پی ایس ایل اونچی دکان پھیکا پکوان

نیا ٹیلنٹ تلاش کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔


Abbas Raza February 26, 2017
پاکستانی بیٹسمینوں میں اسد شفیق، عمراکمل، سرفراز احمد،مصباح الحق، شاہد آفریدی ایک آدھ بار ثابت قدمی کا مظاہرہ کرپائے۔ فوٹو؛ فائل

پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی تہلکہ خیزی کے ساتھ ہوا، پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ نے ''کمال مستعدی'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں شرجیل خان، خالد لطیف کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا دعویٰ کیا، دونوں کو معطل کرتے ہوئے وطن واپس روانہ کر دیا گیا۔

چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور پی ایس ایل کی گورننگ کونسل کے سربراہ نجم سیٹھی نے ناقابل تردید ثبوت ہونے کا ذکر باربار کیا لیکن جب کارروائی کا موقع آیا تو کچھوے کی چال چلتے ہوئے چارج شیٹ جاری کرنے میں ہی کئی روز صرف کردیئے گئے، شرجیل خان اور خالد لطیف نیشنل کرکٹ اکیڈمی اور قذافی سٹیڈیم کے درمیان فٹبال بنے رہنے کے بعد بالآخر گھروں کو روانہ کردیئے گئے، دوسری جانب بکی کی جانب سے رابطہ کئے جانے کی اطلاع اینٹی کرپشن یونٹ کو نہ دیئے جانے کے ملزم محمد عرفان کو اسلام آباد یونائیٹڈکی جانب سے میچز کھیلنے کی اجازت دے دی گئی۔

قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ امور کے اجلاس میں شہریار خان نے کہا کہ شرجیل خان نے وہی کیا جس کے معلومات اینٹی کرپشن یونٹ حاصل کر چکا تھا، خالد لطیف بھی وہی کرتے جس پر انہوں نے بکی کے ساتھ ملاقات میں رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ان کو میچ کھیلنے کا موقع نہ ملا، چیئرمین پی سی بی نے اس سکینڈل میں ناصر جمشید کے ملوث ہونے اور بکی یوسف کے ساتھ ملوانے کی پلاننگ کا قصہ بھی بیان کیا، انہوں نے فکسرز کو نشان عبرت بنانے کا وعدہ کیا لیکن اب تک ہونے والی پیشرفت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ثبوت ناقابل تردید ہیں تو ان کو دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثابت کیا جاسکتا ہے،اگر ناکافی ہیں تو کرکٹرز پر ہاتھ ڈالا کیوں گیا تھا؟کھلاڑیوں کوجواب داخل کرنے کے لیے 14روز کی مہلت دی گئی،اگر وہ مجرم ہیں تو ثبوت دکھاکر سزا کیوں نہیں دی گئی؟ صفائی کا موقع تو تب دیا جاتا اگر شک کی گنجائش ہوتی،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اینٹی کرپشن یونٹ کا ہوم ورک کمزور تھا،فکسنگ کیخلاف پالیسی نرم پڑ گئی یا پھر پی ایس ایل کے دوران مزید کسی ہنگامہ آرائی کو ٹالنے کے لیے تاخیری حربہ اختیار کیا گیا۔

دوسرے ایڈیشن میں دوسرا بڑا مسئلہ ناقص امپائرنگ کا رہا، علیم ڈار جیسے کہنہ مشق امپائر نے بھی کئی غلطیاں دہرائیں، بیٹ کا کنارہ چھوکر گزرنے والی کئی گیندوں پر ایل بی ڈبلیو دے دیئے گئے، دوسری جانب پیڈز پر لگنے والی گیندیں سٹمپس سے بہت دور ہونے کے باوجود بیٹسمینوں کو رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا،اس کی ایک مثال جمعہ کو دیکھی گئی۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کیون پیٹرسن بہترین فارم اور تیزی سے ہدف کے طرف گامزن تھے کہ امپائر حسن رضا نے ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا، ایکشن ری پلے میں گیند واضح طور پر سٹمپس کے اوپر سے جاتی نظر آئی،انگلش بیٹسمین نے بادل نخواستہ فیصلہ قبول کرنے سے قبل اشارہ بھی کیا کہ گیند ان کے پیڈز پر بہت اوپر ٹکرائی تھی،اسی نوعیت کے اور کئی فیصلے پورے ایونٹ میں ٹیموں اور پرستاروں کو مایوس کرتے نظر آئے، نجم سیٹھی نے پلے آف مرحلے میں ڈی آر ایس کے استعمال کی خوش خبری سنائی ہے، یہ انتظامات پورے ایونٹ کے لیے اٹھالئے جاتے تو شائقین کے تحفظات کم ہوتے۔

