امریکی ہتھکنڈوں کے شکار ممالک آخری حصہ
امریکا نے سعودی عرب سے اندرون خانہ ڈیل کرکے عربوں کی خاص تنظیم AOPEC، 1968 سے 1971 تک بنوائی تھی
PESHAWAR:
1971 میں یورپی ملکوں پر اندرون ملک ڈالروں کے بدلے سونے میں اور مقامی کرنسیوں میں ادائیگیوں کے بعد فارن ایکسچینج ڈالرز میں اضافہ ہوکر 95 ارب 93 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہوگئے، اور گولڈ ریزرو ایک ارب 2 کروڑ61 لاکھ 20 ہزار ڈالر یعنی کم سطح پر آگیا۔ امریکا کے پاس مزید سونا کم ہوکر 29 کروڑ16 لاکھ اونس تک آن پہنچا۔ وقت گزرنے کے ساتھ امریکا کے لیے چاروں طرف خطرات بڑھتے جا رہے تھے۔ امریکی صدر نے ڈالر کے بدلے سونے میں ادائیگی پر 15 اگست 1971 کو پابندی لگادی۔
یہ غور کرنے کی بات ہے کہ امریکا جس نے چین کے خلاف 1949 کے انقلاب کے بعد شدید مخالفت شروع کردی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور بعد میں امریکی صدر نے 1972 میں چین کا دورہ کیا۔ امریکی پالیسی سازوں کو اب چین دوست ملک نظر آنے لگا۔ یاد رہے کہ اوپیک OPEC تنظیم 1960 میں بنی تھی۔ اس کے ممبران سعودی عرب، ایران، عراق، کویت، وینزویلا، ابوظہبی، قطر، لیبیا، انڈونیشیا، الجیریا، نائیجیریا تھے جب امریکا یورپی ملکوں کا ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔
امریکا نے سعودی عرب سے اندرون خانہ ڈیل کرکے عربوں کی خاص تنظیم AOPEC، 1968 سے 1971 تک بنوائی تھی۔ سعودی عرب کے آئل منسٹر شیخ احمد ذکی یمنی نے اس تنظیم کو بنوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکا، برطانیہ نے 14 مئی 1948 میں اسرائیل کو جان بوجھ کر فلسطین کو تقسیم کرکے بنوایا تھا۔ اسرائیل امریکی مہرہ تھا۔ 6 جون 1967 کو اسرائیل نے مصر پر حملہ کردیا، اردن کو شکست دے کر (یروشلم) بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔
6 سال 4 ماہ بعد 6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کردیا اور جواز بتایا گیا کہ اسرائیل نے جون 1967 کی جنگ میں بیت المقدس (یروشلم) جو غیر قانونی قبضہ کیا تھا اس کی واپسی کے لیے حملہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر 1973 کو جنگ بندی کرادی تھی۔
سعودی عرب نے اپنے ساتھ AOPEC کے ممبر مسلم ملکوں کو ساتھ ملاکر مطالبہ کیا کہ اگر اسرائیل بیت المقدس کو خالی نہیں کرے گا تو AOPEC ملکوں کے مسلم ممبر ممالک یورپی ملکوں سمیت امریکا کو تیل کی ایکسپورٹ میں مسلسل کٹوتی کرتے ہوئے تیل کو بند کردیں گے۔ 17 اکتوبر 1973 سے مارچ 1974 تک تیل کی کٹوتی کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا۔
کتاب IFS 1998 کے صفحہ 189 کے مطابق پٹرولیم کی قیمت 1971 میں 1.65 ڈالر فی بیرل تھی۔ 1974 میں کٹوتی کے دوران 13.84 ڈالر بیرل کردی گئی اور پھر لگاتار 1980-81 تک 39.83 ڈالر فی بیرل کردی گئی اس طرح 1971 سے 1980-81 تک پٹرولیم کی قیمت 2.314 فیصد کا اضافہ کردیا گیا تھا۔
کتاب The Arab Oil Question by Marwan Iskandar نے 1973 دوسری کتاب OPEC and Petrolium Industry by Mana Saeed Al-Qtabia 1984. London نے شایع کیا۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والے 13 ملکوں کی آمدنی 1961 میں 2439.4 ملین ڈالر تھی۔ 1970 میں 7526.0 ملین ڈالر تھی، یہ اضافہ اس مدت کے دوران 209 فیصد ہوا تھا اور 1971 سے 1980 تک تیل کی آمدنی 11023.2 ملین ڈالر سے 264025.1 ملین ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ یہ اضافہ اس مدت کے دوران 2295 فیصد ہوچکا تھا۔
کتاب Arab Petropolitics 1975 کے صفحہ 177 پر لکھا ہے۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والے ملکوں نے امریکا اور برطانیہ میں 2 کھرب ڈالر سے زیادہ سرمایہ ان ملکوں میں لگادیا تھا اور پھر مسلسل تیل کی بڑھتی قیمتوں سے عربوں کی زندگیوں میں ترقی کا کلچر داخل ہوا، کیونکہ انھوں نے جو اشیا امپورٹ کیں وہ تمام امریکی یا برطانوی تھیں اور سب سے بڑا مالیاتی سیاسی فائدہ امریکا کو ہوا۔ کیونکہ تمام یورپی ملکوں سمیت پوری دنیا کے ملکوں نے 2295 فیصد مہنگا تیل خریدا تھا۔
اس طرح اس کے بعد پوری دنیا خاص کر یورپی ملکوں نے غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیونکہ مہنگے تیل کی وجہ سے ان کے فارن ایکسچینج غیر ضمانتی ڈالر ریزرو کی نکاسی ہوتی گئی تھی۔ کتاب IFS 1979 کے صفحہ 37 کے مطابق تیل ایکسپورٹنگ ممالک کے پاس 1970 میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو3550.0 ملین ڈالر تھے اور 1978 میں یہ بڑھ کر 52167.6 ملین ڈالر ہوگئے تھے۔ فارن ایکسچینج میں اضافہ 1970 سے 1978 تک 1370 فیصد ہوچکا تھا اور 1970 سے 1978 تک پوری دنیا کے فارن ایکسچینج ریزرو 1970 میں 454320.0 ملین ڈالر تھے۔
1978 میں ''امریکی مالیاتی عرب'' ملی بھگت سے 287709.4 ملین ڈالر تک اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ ڈالر کی ضمانت ''مسلم آئل ایکسپورٹنگ ممالک'' نے دے دی تھی۔ کیونکہ عربوں نے غیر ضمانتی ڈالر جو ردی کاغذ تھے، ان کو قبول کرکے امریکا کو معاشی طور پر نئی زندگی دی تھی۔ 1973 کے بعد اسی امریکا نے ''افغان سوویت'' جنگ میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو استعمال کرکے تیل کی قیمت کم کرا کر امریکی مفاد حاصل کیا تھا۔
2016 میں پھر امریکا نے اپنی ہی پیدا کردہ داعش و دیگر کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پھر عربوں کو استعمال کرکے ''مسلم دفاعی اتحاد'' بنوا تو چکا ہے، لیکن حقیقتاً اب مکمل طور پر عربوں اور مسلم دنیا کو آپس میں لڑا کر کمزور کرکے دنیا کی نئے سرے سے تقسیم کرنا چاہتا ہے جو اس کے نیٹو اتحادیوں نے پلاننگ کی ہوئی ہے۔
ایک طرف امریکا Currency Devaluation Minus Economic Development کے ذریعے معاشی غلام ملکوں کے صنعتی کلچروں کا خاتمہ کرچکا ہے۔ یورپی صنعتی کلچر کی اشیا میں ان ملکوں کی فروخت بناچکا ہے۔ دوسری طرف سامراجی قرضوں میں ان سب کو جکڑے ہوئے ہے۔ امریکا نے سڈمڈ لگا لگا کر معاشی غلام ملکوں کے صنعتی کلچر کا خاتمہ کردیا۔ کارل مارکس اور لینن کا پرولتاری انقلاب تو مزدوروں کی قوت سے برپا ہوتا ہے۔
دسمبر1945 کے بعد جب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بنائے گئے جب سے سوشلزم کو سامراجی امریکا نے سڈمڈ، سامراجی قرضوں کے ذریعے جکڑ کر سوشلزم کو سامراجی مالیاتی سسٹم کی جیل میں قید کردیا ہے اور سب سے زیادہ خطرناک امریکی جمہوری کلچر جسے لبرل ازم کہتے ہیں اس سے صرف اشرافیہ ہی اقتدار میں آتی ہے اور ملکی دولت یا سرمایہ لوٹ کر Dollar Safe Heaven کے طور پر بیرونی ملکوں کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے نفع در نفع کما رہے ہیں۔ جب تک دنیا کے ممالک امریکی غیر ضمانتی کاغذ سے نجات نہیں حاصل کرے گی اس وقت تک عوام کی ترقی ناممکن ہے اور حکمران ایسا کیوں کریں گے۔ کیونکہ انھوں نے ہی تو اسے قبول کرکے اپنی چوریوں کو چھپایا ہوا ہے۔
آج لگتا ہے کہ پورے یورپی ممالک جو نیٹو کا حصہ ہیں وہ سب مل کر ''اسلامی اتحاد'' کے ذریعے عربوں کو سبق سکھانا چاہتے ہوں، لیکن سب سے بڑی بات جو قابل غور ہے کہ عربوں نے 1973 کے دوران اور بعد میں فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے کیا امریکی تیار کردہ ڈرامے پر صرف ایکٹنگ کی تھی، جس میں امریکا اپنے غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کی نکاسی چاہتا تھا۔ لیکن فائدہ دونوں نے یعنی عربوں اور امریکا نے اٹھایا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک نے مل کر فلسطین کے مسئلے پر بیت المقدس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا؟
آج تک او آئی سی کے ممالک نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پر واضح دو ٹوک پالیسی اختیار کیوں نہیں کی ہے؟ کشمیری مسلمان تو ایک طرف ہیں ہی، لیکن سب سے زیادہ انسانوں پر سنگین مظالم پر اب تک عرب کیوں خاموش ہیں؟ کیا عربوں کو انڈیا سے تجارت زیادہ عزیز ہے یا کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں عزیز ہیں۔ آج کے دور میں عام شہری کو حق حاصل ہے کہ خانہ کعبہ کے متولیوں سے سوال کرسکتا ہے کہ اسلام کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے آج کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش کیوں ہیں۔
1971 میں یورپی ملکوں پر اندرون ملک ڈالروں کے بدلے سونے میں اور مقامی کرنسیوں میں ادائیگیوں کے بعد فارن ایکسچینج ڈالرز میں اضافہ ہوکر 95 ارب 93 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہوگئے، اور گولڈ ریزرو ایک ارب 2 کروڑ61 لاکھ 20 ہزار ڈالر یعنی کم سطح پر آگیا۔ امریکا کے پاس مزید سونا کم ہوکر 29 کروڑ16 لاکھ اونس تک آن پہنچا۔ وقت گزرنے کے ساتھ امریکا کے لیے چاروں طرف خطرات بڑھتے جا رہے تھے۔ امریکی صدر نے ڈالر کے بدلے سونے میں ادائیگی پر 15 اگست 1971 کو پابندی لگادی۔
یہ غور کرنے کی بات ہے کہ امریکا جس نے چین کے خلاف 1949 کے انقلاب کے بعد شدید مخالفت شروع کردی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور بعد میں امریکی صدر نے 1972 میں چین کا دورہ کیا۔ امریکی پالیسی سازوں کو اب چین دوست ملک نظر آنے لگا۔ یاد رہے کہ اوپیک OPEC تنظیم 1960 میں بنی تھی۔ اس کے ممبران سعودی عرب، ایران، عراق، کویت، وینزویلا، ابوظہبی، قطر، لیبیا، انڈونیشیا، الجیریا، نائیجیریا تھے جب امریکا یورپی ملکوں کا ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔
امریکا نے سعودی عرب سے اندرون خانہ ڈیل کرکے عربوں کی خاص تنظیم AOPEC، 1968 سے 1971 تک بنوائی تھی۔ سعودی عرب کے آئل منسٹر شیخ احمد ذکی یمنی نے اس تنظیم کو بنوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکا، برطانیہ نے 14 مئی 1948 میں اسرائیل کو جان بوجھ کر فلسطین کو تقسیم کرکے بنوایا تھا۔ اسرائیل امریکی مہرہ تھا۔ 6 جون 1967 کو اسرائیل نے مصر پر حملہ کردیا، اردن کو شکست دے کر (یروشلم) بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔
