فاٹا میں فوج کوحاصل اختیارات کیخلاف پٹیشن سماعت کیلیے منظور

خارجہ تعلقات کے بارے میں فیصلے کرنا عدالت کا کام نہیں،جسٹس گلزارکے ریمارکس.


Numainda Express January 08, 2013
خارجہ تعلقات کے بارے میں فیصلے کرنا عدالت کا کام نہیں،جسٹس گلزارکے ریمارکس. فوٹو فائل

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں توسیع کے منصوبے کیخلاف آئینی درخواست پر سماعت3 ہفتے کیلیے ملتوی کردی اور درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ کو ہدایت کی ہے کہ کسی سفارتی معاملے میں عدالتی مداخلت کے بارے میں دولت مشترکہ یا دنیا کی کسی اور ملک کے فیصلے کی نظیر پیش کریں ۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری،جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل بینچ نے سماعت کی ۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے مؤقف اپنایا کہ امریکا نے اسلام آباد میں اپنے سفارتخانے کو فوجی مستقر میں تبدیل کردیا ہے جس کے ملکی سلامتی کیلیے مضمرات ہو سکتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ریاست امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک سفارتی معاملہ ہے ،کیا ایک سفارتی معاملے میں عدالت کی مداخلت منصفانہ ہوگی؟ جسٹس گلزار نے کہا خارجہ تعلقات کے بارے میں فیصلے کرنا عدالت کاکام نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے بارے میں عدالت سے زیادہ ذمے دار ادارے موجود ہیں۔

فاضل بینچ نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں ایکشن ان ایڈ آف سول ایڈمنسٹریشن ایکٹ کے تحت فوج کو دیے گئے سول اختیارات کیخلاف پروفیسر ابراہیم کی پٹیشن پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات مستردکرکے درخواست ابتدائی سماعت کیلیے منظورکر لی۔ پٹیشن کی سماعت 2 ہفتے بعدکی جائیگی۔ قبائلی علاقوں میں واقع فوج کے حراستی مراکز میں قیدیوںکے معاملے اور اس پٹیشن کو ایک ساتھ سنا جائیگا۔ اس موقع پر طارق اسد نے اڈیالہ جیل سے اٹھائے گئے باقی ماندہ قیدیوںکا معاملہ اٹھایا اورکہا کہ باقی بچ جانے والے افراد بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، اس لیے اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے۔ فاضل بینچ نے مری کیلیے پانی کی فراہمی کے منصوبے پرکام روکنے کیخلاف دائر آئینی درخواست واپس لینے پر نمٹادی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں