دہشت گردی کی جنگ اور ’’رد الفساد‘‘
پاکستان بطور ریاست دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے میں کوشاں ہے
پاکستان بطور ریاست دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے میں کوشاں ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہم نے مختلف اوقات کار یا سیاسی ادوار میں کئی ناموں کے ساتھ اس جنگ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ حال میں فوج کے اعلی سطح کے اجلاس میں جس کی صدارت فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے کی دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ''ردالفساد'' کا نیا نام دیا ہے۔ ردالفساد کے نام سے نئی جنگ کی وجہ بھی یہ تضاد بنا ہے کہ ہم جنگ جیت چکے ہیں۔
اگرچہ دہشتگردی کی جنگ سے مکمل نمٹنا فوری طور پر ممکن نہیں کہ یہ ایک طویل جنگ ہے جس میں ریاست سمیت تمام فریقین کو مل کر اجتماعی کوششیں کرنی ہیں۔ ردالفساد کو شروع کرنے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں جو کچھ بطور ریاست ہمیں کرنا تھا ، وہ زیادہ ذمے داری اور دلجمعی سے نہیں کیا جا سکا۔
ردالفساد میں چھ نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے: اول نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد، دوئم بارڈر سیکیورٹی کو یقینی بنانا، سوئم ملک میں موجود بچے کچھے دہشتگردوں کا خاتمہ، چہارم اسلحہ کی سیاست اور آتشیں مواد کو ختم کرنا، پنجم پنجاب میں رینجرز کی مدد سے آپریشن، ششم اب تک کی حاصل کی گئی کامیابیوں کو مزید مستحکم بنانا شامل ہے۔ اس پورے آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے میں تمام سیکیورٹی اداروں سمیت فضائیہ، اور دیگر سول سروسز کے ادارے شامل ہوں گے۔
ماضی میں اس سے قبل ملک میں 2007ء میں سوات میں آپریشن راہ حق، 2008ء میں باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل، 2009ء میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ راست، آپریشن خیبر ون، ٹو، تھری خیبر ایجنسی میں، 2014ء میں آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان، اسی طرح کومبنگ آپریشن کی مدد سے پچھلے دو برسوں سے مختلف علاقوں میں آپریشن شامل ہیں۔
اب ردالفساد جیسا آپریشن ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ریاست میں یہ احساس موجود ہے کہ ہمیں اس معاملے میں کسی بھی طرز کی کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ترکی میں بڑے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ وزیر اعظم ہاوس میں ان کی صدارت میں آپریشن ردالفساد اور پنجاب میں رینجرز کی مدد سے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ وزیر اعظم کی نگرانی میں ہی ہوا تھا تو کیونکر اس کا اس کا اعلان فوج کو خود کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل ضرب عضب کا اعلان بھی خود فوج کو ہی کرنا پڑا تھا۔
یہ رویہ ظاہرکرتا ہے کہ جنگ کے معاملے میں اس وقت ہماری سیاسی اور عسکری قیادت میں بہت سے امور پر مختلف رائے اور حکمت عملی موجود ہے۔ ایک جمہوری ملک میں اصولی طور پر جنگ بالخصوص مسئلہ دہشتگردی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا ہو وہاں ضروری ہے کہ اس جنگ کی قیادت کرتے ہوئے سیاسی قیادت نہ صرف اعتراف کرے بلکہ سب کو نظر بھی آئے۔ لیکن ان تضادات کی وجہ سے سیاسی قیادت پیچھے اور فوجی قیادت آگے نظر آتی ہے جواس سوچ کو تقویت دیتی ہے کہ فوج بہت سے امور میں مداخلت کر کے سیاسی قیادت پر برتری حاصل کرتی ہے۔