6 سال 4 ماہ بعد 6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کردیا اور جواز بتایا گیا کہ اسرائیل نے جون 1967 کی جنگ میں بیت المقدس (یروشلم) جو غیر قانونی قبضہ کیا تھا اس کی واپسی کے لیے حملہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے 22 اکتوبر 1973 کو جنگ بندی کرادی تھی۔
سعودی عرب نے اپنے ساتھ AOPEC کے ممبر مسلم ملکوں کو ساتھ ملاکر مطالبہ کیا کہ اگر اسرائیل بیت المقدس کو خالی نہیں کرے گا تو AOPEC ملکوں کے مسلم ممبر ممالک یورپی ملکوں سمیت امریکا کو تیل کی ایکسپورٹ میں مسلسل کٹوتی کرتے ہوئے تیل کو بند کردیں گے۔ 17 اکتوبر 1973 سے مارچ 1974 تک تیل کی کٹوتی کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا تھا۔
کتاب IFS 1998 کے صفحہ 189 کے مطابق پٹرولیم کی قیمت 1971 میں 1.65 ڈالر فی بیرل تھی۔ 1974 میں کٹوتی کے دوران 13.84 ڈالر بیرل کردی گئی اور پھر لگاتار 1980-81 تک 39.83 ڈالر فی بیرل کردی گئی اس طرح 1971 سے 1980-81 تک پٹرولیم کی قیمت 2.314 فیصد کا اضافہ کردیا گیا تھا۔
کتاب The Arab Oil Question by Marwan Iskandar نے 1973 دوسری کتاب OPEC and Petrolium Industry by Mana Saeed Al-Qtabia 1984. London نے شایع کیا۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والے 13 ملکوں کی آمدنی 1961 میں 2439.4 ملین ڈالر تھی۔ 1970 میں 7526.0 ملین ڈالر تھی، یہ اضافہ اس مدت کے دوران 209 فیصد ہوا تھا اور 1971 سے 1980 تک تیل کی آمدنی 11023.2 ملین ڈالر سے 264025.1 ملین ڈالر تک جا پہنچی تھی۔ یہ اضافہ اس مدت کے دوران 2295 فیصد ہوچکا تھا۔
کتاب Arab Petropolitics 1975 کے صفحہ 177 پر لکھا ہے۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والے ملکوں نے امریکا اور برطانیہ میں 2 کھرب ڈالر سے زیادہ سرمایہ ان ملکوں میں لگادیا تھا اور پھر مسلسل تیل کی بڑھتی قیمتوں سے عربوں کی زندگیوں میں ترقی کا کلچر داخل ہوا، کیونکہ انھوں نے جو اشیا امپورٹ کیں وہ تمام امریکی یا برطانوی تھیں اور سب سے بڑا مالیاتی سیاسی فائدہ امریکا کو ہوا۔ کیونکہ تمام یورپی ملکوں سمیت پوری دنیا کے ملکوں نے 2295 فیصد مہنگا تیل خریدا تھا۔
اس طرح اس کے بعد پوری دنیا خاص کر یورپی ملکوں نے غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیونکہ مہنگے تیل کی وجہ سے ان کے فارن ایکسچینج غیر ضمانتی ڈالر ریزرو کی نکاسی ہوتی گئی تھی۔ کتاب IFS 1979 کے صفحہ 37 کے مطابق تیل ایکسپورٹنگ ممالک کے پاس 1970 میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو3550.0 ملین ڈالر تھے اور 1978 میں یہ بڑھ کر 52167.6 ملین ڈالر ہوگئے تھے۔ فارن ایکسچینج میں اضافہ 1970 سے 1978 تک 1370 فیصد ہوچکا تھا اور 1970 سے 1978 تک پوری دنیا کے فارن ایکسچینج ریزرو 1970 میں 454320.0 ملین ڈالر تھے۔