دوسری جانب چند میچز کے حیران کن نتائج کے بھی سوشل میڈیا پر خوب چرچے ہیں،جمعہ کو پشاور زلمی کی جانب سے دیئے جانے والے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے لاہور قلندرز نے صرف3اوورز میں 38 رنز بنانے کے بعد کیمرون ڈیلپورٹ، فخرزمان، برینڈن میک کولم، عمر اکمل، گرانٹ ایلوئیٹ کی صورت میں وکٹیں گنوائیں تو اس دوران ٹیم کے ٹوٹل میں صرف ایک رن کا اضافہ ہوا،بعد ازاں محمد رضوان بھی صرف ایک چوکا لگا کر پویلین لوٹ گئے۔

اگرچہ آٹھویں اور نویں وکٹ کی اچھی شراکتوں سے لاہور قلندرز 149رنز بنانے میں کامیاب ہوئے لیکن شائقین کرکٹ کو اننگز کی اچانک تباہی کے مناظر حیران و پریشان کرگئے اور انہوں نے جی بھر سوشل میڈیا پر بھڑاس نکالی، ابھی حیرت کا یہ طوفان تھما نہیں تھا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ نے غیر متوقع فتح کے ساتھ بقا کی جنگ میں کامیابی حاصل کرلی،ایونٹ میں ٹاپ پر موجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس انداز میں بازی ہارے کہ شائقین انگلیاں چباتے رہ گئے۔

سرفراز احمد الیون کو 19گیندوں پر 17رنز کی ضرورت تھی کہ ففٹی میکرز کیون پیٹرسن اور احمد شہزاد نے پویلین کی راہ لی،آخری 2 اوورز میں 7رنز درکار اور 7وکٹیں باقی تھیں کہ سرفراز احمد کے آؤٹ ہونے کے بعد رلی روسو اور انور علی جیسے جارح مزاج بیٹسمین ہدف حاصل نہ کرسکے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز تو پہلے ہی پلے آف مرحلے میں جگہ بناچکے تھے، اس حیران کن نتیجے کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی جگہ پکی کرلی، مصباح الحق نے کرکٹ کو فنی گیم قرار دیتے ہوئے فتح کے شادیانے بجائے لیکن شائقین کو یہ جیت ہضم نہ ہوئی اور وہ خدشات کا اظہار کرتے نظر آئے۔

دنیا بھر کی ٹوئنٹی 20لیگز میں جہاں بڑے سٹار اپنی آب و تاب دکھاتے ہوئے ایونٹ کی رنگینیوں میں اضافہ کرتے ہیں، وہاں نئے ٹیلنٹ کو اپنی کارکردگی میں نکھار لانے کاموقع ملتا ہے، پی ایس ایل میں دونوں چیزوں کا فقدان نظر آیا ہے، ان سطور کے لکھے جانے تک ڈیوائن سمتھ ٹاپ اسکورر تھے،اس کے بعد سرفہرست 10بیٹسیمنوں میں میں رلی روسو، بابر اعظم،کامران اکمل،جیسن روئے،احمد شہزاد، شعیب ملک، شین واٹسن، کیون پیٹرسن اور فخر زمان کے نام آتے ہیں،ان میں سے بیشتر کی کارکردگی میں تسلسل نہیں۔

آزمائے ہوئے کرکٹرز کے بہتات میں فخر زمان نیا نام ضرور ہے،تاہم انہوں نے صرف ایک نصف سنچری سکور ہے، پاکستانی بیٹسمینوں میں اسد شفیق، عمراکمل، سرفراز احمد،مصباح الحق، شاہد آفریدی ایک آدھ بار ثابت قدمی کا مظاہرہ کرپائے، محمد حفیظ، صہیب مقصود،عماد وسیم کے بیٹ زنگ آلود رہے،حارث سہیل اور شاہ زیب حسن 2،2میچز کے بعد ہی اپنی فرنچائزز کے دل سے اتر گئے،آل راؤنڈرز میں شمار کئے جانے والے انور علی نے 7میچز میں 17رنز سکور کئے ہیں۔

پاکستانی کرکٹرز ایک روایتی خامی پی ایس ایل میں بھی کھل کر سامنے آئی، ٹاپ سکوررز میں شامل بابر اعظم، کامران اکمل، شعیب ملک اور فخر زمان انفرادی سکور بنانے میں کامیاب بھی ہوئے ٹیم کی کشتی بیچ منجٖدھار چھوڑ کر پویلین لوٹ جاتے رہے، عمر اکمل نے توکئی میچز میں لاہور قلندرز کو مایوسیوں میں دھکیلا، احمد شہزاد فارم میں آئے بھی تو ففٹی بنانے کے بعد غیر ذمہ دارانہ انداز میں وکٹ گنوابیٹھے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف میچ میں ہدف قریب ہونے کے باوجود ٹیم کو مشکلات میں ڈال کر رخصت ہوگئے، غیر ملکی سٹارز میں کرس گیل، برینڈن میک کولم، سنگاکارا، سیم بلنگز، بریڈ ہیڈن،تمیم اقبال، روی بوپارہ،کیرون پولارڈ، گرانٹ ایلوئیٹ، تسارا پریرا نے بھی پرستاروں کو مایوس کیاہے،ان میں سے چند نے ایک یا دو اچھی اننگز کھیلی ہونگی لیکن فتح گر کردار ادا کرنے سے قاصر رہے، بیشتر بڑے نام پی ایس ایل کی اونچی دکان کے پھیکے پکوان ثابت ہوئے ہیں۔

بولرز میں پاکستان کے سہیل خان، محمد سمیع،سہیل تنویر اور یاسر شاہ سرفہرست ہیں لیکن ان کو ٹوئنٹی 20کرکٹ میں ملک کا مستقبل خیال نہیں کیا جاتا،اس کے بعد سنیل نارائن،رومان رئیس،اسامہ میر،حسان خان،محمد عرفان اور حسن علی کے نام آتے ہیں،وہاب ریاض اور عماد وسیم کی کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا،شاداب خان نے گرچہ 6میچز میں 5شکار ہی کئے ہیں لیکن ان کی لیگ سپین نے نامور کرکٹرز کو پریشان اور مبصرین کو متاثر کیا ہے، محمد نواز گزشتہ ایڈیشن کی کارکردگی برقرار نہیں رکھ پائے، محمد اصغر مہنگے ثابت ہوئے، انور علی ایک بار کبھی بہتر تو کبھی بدتر پرفارمنس پیش کرتے نظر آئے۔

سب سے تشویشناک بات محمدعامر کی کارکردگی ہے،انہوں نے 6میچز میں 58.33کی اوسط سے صرف 3وکٹیں حاصل کیں، جنید خان اور شاہد آفریدی بھی ماضی کی جھلک نہ دکھلاپائے،بلاول بھٹی نے 5میچز میں 100کی اوسط سے صرف ایک وکٹ حاصل کی، موجودہ ایڈیشن کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ گزشتہ ایونٹ میں سامنے آنا والا ٹیلنٹ اس بار دھند میں گم ہوتا نظر آیا، شاداب خان، اسامہ میر اور حسان خان نے کسی حد تک متاثر کیا ہے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ برداشت کرنے کے لیے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔

قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر بار بار یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ پاکستان کو پاور ہٹرز کی ضرورت ہے،انہوں نے پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی کوچنگ کے ساتھ جارحانہ کرکٹ کھیلنے والے بیٹسمینوں کی تلاش بھی جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، تاہم نہ تو وہ اپنی فرنچائز کی کارکردگی میں بہتری لاسکے، نہ ہی کوئی نیا چہرہ سامنے آیا جو مستقبل میں قومی ٹیم کے کام آسکے، فخر زمان کسی حد تک نظروں میں ضرور آئے لیکن کارکردگی ایسی غیر معمولی نہیں کہ ان کو لمبی دوڑ کا گھوڑا قرار دیا جاسکے۔

اسد شفیق اور ایک بھی میچ کھیلنے کے قابل نہ سمجھے جانے والے اظہر علی سمیت کئی چلے ہوئے کارتوس تو پہلے ہی محدود اوورز کی کرکٹ میں ناکام قرار دیئے جاچکے ہیں، یہی حال ٹاپ سکورز میں شامل کامران اکمل کا ہے جو ٹیم میں واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں،پرانا ٹیلنٹ چل نہیں پایا، نیا سامنے نہیں آیا،جدید کرکٹ کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے کیا پلان ہوگا،یہ سوال پی ایس ایل کے بعد بھی پی سی بی، سلیکٹرز اور ٹیم مینجمنٹ کے ذہنوں میں گونجتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں