شام حلب میں شدید لڑائی جاری90 ہلاک جنگ بند کی جائے عالمی برادری کا مطالبہ

باغیوں کاشامی فوج کے5ٹینک اور8 گاڑیاں تباہ کرنیکا دعویٰ، اب تک 20 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں، انسانی حقوق تنظیم


News Agencies/AFP July 29, 2012
باغیوں کاشامی فوج کے5 ٹینک اور8 گاڑیاں تباہ کرنیکا دعویٰ، اب تک 20 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں، انسانی حقوق تنظیم

لاہور: شام کی سرکاری فوج نے حلب شہر کو باغیوں کے قبضے سے چھڑانے کیلیے بڑے پیمانے پر زمینی اور ہوائی حملہ شروع کردیا ہے جبکہ پورے ملک میں مزید 90 افراد مارے گئے ہیں، گزشتہ روز سرکاری فوج نے حلب کے ضلع صلاح الدین میں باغیوں کے ٹھکانوں پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی جس سے4 عمارتوں کو آگ لگ گئی، حلب شہر کو بشارالاسد کی حامی فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور چاروں طرف سے بمباری جاری ہے۔

جھڑپوں میں دس فوجی اور چھ باغیوں سمیت 29 افراد مارے گئے ہیں، باغیوں نے شامی فوج کے5 ٹینک اور 8 گاڑیاں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں مزید61 افراد ہلاک ہوگئے ہیں،شامی حکومت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کرے گی۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق اب تک 20 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں، اے ایف پی کے مطابق شہر میں ناتو بجلی ہے اور نہ ہی پانی ہے، ہزاروں شہری جان بچانے کے لیے شہر سے انخلاکررہے ہیں،ادھر عالمی برادری نے شامی حکومت پر ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب میں لڑائی بند کرانے کے لیے دباؤبڑھانا شروع کردیا ہے۔ ترک وزیر اعظم طیب اردوان نے کہا ہے کہ حلب میں فوج کی کارروائیوں پر عالمی دنیا خاموش تماشائی جیسا کردار نہیں ادا کر سکتی۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے بعد انھوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ شام میں تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ڈیوڈ کیمرون نے بھی شام کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شامی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ حلب میں جاری لڑائی بند کرے۔

اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ نوی پلے نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں شہریوں کو اس لڑائی سے دور رکھیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میں شامی شہریوں کی مدد کیلیے فنڈ جمع کرنے کی مہم جاری ہے جس میں اب تک 72.33 ملین ڈالر جمع کرلیے گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں