونکہ یہ پاکستان ہے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ میں بھی کھاؤں تو بھی کھا اور عیش کر احتجاج نہ کر۔
ادھر بھارت میں جے للیتا کی جانشیں ششی کلا کو سپریم کورٹ نے آمدنی سے زیادہ جائیداد رکھنے کے معاملے میں مجرم قرار دے دیا ہے اور تامل ناڈوکی نامزد وزیر اعلیٰ ششی کلا کو چار سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ چار سال کی قید بھگتنے کے بعد بھی وہ آئندہ دس سال تک کوئی عوامی عہدہ بھی حاصل نہیں کر سکیں گی۔ صرف یہی نہیں ان پر 10 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ جے للیتا پر بھی الزامات تھے لیکن فرشتہ اجل نے انھیں اپنی آغوش میں لے کر سزا سے بچا لیا ہے۔ ششی کلا کے علاوہ ابھی تین لوگ اور ہیں جو مقدمے کی زد میں ہیں۔
ادھر ہم ہیں کہ خواہ کتنے ہی حادثے ہو جائیں، کوئی وزیر خود کو ذمے دار نہیں سمجھتا۔ وزیر داخلہ کو ہی دیکھ لیجیے، کیا گزشتہ دنوں تواتر سے ہونے والے دہشتگردی کے سانحات پر انھیں مستعفی نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ یہاں وزیر کا مطلب ہوتا ہے مصاحبین، جو کہ ہمہ وقت حضور والا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں ریل کے حادثوں کے بعد وزیر ریلوے کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ''میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں کہ استعفیٰ دوں؟'' وزیرداخلہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''خودکش بمبار میں نے تو نہیں بھیجے۔''
سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کیوں بڑھی اور اس پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکتا؟ تو سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب تک آپ دوسروں کے لیے اپنی سرزمین پیش کرتے رہیں گے، ان کے احکامات مانتے رہیں گے، یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ غربت سے تنگ آئے ہوئے نوجوان ہتھیار تھامنے میں دیر نہیں کرتے، وہ ایک طریقے سے اپنی بیروزگاری اور غربت کا انتقام لیتے ہیں۔
محلات شاہی کے آہنی دروازوں تک ان کی پہنچ نہیں اس لیے روٹی کے حصول کے لیے وہ ہتھیار اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔ معاشرے میں بے حسی، رقابت اور دشمنیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ حق ہمسائیگی بھی لوگوں کو یاد نہیں۔ محض زبانی کلامی دعوؤں سے دہشتگردی ختم ہونے والی نہیں اور اب یہ ختم ہوتی نظر بھی نہیں آتی کیونکہ سہولت کار ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ گھروں میں چوریاں اور بینک ڈکیتیاں مخبری پر ہی ہوتی ہیں۔ ذرا ماضی میں ہونے والے سانحات خصوصاً مہران بیس والا واقعہ یاد کیجیے۔ کتنی آسانی سے دہشت گرد اندر داخل ہوئے اور اپنا ہدف حاصل کر کے چلے گئے۔
کراچی ایئرپورٹ اور لاہور میں اہم عمارتوں میں باآسانی داخل ہونے والے کون تھے؟ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی حکومت مخلص نہیں رہی کیونکہ بہت سے دہشتگردوں کی ڈوریاں اہم عہدوں پہ فائز وزرا اور دیگر طاقتور لوگوں سے ملتی ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ حالیہ واقعات ہوں یا ماضی کے۔ ایجنسیاں چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ ہم پاکستانی آئے دن ماتم مناتے رہیں گے، حکومت لاشوں کا معاوضہ دیتی رہے گی اور مصاحبین ٹی وی ٹاک شوز میں قصیدے پڑھتے رہیں گے۔
