ایک عظیم کتاب ’’رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘
کتاب رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم ادارہ بیت السلام سے شایع ہوئی ہے اور 1362 صفحات پر مشتمل ہے
ISLAMABAD:
پروفیسر خیال آفاقی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ناول، افسانے، مضامین، تنقید و تبصرے اور تالیفات ان کی شناخت ہیں اور علم و ادب کے اعتبار سے ان کا نام معتبر قلمکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔
کتاب رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم ادارہ بیت السلام سے شایع ہوئی ہے اور 1362 صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ تاریخ اسلام کے ان واقعات کو قلمبند کیا ہے جن کا تعلق اس روئے زمین پر تشریف لانے والے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ہے۔ قلمکار نے بے حد دلنشین انداز میں حالات وواقعات کی منظرکشی کی ہے، تحریر میں بلا کی روانی اور دلکشی پنہاں ہے، استادعبدالرحمن اورنوجوان حیان کے مکالموں کی شکل میں اسلام کی تاریخ روشنی کے قمقموں میں جھلملاتی نظر آتی ہے، منظر کشی اور صداقت کا اجالا ابتدا اور اختتام میں ناول ہی سے مماثلت رکھتا ہے۔ ہم اسے اسلامی ناول بھی کہہ سکتے ہیں۔
کتاب کی ابتدائی سطور منظرنامے کی شکل میں نمایاں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ دور تک پھیلا ہوا دشت جو ہم دیکھ رہے ہیں، صحرائے عرب کہلاتا ہے، اس کے مغرب کی طرف جائیے تو بحرقلزم موجیں مارتا نظر آئے گا، مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان بہتے ہیں، جنوب میں بحر ہند رواں دواں ہے اور اس کے شمال میں، جس کی جانب اس وقت ہمارا رخ ہے، وسیع و عریض، لق و دق صحرا پھیلا ہوا ہے، اسی دشتِ بے پناہ نے خطۂ عرب کو جزیرہ نما بنادیا ہے، یہی خشکی کا علاقہ صحرائے شام کہلاتا ہے۔ اسی کے راستے اہل حجاز، خصوصاً قبیلہ قریش کے لوگ اپنے تجارتی قافلے لیے سال کے اکثر مہینے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے''۔
اسی صفحے پر ان چالیس پچاس افراد کا بھی ذکر ملتا ہے جو حج کی غرض سے شام کے علاقے موتہ سے آئے ہیں اور کئی دن اور کئی راتوں سے سفر میں ہیں، منزل پر پہنچ کر حج کے رکن ادا کرتے ہیں۔ حطیم میں نفل ادا کرتے اور ملتزم پر غلاف کعبہ سے لپٹ کر خوب دعائیں مانگتے ہیں، پھر سعی کی غرض سے صفا و مرویٰ کی طرف جاتے ہیں اور بی بی حاجرہؓ کی سنت میں دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات بار دوڑتے ہیں، دو نفل پڑھتے ہیں۔ اسی دوران جب وہ سب صحن حرم میں آکر بیٹھ جاتے ہیں، اسی دوران امیر قافلہ متفکر ہوکرکہتے ہیں کہ ﷲ رحم کرے شیخ جبران پرکہ دوران سفر وہ بہت بیمار تھے اور اگر خدانخواستہ شیخ جبران داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں تو حیان باپ کے انتقال کے بعد بھی عشق رسول صلی ﷲ علیہ وسلم میں اپنا سفر ضروری جاری رکھے گا۔ پھر وہی ہوا، نوجوان حیان نے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور ایک نخلستان میں پہنچ گیا۔
نخلستان کے مالک بوڑھے ابو خطیب نے اس کا خوش دلی سے استقبال کیا اور نوجوان کے استفسار پر بتایاکہ مدینہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے اور اس جگہ کو وادیٔ قُریٰ کہتے ہیں، یہ خیبر کا علاقہ ہے۔ حیان بے حد خوش تھا کہ وہ مدینے کے قریب پہنچ چکا ہے لہٰذا اس نے مزید سفر جاری رکھنے کا قصد کیا، لیکن بوڑھے اخطب نے رات گزارنے کے لیے اصرارکیا اور یہ خوشخبری بھی سنائی کہ صبح کے آثار نمودار ہوتے ہی ہم میاں بیوی بھی تمہارے ہمراہ چلیںگے۔ لیکن آپ تو؟ حیان کی حیرانی کی وجہ توریت تھی، جسے اس نے ابواخطب کے ہاتھ میں اور پھر چومتے ہوئے دیکھا تھا۔
بوڑھے ابواخطب نے اپنے دل میں برسوں چھپائے راز کو افشا کرتے ہوئے کہاکہ میں اور میری بیوی ایک نوجوان کا انتظار سالہا سال سے کررہے تھے اور تمام نشانیاں یہ بتارہی ہیں کہ وہ نوجوان تم ہو۔ میری بیوی کا نام ہند ہے، اس نے برسوں پہلے اپنی افشانی راہبہ فرسیا سے سنا تھا کہ صحرائے شام کی طرف سے ایک نوعمر سانڈنی سوار ادھر آکر اترے گا، وہ اور اس کی سواری چشمے کا پانی پی کر سیراب ہوںگے اور پھر وہ لبیک کہتا ہوا حجاز کی طرف کوچ کرجائے گا۔
اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ہمارے لیے اس بات کا بھی ثبوت ہوگا کہ مکہ سے ہجرت کرنیوالے واقعی اﷲ کے سچے اور آخری رسول ہیں، جن کو ہماری قوم کے ان لوگوں نے مسترد کرنے کی کوشش کی تھی جن کے پاس علم تھا اور اﷲ کی کتاب توریت میں اس کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اور مدت سے اپنی قوم کو خوشخبری سناتے آئے تھے، بلکہ انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ دوسری آسمان کتابوں میں بھی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارتیں موجود ہیں لیکن وہ پھر بھی ایمان سے محروم اس بنا پر رہے کہ آنیوالا رسول بنی اسرائیل سے نہیں، بنو قریش سے ہے اور ان کا حضرت ابراہیمؑ کے عظیم فرزند حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے تعلق ہے۔
''افسوس کیسا غلط فیصلہ کیا انھوں نے'' ، اخطب نے نہ کہ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس کی بیوی دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں، بلکہ دونوں میاں بیوی نے نوجوان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ یقیناً ان کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوگیا جن پر اﷲ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ان کے سینے کشادہ اور آنکھیں کذب و حق کی پہچان رکھنے کے قابل ہوجاتی ہیں۔
جس وقت نو مسلم معمر جوڑا نو عمر امام کی تقلید میں فرض نماز کی ادائیگی کرتے ہیں، ان لمحات کو مصنف نے اپنے قلم میں اس طرح جذب کیا کہ سارا منظر صفحہ قرطاس پر پینٹ ہوگیا۔ حیان نے پہلی رکعت میں سورۂ قریش اور دوسری میں سورۂ اخلاص کی تلاوت کی، بوڑھے مقتدی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، رکوع کے بعد اپنی پیشانیاں سجدے میں رکھیں تو پہلی بار انھیں محسوس ہورہاہے کہ وہ اب تک اپنے خالق و مالک سے کتنی دور رہے، اب ایکا ایکی اتنے قریب آگئے ہیں کہ اس کی قربت کا نور آنکھوں اور دل میں سمایا جارہا ہے۔قاری کا دل بھی ایمان افروز ساعتوں میں شامل ہوجاتا ہے اور آنکھیں اشکوں سے بھیگ جاتی ہیں۔
قرآن پاک میں درج ہے کہ تھوڑے سے فائدے کے لیے علما آیتوں کو فروخت کردیتے ہیں، اس کی وضاحت بھی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے کہ ''مدینے کے باشندوں میں قوم یہود سب سے زیادہ خوش حال تھی اور اس کے علما مذہب فروش تھے جو اﷲ کی کتاب توریت میں تحریف اور رد و بدل کرنے کے سلسلے میں بھی شہرت رکھتے تھے، دنیاوی لالچ اور روپے پیسے کی خاطر آیات الٰہی کو بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام رہا ہے''۔کتاب کی ابتدا قافلہ حجاج سے شروع ہوئی تھی، اسی حوالے سے مقدس جگہوں کا احوال بھی تفصیلی انداز میں کتاب مذکورہ میں نظر آتا ہے۔