1978 میں ''امریکی مالیاتی عرب'' ملی بھگت سے 287709.4 ملین ڈالر تک اضافہ ہوچکا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ ڈالر کی ضمانت ''مسلم آئل ایکسپورٹنگ ممالک'' نے دے دی تھی۔ کیونکہ عربوں نے غیر ضمانتی ڈالر جو ردی کاغذ تھے، ان کو قبول کرکے امریکا کو معاشی طور پر نئی زندگی دی تھی۔ 1973 کے بعد اسی امریکا نے ''افغان سوویت'' جنگ میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو استعمال کرکے تیل کی قیمت کم کرا کر امریکی مفاد حاصل کیا تھا۔
2016 میں پھر امریکا نے اپنی ہی پیدا کردہ داعش و دیگر کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پھر عربوں کو استعمال کرکے ''مسلم دفاعی اتحاد'' بنوا تو چکا ہے، لیکن حقیقتاً اب مکمل طور پر عربوں اور مسلم دنیا کو آپس میں لڑا کر کمزور کرکے دنیا کی نئے سرے سے تقسیم کرنا چاہتا ہے جو اس کے نیٹو اتحادیوں نے پلاننگ کی ہوئی ہے۔
ایک طرف امریکا Currency Devaluation Minus Economic Development کے ذریعے معاشی غلام ملکوں کے صنعتی کلچروں کا خاتمہ کرچکا ہے۔ یورپی صنعتی کلچر کی اشیا میں ان ملکوں کی فروخت بناچکا ہے۔ دوسری طرف سامراجی قرضوں میں ان سب کو جکڑے ہوئے ہے۔ امریکا نے سڈمڈ لگا لگا کر معاشی غلام ملکوں کے صنعتی کلچر کا خاتمہ کردیا۔ کارل مارکس اور لینن کا پرولتاری انقلاب تو مزدوروں کی قوت سے برپا ہوتا ہے۔
دسمبر1945 کے بعد جب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بنائے گئے جب سے سوشلزم کو سامراجی امریکا نے سڈمڈ، سامراجی قرضوں کے ذریعے جکڑ کر سوشلزم کو سامراجی مالیاتی سسٹم کی جیل میں قید کردیا ہے اور سب سے زیادہ خطرناک امریکی جمہوری کلچر جسے لبرل ازم کہتے ہیں اس سے صرف اشرافیہ ہی اقتدار میں آتی ہے اور ملکی دولت یا سرمایہ لوٹ کر Dollar Safe Heaven کے طور پر بیرونی ملکوں کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرکے نفع در نفع کما رہے ہیں۔ جب تک دنیا کے ممالک امریکی غیر ضمانتی کاغذ سے نجات نہیں حاصل کرے گی اس وقت تک عوام کی ترقی ناممکن ہے اور حکمران ایسا کیوں کریں گے۔ کیونکہ انھوں نے ہی تو اسے قبول کرکے اپنی چوریوں کو چھپایا ہوا ہے۔
آج لگتا ہے کہ پورے یورپی ممالک جو نیٹو کا حصہ ہیں وہ سب مل کر ''اسلامی اتحاد'' کے ذریعے عربوں کو سبق سکھانا چاہتے ہوں، لیکن سب سے بڑی بات جو قابل غور ہے کہ عربوں نے 1973 کے دوران اور بعد میں فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے کیا امریکی تیار کردہ ڈرامے پر صرف ایکٹنگ کی تھی، جس میں امریکا اپنے غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کی نکاسی چاہتا تھا۔ لیکن فائدہ دونوں نے یعنی عربوں اور امریکا نے اٹھایا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک نے مل کر فلسطین کے مسئلے پر بیت المقدس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا؟
آج تک او آئی سی کے ممالک نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پر واضح دو ٹوک پالیسی اختیار کیوں نہیں کی ہے؟ کشمیری مسلمان تو ایک طرف ہیں ہی، لیکن سب سے زیادہ انسانوں پر سنگین مظالم پر اب تک عرب کیوں خاموش ہیں؟ کیا عربوں کو انڈیا سے تجارت زیادہ عزیز ہے یا کشمیری مسلمانوں کی زندگیاں عزیز ہیں۔ آج کے دور میں عام شہری کو حق حاصل ہے کہ خانہ کعبہ کے متولیوں سے سوال کرسکتا ہے کہ اسلام کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے آج کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش کیوں ہیں۔