پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا صائب فیصلہ

پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس حوالے سے اپنے ذہنوں کو یکسو رکھنا چاہیے


Editorial February 28, 2017
. فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD: دہشت گردوں کے خلاف آپریشن رد الفساد جاری ہے اور اب پنجاب میں دہشت گردوں' ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے اور کارروائیاں مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اتوار کو پنجاب ایپکس کمیٹی کا جو اہم اجلاس ہوا ہے 'اس میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے خاصی یکسوئی دیکھنے میں آئی ہے۔

ادھر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ ان سارے معاملات کو دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ حکومتی سطح پر دہشت گردوں کو حتمی شکست دینے کے لیے کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی متعلقہ اداروں نے اپنی رپورٹس پیش کی تھیں اور اس بات کا یقین دلایا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں آنے والے شائقین کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔یہ بڑی خوش آیند پیش رفت ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کوئی نیا کام نہیں ہے تاہم حالیہ وارداتوں سے یہی لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز نے پنجاب خصوصاً لاہور کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس منصوبے کا مقصد یہی لگتا ہے کہ ماسٹر مائنڈز چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انتشار کو ہوا دی جائے اور خیبرپختونخوا' بلوچستان اور کراچی میں اپنی شکست کے بعد یہ تاثر دیا جائے کہ وہ ابھی فعال ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد مسلسل شکست کھا رہے ہیں اور اب ان کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر آپریشن ہے اور اس کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے ۔ اس حوالے سے کرنے کا کام یہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کاری کا منظم اور متحرک میکنزم ہونا چاہیے تاکہ آپریشن کرنے والی فورسز کو بروقت اطلاع مل سکے اور وہ دہشت گردوں کو ان کی واردات سے پہلے ہی کیفر کردار تک پہنچا دیں۔

اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں موجود غیرملکی بہت سے مسائل کا باعث بن رہے ہیں' ان لوگوں کو ان کے اپنے اپنے ملک واپس بھجوانا انتہائی اہم ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کو جرات مندی سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک پنجاب میں آپریشن کا تعلق ہے تو اس حوالے سے متعلقہ اداروں میں کوئی ابہام نظر نہیں آ رہا' سیدھی سی بات ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق خوا کسی بھی گروہ سے کیوں نہ ہو' ان کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہو چکی ہے۔

یہ بات بھی مشاہدے میں ہے کہ دہشت گرد اپنے تحفظ کے لیے مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں'یہ کام وہ اپنے سہولت کاروں اور ہمدردوں کے ذریعے کرتے ہیں'مثلاً مذہب اور مسلک کو استعمال کرنا' لسانیت اور صوبائیت اور قومیت کا لبادہ اوڑھ کر خود کو چھپانا 'اس حوالے سے دیکھا جائے تو جہاں دہشت گرد خطرناک ہوتا ہے وہاں اس کا سہولت کار اور ہمدرد بھی کم خطرناک نہیں ہوتا۔

پاکستان میں نظریاتی اور علمی سطح پر بھی ابہام پیدا کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہوتی رہی ہیں ' فرقہ واریت کو پھیلانے کی بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں 'اسی طرح اگر کسی علاقے میں آپریشن ہو رہا ہے تو وہاں نسلی اور لسانی منافرت پھیلانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں' ان سب کوششوں کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کی شدت کو کم کرنا ہوتا ہے ' اسی وجہ سے سیکیورٹی فورسز ابھی تک دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے میں ناکام ہوئیں۔ سیاسی سطح پر بھی کنفیوژن پھیلانے کی سنجیدہ کوششیں ہوتی رہیں' یہ کوششیں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔

پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس حوالے سے اپنے ذہنوں کو یکسو رکھنا چاہیے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں' اسی طرح مذہبی اور دینی طبقے کو بھی اپنی سوچ کو واضح کرنا چاہیے 'دہشت گرد کسی کے دوست ہیں اور نہ ہی وہ کسی نظریے کے پیروکار ہوتے ہیں' اسی طرح ان کے سہولت کار بھی انتہائی مکار اور عیار ہوتے ہیں۔ ان کا بھی کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کے ہمدرد ہوتے ہیں' اس لیے ان لوگوں کے لیے ہمدردی رکھنا یا انھیں بچانے کی کوشش کرنا 'درحقیقت اپنے ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔

لہٰذا وقت کی ضرورت یہی ہے کہ آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانے کے لیے فوج اور سول قیادت ایک صفحے پر رہی اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو کمزور کرنے والے گروہوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جانا چاہیے۔ ماضی کی کوتاہیوں ' غفلتوں اور مصلحتوں کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ اس حوالے سے مزید کوتاہی انتہائی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ سول حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