سیاسی قیادت بہت سے امور پر جہاں ان کو لیڈ لینی چاہیے وہ سیاسی سمجھوتوںکا شکار نظر آتی ہے۔ پنجاب میں رینجرز کی مدد سے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنے کے فیصلہ پر سیاسی قیادت ہیجانی کیفیت کا شکار رہی۔ ان کے بقول پنجاب میں ایسے حالات نہیں کہ یہاں اس طرز کا آپریشن کیا جائے جو فوج کی وجہ سے ان کو دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ پنجاب میں رینجرز کی مدد سے آپریشن کا مسئلہ ہو یا ردالفساد کی ابتدا ہو اس میں حکومت پر فوج کا دباو تھا۔ حکومت کو فوج کے دباو کی وجہ سے ہی یہ کڑوی گولی ہضم کرنا پڑی ہے کہ آج پنجاب میں وہ کچھ ہونے جا رہا ہے جس کے لیے حکومت کسی بھی طور پر تیار نہیں تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی فریق دباؤ کی بنیاد پر کوئی پالیسی اختیار کرتا ہے تو وہ اس پر عمل بھی نیم دلی سے کرتا ہے، جو مطلوبہ نتائج میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
ابھی تو یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پنجاب میں جو رینجرز کو اختیارات ملے ہیں ان کو کس حد تک اختیار دیا جائے گا۔ کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب میں رینجرز پولیس کی معاونت کرے گی اور اسے سندھ کی طرز پر امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے اختیارات نہیں دیے جائیں گے۔
اس تناظر میں پنجاب میں اپیکس کمیٹی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں محکمہ داخلہ، پولیس، سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ، آئی بی اور رینجرز کے لوگ شامل ہیں۔ یہ کمیٹی اس آپریشن کی حدود و قیود، اختیارات اور حکمت عملی کو طے کرے گی۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر پنجاب میں رینجرز کو اختیارات دینے کے بجائے محض ان کو یہاں رکھ یہ تاثر دیا گیا کہ ہم موثر آپریشن کر رہے ہیں تو دیگر صوبوں سے مسائل ابھریں گے۔
جب پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ بھارت اور افغانستان پاکستان میں براہ راست مداخلت پیدا کر رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا کیا حل تلاش کیا جائے۔ اس ردالفساد میں بھی بارڈر کی سیکیورٹی کی بات کی گئی ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم اس مسئلہ پر سفارتکاری کے محاذ پر ابہام کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم نے حالیہ دورہ ترکی میں بھارت کے حوالے سے دو باتیں کیں۔ اول ان کو بھارت سے دوستی کے لیے مینڈیٹ ملا ہے۔
دوئم ہم بھارت سے تجارت کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن بھارت کی پاکستان میں تواتر سے جاری مداخلت پر انھوں نے عالمی میڈیا کے سامنے کوئی بات نہیں۔ اس سے قبل جرمنی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے پروفیسر حافظ سعید پر تو اپنا غصہ نکالا، لیکن وہ بھی بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے مسئلہ پر خاموش رہے۔ خواجہ آصف کے بیان کا فائدہ بھارت کو ہوا اور اس کے بقول خواجہ آصف نے بھارتی موقف کی تائید کی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے خیالات کو اب سفارتکاری کے محاذ پر پرکھا جائے کہ اس کا فائدہ پاکستان کو ہوا ہے یا بھارت کو۔
اسی طرح فوجی قیادت کو بھی سمجھنا ہو گا کہ مسئلہ دہشتگردی کی جنگ کو نئے نام دینے سے حل نہیں ہوگا۔ بلکہ اصل مسئلہ قوم کو ایک پیچ پر لانا ہے۔یہ جو منطق دی گئی تھی کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کا براہ راست تعلق میں کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست سے جڑا ہوا سوال ہے، لیکن اس پر سمجھوتوں کی سیاست نے ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیا۔
یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس کرپشن اور بدعنوانی کے گٹھ جوڑ نے عملا دہشتگردی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ اس کو توڑنے کے لیے سب سے پہلے سیاسی اور عسکری قیادت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ واقعی مسئلہ ہے، لیکن سیاسی قیادت اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کے بقول دہشتگردی اور کرپشن دو علیحدہ مسئلے ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے۔ ہمیں بلاتفریق دہشتگردی کے خلاف یکسو ہونا ہو گا اور یہ ہی عمل ہماری قومی خود مختاری اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