گزشتہ کالم میں بشریٰ نامی خاتون کا خط شایع کیا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی تھوڑی بہت مدد ہوئی ہے۔ وہ ان تمام مخیر حضرات کی ممنون ہیں، لیکن افسوس یہ رہا کہ ان کا اکاؤنٹ نمبر غلط شایع ہو گیا جس کی وجہ سے کراچی سے باہر اور پاکستان سے باہر کے لوگ مدد نہ کر سکے۔ ان کا صحیح اکاؤنٹ نمبر یہ ہے۔
HBL اکاؤنٹ ہولڈر۔ وقار احمد
اکاؤنٹ نمبر: 19107901004803
کورنگی روڈ، فیز 2، ڈی ایچ اے، کراچی
IBAN # PK79 (حبیب بینک لمیٹڈ)
غالبؔ نے کہا تھا:
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
یہ مصرعہ جیسے موجودہ حالت کا عکاس ہے۔ لکھتے لکھتے قلم کاروں کی انگلیاں زخمی ہوگئیں۔ جیسے قلم بھی خون کے آنسو رو رہا ہو۔ دہشتگردی کا سیلاب جیسے بند توڑ کے شہروں میں داخل ہوگیا ہو۔ وہی پرانے بیانات اور لفاظیاں جو پہلے سے کسی بھی سانحے پر دینے کے لیے تیار رکھے رہتے ہیں۔
''شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔''
''بزدلانہ حملوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔''
''دہشتگردوں کا ملک بھر میں پیچھا کر کے نشانہ بنائیں گے۔''
اور پھر ایک اور سانحہ ہو جاتا ہے، لعل شہباز قلندر کا مزار لہولہان ہو جاتا ہے۔ پھر ویسے ہی بیانات کی بھرمار۔ بس لفظوں کے ہیر پھیرسے وہی پرانی کہانی کہ ''بزدلانہ کارروائیوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے، دہشتگردوں کی کمر توڑ دیں گے'' وغیرہ وغیرہ۔ اب بھی خطرہ ہے۔ نہ جانے کب اور کہاں کس کو نشانہ بنا دیا جائے۔ ایک عام آدمی جس کی تعلیم صرف اپنا نام لکھنے کی حد تک ہے، وہ بھی سوچتا ہے کہ اتنے اتنے بڑے دعوے کرنے والے محض عوام کو بے وقوف بنانے والی بات ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار ہماری اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ یہ اونچی اونچی اور سنگلاخ دیواروں کے اندر تخت شاہی پہ جلوہ افروز ہونے والوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کہاں دھماکا ہوا اور کہاں خودکش بمبار نے خود کو اڑا کر ہزاروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اونچی مسندوں پہ بیٹھنے والوں کی سیکیورٹی کا یہ حال کہ میلوں دور سے کوئی اجنبی ان کی سرحد میں داخل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم اور صدر محترم جہاں جہاں قدم رنجہ فرماتے ہیں وہاں چاروں طرف سادہ لباس میں سیکیورٹی والے انھیں گھیرے میں لیے ہوتے ہیں۔
محلات شاہی کے اسرار بہت انوکھے ہیں، کوئی موبائل لے کر بھی داخل نہیں ہو سکتا کہ حضور والا کی جان بہت قیمتی ہے۔ کتنے دھماکے، کتنے کرپشن کے الزامات، کتنے سانحے۔ لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ سرکلر اور خبریں جاری کر دی جاتی ہیں، بہت ہوا تو مرنے والوں کے لواحقین کو لاشوں کا معاوضہ دے کر نمبر بڑھا لیے اور بس اللہ اللہ خیر صلا۔ یہاں استعفیٰ دینے کا کوئی رواج نہیں، نہ ہی کسی بھی کرپشن کیس میں کسی کو سزا دینے کا تصور۔ کیونکہ یہ پاکستان ہے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ میں بھی کھاؤں تو بھی کھا اور عیش کر احتجاج نہ کر۔
ادھر بھارت میں جے للیتا کی جانشیں ششی کلا کو سپریم کورٹ نے آمدنی سے زیادہ جائیداد رکھنے کے معاملے میں مجرم قرار دے دیا ہے اور تامل ناڈوکی نامزد وزیر اعلیٰ ششی کلا کو چار سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ چار سال کی قید بھگتنے کے بعد بھی وہ آئندہ دس سال تک کوئی عوامی عہدہ بھی حاصل نہیں کر سکیں گی۔ صرف یہی نہیں ان پر 10 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ جے للیتا پر بھی الزامات تھے لیکن فرشتہ اجل نے انھیں اپنی آغوش میں لے کر سزا سے بچا لیا ہے۔ ششی کلا کے علاوہ ابھی تین لوگ اور ہیں جو مقدمے کی زد میں ہیں۔
ادھر ہم ہیں کہ خواہ کتنے ہی حادثے ہو جائیں، کوئی وزیر خود کو ذمے دار نہیں سمجھتا۔ وزیر داخلہ کو ہی دیکھ لیجیے، کیا گزشتہ دنوں تواتر سے ہونے والے دہشتگردی کے سانحات پر انھیں مستعفی نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟ یہاں وزیر کا مطلب ہوتا ہے مصاحبین، جو کہ ہمہ وقت حضور والا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں۔ یہاں ریل کے حادثوں کے بعد وزیر ریلوے کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ''میں کوئی انجن ڈرائیور ہوں کہ استعفیٰ دوں؟'' وزیرداخلہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ''خودکش بمبار میں نے تو نہیں بھیجے۔''
سوال یہ ہے کہ دہشتگردی کیوں بڑھی اور اس پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکتا؟ تو سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب تک آپ دوسروں کے لیے اپنی سرزمین پیش کرتے رہیں گے، ان کے احکامات مانتے رہیں گے، یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ غربت سے تنگ آئے ہوئے نوجوان ہتھیار تھامنے میں دیر نہیں کرتے، وہ ایک طریقے سے اپنی بیروزگاری اور غربت کا انتقام لیتے ہیں۔
محلات شاہی کے آہنی دروازوں تک ان کی پہنچ نہیں اس لیے روٹی کے حصول کے لیے وہ ہتھیار اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔ معاشرے میں بے حسی، رقابت اور دشمنیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ حق ہمسائیگی بھی لوگوں کو یاد نہیں۔ محض زبانی کلامی دعوؤں سے دہشتگردی ختم ہونے والی نہیں اور اب یہ ختم ہوتی نظر بھی نہیں آتی کیونکہ سہولت کار ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ گھروں میں چوریاں اور بینک ڈکیتیاں مخبری پر ہی ہوتی ہیں۔ ذرا ماضی میں ہونے والے سانحات خصوصاً مہران بیس والا واقعہ یاد کیجیے۔ کتنی آسانی سے دہشت گرد اندر داخل ہوئے اور اپنا ہدف حاصل کر کے چلے گئے۔
کراچی ایئرپورٹ اور لاہور میں اہم عمارتوں میں باآسانی داخل ہونے والے کون تھے؟ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی حکومت مخلص نہیں رہی کیونکہ بہت سے دہشتگردوں کی ڈوریاں اہم عہدوں پہ فائز وزرا اور دیگر طاقتور لوگوں سے ملتی ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ حالیہ واقعات ہوں یا ماضی کے۔ ایجنسیاں چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ ہم پاکستانی آئے دن ماتم مناتے رہیں گے، حکومت لاشوں کا معاوضہ دیتی رہے گی اور مصاحبین ٹی وی ٹاک شوز میں قصیدے پڑھتے رہیں گے۔
گزشتہ کالم میں بشریٰ نامی خاتون کا خط شایع کیا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی تھوڑی بہت مدد ہوئی ہے۔ وہ ان تمام مخیر حضرات کی ممنون ہیں، لیکن افسوس یہ رہا کہ ان کا اکاؤنٹ نمبر غلط شایع ہو گیا جس کی وجہ سے کراچی سے باہر اور پاکستان سے باہر کے لوگ مدد نہ کر سکے۔ ان کا صحیح اکاؤنٹ نمبر یہ ہے۔
HBL اکاؤنٹ ہولڈر۔ وقار احمد
اکاؤنٹ نمبر: 19107901004803
کورنگی روڈ، فیز 2، ڈی ایچ اے، کراچی
IBAN # PK79 (حبیب بینک لمیٹڈ)