غار حرا جہاں اﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر پہلی وحی اقرأ باسم ربک الذی نازک ہوئی جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شب و روز عبادت کی۔ اسی طرح غار ثور میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقعے پرکئی دن رات گزارے، کفار مکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے لیکن نامراد واپس لوٹے، اس طرح ان کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔حیان قافلے سے جلد ہی مل گیا، اس کے ساتھ اخطب اور بنت کنانہ بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے آئے تھے اور حیان کے ساتھ مستقل شہر نبیؐ میں رہنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ حیان یہ سن کر بے حد خوش ہوا تھا۔
چند ہی روز بعد حیان کو مسجد نبویؐ کے اس گوشے میں حاضری دینے کا شرف حاصل ہوا جو صفہ کہلاتا ہے، اسی جگہ حیان کی ملاقات استاد محترم عبدالرحمن سے ہوتی ہے اور اس پہلی ملاقات کی مدت آخری صفحات یعنی کتاب کے اختتام تک قائم رہتی ہے۔
حیان کے سوالات کے جوابات میں استاد محترم اﷲ کے حبیب احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی اور پھر سفرِ آخرت، صحابہ کرام کی بے پناہ الفت کے حوالے سے ناول نما تاریخی قصہ آگے بڑھتا جاتا ہے، کتاب کا ہر صفحہ رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے تقریباً ہر باب کے حوالے سے معلومات کے در واکرتا ہے۔ ''رسول اعظم'' کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی شجاعت، بلند ہمتی، عدل و انصاف،عفو و درگزر، صبروشکر، غرض زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے، یہ ایک بہترین اور عظیم کتاب ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ناول، افسانے، مضامین، تنقید و تبصرے اور تالیفات ان کی شناخت ہیں اور علم و ادب کے اعتبار سے ان کا نام معتبر قلمکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔
کتاب رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم ادارہ بیت السلام سے شایع ہوئی ہے اور 1362 صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف نے نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ تاریخ اسلام کے ان واقعات کو قلمبند کیا ہے جن کا تعلق اس روئے زمین پر تشریف لانے والے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ہے۔ قلمکار نے بے حد دلنشین انداز میں حالات وواقعات کی منظرکشی کی ہے، تحریر میں بلا کی روانی اور دلکشی پنہاں ہے، استادعبدالرحمن اورنوجوان حیان کے مکالموں کی شکل میں اسلام کی تاریخ روشنی کے قمقموں میں جھلملاتی نظر آتی ہے، منظر کشی اور صداقت کا اجالا ابتدا اور اختتام میں ناول ہی سے مماثلت رکھتا ہے۔ ہم اسے اسلامی ناول بھی کہہ سکتے ہیں۔
کتاب کی ابتدائی سطور منظرنامے کی شکل میں نمایاں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ دور تک پھیلا ہوا دشت جو ہم دیکھ رہے ہیں، صحرائے عرب کہلاتا ہے، اس کے مغرب کی طرف جائیے تو بحرقلزم موجیں مارتا نظر آئے گا، مشرق میں خلیج فارس اور بحر عمان بہتے ہیں، جنوب میں بحر ہند رواں دواں ہے اور اس کے شمال میں، جس کی جانب اس وقت ہمارا رخ ہے، وسیع و عریض، لق و دق صحرا پھیلا ہوا ہے، اسی دشتِ بے پناہ نے خطۂ عرب کو جزیرہ نما بنادیا ہے، یہی خشکی کا علاقہ صحرائے شام کہلاتا ہے۔ اسی کے راستے اہل حجاز، خصوصاً قبیلہ قریش کے لوگ اپنے تجارتی قافلے لیے سال کے اکثر مہینے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے''۔
اسی صفحے پر ان چالیس پچاس افراد کا بھی ذکر ملتا ہے جو حج کی غرض سے شام کے علاقے موتہ سے آئے ہیں اور کئی دن اور کئی راتوں سے سفر میں ہیں، منزل پر پہنچ کر حج کے رکن ادا کرتے ہیں۔ حطیم میں نفل ادا کرتے اور ملتزم پر غلاف کعبہ سے لپٹ کر خوب دعائیں مانگتے ہیں، پھر سعی کی غرض سے صفا و مرویٰ کی طرف جاتے ہیں اور بی بی حاجرہؓ کی سنت میں دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات بار دوڑتے ہیں، دو نفل پڑھتے ہیں۔ اسی دوران جب وہ سب صحن حرم میں آکر بیٹھ جاتے ہیں، اسی دوران امیر قافلہ متفکر ہوکرکہتے ہیں کہ ﷲ رحم کرے شیخ جبران پرکہ دوران سفر وہ بہت بیمار تھے اور اگر خدانخواستہ شیخ جبران داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں تو حیان باپ کے انتقال کے بعد بھی عشق رسول صلی ﷲ علیہ وسلم میں اپنا سفر ضروری جاری رکھے گا۔ پھر وہی ہوا، نوجوان حیان نے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور ایک نخلستان میں پہنچ گیا۔
نخلستان کے مالک بوڑھے ابو خطیب نے اس کا خوش دلی سے استقبال کیا اور نوجوان کے استفسار پر بتایاکہ مدینہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے اور اس جگہ کو وادیٔ قُریٰ کہتے ہیں، یہ خیبر کا علاقہ ہے۔ حیان بے حد خوش تھا کہ وہ مدینے کے قریب پہنچ چکا ہے لہٰذا اس نے مزید سفر جاری رکھنے کا قصد کیا، لیکن بوڑھے اخطب نے رات گزارنے کے لیے اصرارکیا اور یہ خوشخبری بھی سنائی کہ صبح کے آثار نمودار ہوتے ہی ہم میاں بیوی بھی تمہارے ہمراہ چلیںگے۔ لیکن آپ تو؟ حیان کی حیرانی کی وجہ توریت تھی، جسے اس نے ابواخطب کے ہاتھ میں اور پھر چومتے ہوئے دیکھا تھا۔
بوڑھے ابواخطب نے اپنے دل میں برسوں چھپائے راز کو افشا کرتے ہوئے کہاکہ میں اور میری بیوی ایک نوجوان کا انتظار سالہا سال سے کررہے تھے اور تمام نشانیاں یہ بتارہی ہیں کہ وہ نوجوان تم ہو۔ میری بیوی کا نام ہند ہے، اس نے برسوں پہلے اپنی افشانی راہبہ فرسیا سے سنا تھا کہ صحرائے شام کی طرف سے ایک نوعمر سانڈنی سوار ادھر آکر اترے گا، وہ اور اس کی سواری چشمے کا پانی پی کر سیراب ہوںگے اور پھر وہ لبیک کہتا ہوا حجاز کی طرف کوچ کرجائے گا۔
اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ہمارے لیے اس بات کا بھی ثبوت ہوگا کہ مکہ سے ہجرت کرنیوالے واقعی اﷲ کے سچے اور آخری رسول ہیں، جن کو ہماری قوم کے ان لوگوں نے مسترد کرنے کی کوشش کی تھی جن کے پاس علم تھا اور اﷲ کی کتاب توریت میں اس کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اور مدت سے اپنی قوم کو خوشخبری سناتے آئے تھے، بلکہ انھیں اس بات کا بھی علم تھا کہ دوسری آسمان کتابوں میں بھی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارتیں موجود ہیں لیکن وہ پھر بھی ایمان سے محروم اس بنا پر رہے کہ آنیوالا رسول بنی اسرائیل سے نہیں، بنو قریش سے ہے اور ان کا حضرت ابراہیمؑ کے عظیم فرزند حضرت اسماعیلؑ کی اولاد سے تعلق ہے۔
''افسوس کیسا غلط فیصلہ کیا انھوں نے'' ، اخطب نے نہ کہ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اس کی بیوی دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں، بلکہ دونوں میاں بیوی نے نوجوان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ یقیناً ان کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوگیا جن پر اﷲ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ان کے سینے کشادہ اور آنکھیں کذب و حق کی پہچان رکھنے کے قابل ہوجاتی ہیں۔
جس وقت نو مسلم معمر جوڑا نو عمر امام کی تقلید میں فرض نماز کی ادائیگی کرتے ہیں، ان لمحات کو مصنف نے اپنے قلم میں اس طرح جذب کیا کہ سارا منظر صفحہ قرطاس پر پینٹ ہوگیا۔ حیان نے پہلی رکعت میں سورۂ قریش اور دوسری میں سورۂ اخلاص کی تلاوت کی، بوڑھے مقتدی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، رکوع کے بعد اپنی پیشانیاں سجدے میں رکھیں تو پہلی بار انھیں محسوس ہورہاہے کہ وہ اب تک اپنے خالق و مالک سے کتنی دور رہے، اب ایکا ایکی اتنے قریب آگئے ہیں کہ اس کی قربت کا نور آنکھوں اور دل میں سمایا جارہا ہے۔قاری کا دل بھی ایمان افروز ساعتوں میں شامل ہوجاتا ہے اور آنکھیں اشکوں سے بھیگ جاتی ہیں۔
قرآن پاک میں درج ہے کہ تھوڑے سے فائدے کے لیے علما آیتوں کو فروخت کردیتے ہیں، اس کی وضاحت بھی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے کہ ''مدینے کے باشندوں میں قوم یہود سب سے زیادہ خوش حال تھی اور اس کے علما مذہب فروش تھے جو اﷲ کی کتاب توریت میں تحریف اور رد و بدل کرنے کے سلسلے میں بھی شہرت رکھتے تھے، دنیاوی لالچ اور روپے پیسے کی خاطر آیات الٰہی کو بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام رہا ہے''۔کتاب کی ابتدا قافلہ حجاج سے شروع ہوئی تھی، اسی حوالے سے مقدس جگہوں کا احوال بھی تفصیلی انداز میں کتاب مذکورہ میں نظر آتا ہے۔
غار حرا جہاں اﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر پہلی وحی اقرأ باسم ربک الذی نازک ہوئی جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شب و روز عبادت کی۔ اسی طرح غار ثور میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقعے پرکئی دن رات گزارے، کفار مکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے لیکن نامراد واپس لوٹے، اس طرح ان کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔حیان قافلے سے جلد ہی مل گیا، اس کے ساتھ اخطب اور بنت کنانہ بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے آئے تھے اور حیان کے ساتھ مستقل شہر نبیؐ میں رہنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ حیان یہ سن کر بے حد خوش ہوا تھا۔
چند ہی روز بعد حیان کو مسجد نبویؐ کے اس گوشے میں حاضری دینے کا شرف حاصل ہوا جو صفہ کہلاتا ہے، اسی جگہ حیان کی ملاقات استاد محترم عبدالرحمن سے ہوتی ہے اور اس پہلی ملاقات کی مدت آخری صفحات یعنی کتاب کے اختتام تک قائم رہتی ہے۔
حیان کے سوالات کے جوابات میں استاد محترم اﷲ کے حبیب احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی اور پھر سفرِ آخرت، صحابہ کرام کی بے پناہ الفت کے حوالے سے ناول نما تاریخی قصہ آگے بڑھتا جاتا ہے، کتاب کا ہر صفحہ رسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے تقریباً ہر باب کے حوالے سے معلومات کے در واکرتا ہے۔ ''رسول اعظم'' کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی شجاعت، بلند ہمتی، عدل و انصاف،عفو و درگزر، صبروشکر، غرض زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے، یہ ایک بہترین اور عظیم کتاب ہے۔