امیر اور غریب کے مابین تفاوت میں مزید اضافہ
ملک میں عمومی غربت کی وجہ بیروزگاری بھی ہے جب کہ برآمدات میں مستقل کمی واقع ہو رہی ہے
حکومت کی طرف سے معاشی استحکام اور ترقی کی باتیں تواتر سے کی جا رہی ہیں معیشت کے کئی شعبوں میں ترقی بھی ہوئی ہے، اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہے بلکہ بلند ترین سطح پر پہنچی ہے تاہم محکمہ شماریات (پی بی ایس) کے زیراہتمام کرائے جانے والے سروے میں متمول اور کم آمدنی والے طبقات میں گہرے تفاوت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اقتصادی ترقی کے تمام تر سرکاری دعوؤں کے باوجود خط غربت کے نزدیک زندگی بسر کرنے والے طبقے کی آمدنی میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔
سروے سے ظاہر ہوا ہے زیادہ آمدنی والے طبقات کم آمدنی والے طبقے کے مقابلے میں بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی اور کم سے کم آمدنی والے طبقے میں خلیج دن بدن گہری ہوتی چلی جا رہی ہے نیز موجودہ حکومت کے تیسرے سال سب سے زیادہ منفی اثر زرعی شعبے پر ہوا ہے جس کی پیداوار کم ہو گئی ہے۔
سروے کے مطابق امیر ترین طبقے کے ماہانہ اخراجات غریب طبقے کے مقابلے میں 986 فیصد زاید تھے۔ ملک میں عمومی غربت کی وجہ بیروزگاری بھی ہے جب کہ برآمدات میں مستقل کمی واقع ہو رہی ہے حالانکہ کسی ملک کی اقتصادی حالت سنوارنے میں برآمدات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کے برعکس درآمدات پر زیادہ زور ہے جو کہ سراسر خسارے کا سودا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیرونی قرضے کی، بلکہ قرضے پر چڑھ جانے والے سود کی جو بھاری قسط ادا کرنا پڑتی ہے اس نے بھی ملکی ترقی کو روک رکھا ہے۔
سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کا ایک دو مخصوص طبقوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے ان پالیسیوں کے اثرات نیچے تک بالکل نہیں پہنچتے اور نیچے والے بس منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ امیر اور غریب طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ملک میں لاقانونیت، کرپشن اور دیگر اخلاقی جرائم کا سبب بن رہی ہے۔ پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ اصل مسئلہ معاشی ترجیحات کا ہے۔ معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی کا رخ عوام کی طرف ہو تو اس کے اثرات گراس روٹ لیول پر نظر آتے ہیں۔
سفید پوش طبقے کے لیے قومی بچت کی اسکیمیں خاصی کشش رکھتی ہیں لیکن موجودہ حکومت کی معاشی حکمت عملی میں ان اسکیموں کی اہمیت کم ہے اس لیے بہت اسکیموں کے منافع میں بہت کمی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
کاشتکار طبقے کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی کی مہنگائی نے فی ایکڑ پیداوار کی لاگت میں اضافہ کر دیا ہے' کسان کو منڈی میں آڑھتی اور مڈل مین لوٹ لیتے ہیں' گاؤں سے منڈی تک پہنچنے کے سفر میں سرکاری ملازمین کی رشوت ستانی الگ داستان ہے' لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت بہت ترقی کر رہی ہے' معاشی ترقی اس وقت تسلیم کی جاتی ہے جب درمیانہ اور نچلا طبقہ آسودہ زندگی گزار رہا ہو لہٰذا حکومت کو اپنی معاشی ترجیحات پر نظرثانی کر کے سرمایہ دار اور بیوروکریسی دوست نہیں بلکہ عوام اور کاروبار دوست پالیسی بنانی چاہیے۔
سروے سے ظاہر ہوا ہے زیادہ آمدنی والے طبقات کم آمدنی والے طبقے کے مقابلے میں بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی اور کم سے کم آمدنی والے طبقے میں خلیج دن بدن گہری ہوتی چلی جا رہی ہے نیز موجودہ حکومت کے تیسرے سال سب سے زیادہ منفی اثر زرعی شعبے پر ہوا ہے جس کی پیداوار کم ہو گئی ہے۔
سروے کے مطابق امیر ترین طبقے کے ماہانہ اخراجات غریب طبقے کے مقابلے میں 986 فیصد زاید تھے۔ ملک میں عمومی غربت کی وجہ بیروزگاری بھی ہے جب کہ برآمدات میں مستقل کمی واقع ہو رہی ہے حالانکہ کسی ملک کی اقتصادی حالت سنوارنے میں برآمدات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کے برعکس درآمدات پر زیادہ زور ہے جو کہ سراسر خسارے کا سودا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیرونی قرضے کی، بلکہ قرضے پر چڑھ جانے والے سود کی جو بھاری قسط ادا کرنا پڑتی ہے اس نے بھی ملکی ترقی کو روک رکھا ہے۔
سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کا ایک دو مخصوص طبقوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے ان پالیسیوں کے اثرات نیچے تک بالکل نہیں پہنچتے اور نیچے والے بس منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ امیر اور غریب طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج ملک میں لاقانونیت، کرپشن اور دیگر اخلاقی جرائم کا سبب بن رہی ہے۔ پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ اصل مسئلہ معاشی ترجیحات کا ہے۔ معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی کا رخ عوام کی طرف ہو تو اس کے اثرات گراس روٹ لیول پر نظر آتے ہیں۔
سفید پوش طبقے کے لیے قومی بچت کی اسکیمیں خاصی کشش رکھتی ہیں لیکن موجودہ حکومت کی معاشی حکمت عملی میں ان اسکیموں کی اہمیت کم ہے اس لیے بہت اسکیموں کے منافع میں بہت کمی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
کاشتکار طبقے کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی کی مہنگائی نے فی ایکڑ پیداوار کی لاگت میں اضافہ کر دیا ہے' کسان کو منڈی میں آڑھتی اور مڈل مین لوٹ لیتے ہیں' گاؤں سے منڈی تک پہنچنے کے سفر میں سرکاری ملازمین کی رشوت ستانی الگ داستان ہے' لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت بہت ترقی کر رہی ہے' معاشی ترقی اس وقت تسلیم کی جاتی ہے جب درمیانہ اور نچلا طبقہ آسودہ زندگی گزار رہا ہو لہٰذا حکومت کو اپنی معاشی ترجیحات پر نظرثانی کر کے سرمایہ دار اور بیوروکریسی دوست نہیں بلکہ عوام اور کاروبار دوست پالیسی بنانی چاہیے۔