نگار احمد کا انتقال
نگار احمد نے خواتین کی حقوق کے لیے ملک بھر میں بے شمار کام کیا
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنی والی نگار احمد گزشتہ روز 72 سال کی عمر میں اس دا ر فانی سے کوچ کر گئیں۔ نگار احمد نے خواتین کی حقوق کے لیے ملک بھر میں بے شمار کام کیا اور معاشرے کے پسے اور کچلے ہوئے طبقات کے لیے آواز بلند کی۔ انھیں ان کی خدمات پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے پذیرائی ملی۔ پاکستان میں خواتین کو ان کا اصل مقام دلانے کے لیے جس انقلاب کی بنیاد محترمہ نگار احمد نے رکھی آج اس کے ثمرات نظر آ رہے ہیں۔
نگار احمد نے کیمبرج یونیورسٹی سے معاشیات کے شعبہ میں ماسٹرز کیا جس کے بعد وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ دوران تعلیم وہ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی رہیں۔ انسانی حقوق کے لیے جد و جہد اور خواتین کی فلاح و بہبود کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھوں نے قومی اور بین الا قوامی ایوارڈز حاصل کیے۔
محترمہ نگار احمد نے خواتین کی بہبود کے لیے قائم کردہ قومی کمیشن برائے حقوقِ نسواں کے لیے لائحہ عمل کو تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2005ء میں ان کا نام نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا اس کے علاوہ 2010ء میں انھیں فاطمہ جناح لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ انھیں پاکستان میں ''گلوبل سِسٹرہُڈ نیٹ ورک'' کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ انھوں نے خواتین کے سماجی، سیاسی، قانونی اور معاشی حقوق کے لیے ایک طویل جنگ لڑی۔
1980ء کی دہائی کے دوران پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنا بے حد کٹھن تھا تاہم جن شخصیات نے اس عرصے میں استقامت کا مظاہرہ کیا' نگار احمد ان میں سب سے نمایاںتھیں جنہوں نے جنرل ضیا کی جابرانہ حکومت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ نگار احمد دنیا سے رخصت ہو گئیں لیکن ان کی جدوجہد سے سیکھنے کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