مردم شماری تحفظات اور خدشات کا ازالہ ناگزیر
آئین کے تحت ہر 10 سال میں مردم شماری کا انعقاد ضروری ہے
ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں بالآخر مردم شماری کا انعقاد ممکن بنتا دکھائی دے رہا ہے، 15 مارچ 2017ء کو شروع ہونے والی مردم شماری کے دن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں مختلف پلیٹ فارم سے تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے جب کہ انتظامی سطح پر ہلچل دکھائی دیتی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ادارے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے پوری طرح فعال ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی پولیس نے اہم شخصیات کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی مردم شماری کی وجہ سے ایک ماہ کے لیے واپس کرنے کی درخواست کی ہے۔
مردم شماری ایک حساس قومی معاملہ ہے جس کی سیکیورٹی کے لیے کراچی پولیس کو 8 ہزار اہلکار فراہم کرنے ہیں، اس تناظر میں یہ فیصلہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پولیس کا مقصد اہم شخصیات کو سیکیورٹی فراہم کرنا نہیں بلکہ اولین ترجیح عام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ دیگر شہروں اور صوبوں میں بھی پولیس کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان، فاٹا اور پاٹا میں مردم شماری میں تاخیر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے، بلوچستان کے تحفظات ہیں، جب کہ فاٹا میں مردم شماری پر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرانے کے لیے وزارت قانون کی جانب سے سمری کی تیاری کا آغاز نہ ہوسکا ہے، جب کہ ذرایع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں مردم شماری کے حوالے سے کوئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے نہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں فاٹا اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پاٹا میں مردم شماری کے انعقاد کے لیے آئین و قانون میں وضع طریقہ کار کی رو سے اقدامات کیے گئے ہیں۔
مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے، صائب ہوگا کہ اس معاملے میں مزید ابہام نہ پیدا کیے جائیں اور آئین و قانون کے تحت مردم شماری کے انعقاد اور تمام تر تحفظات کو دور کرنے کے لیے تمام صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر لائحہ عمل مرتب کریں۔ آئین کے تحت ہر 10 سال میں مردم شماری کا انعقاد ضروری ہے، گزشتہ حکومتوں کی لاپرواہی اور تاخیر کے باعث پہلے ہی کافی دیر ہوچکی ہے، اب 19 سال بعد منعقد ہونے والی اس مردم شماری کا یقینی بنایا جانا ازحد ضروری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت 15 مارچ تک تمام جانب سے اٹھنے والے تحفظات اور خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے مقررہ وقت پر مردم شماری کا فریضہ بخوبی سرانجام دے گی۔
مردم شماری ایک حساس قومی معاملہ ہے جس کی سیکیورٹی کے لیے کراچی پولیس کو 8 ہزار اہلکار فراہم کرنے ہیں، اس تناظر میں یہ فیصلہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پولیس کا مقصد اہم شخصیات کو سیکیورٹی فراہم کرنا نہیں بلکہ اولین ترجیح عام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ دیگر شہروں اور صوبوں میں بھی پولیس کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان، فاٹا اور پاٹا میں مردم شماری میں تاخیر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے، بلوچستان کے تحفظات ہیں، جب کہ فاٹا میں مردم شماری پر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرانے کے لیے وزارت قانون کی جانب سے سمری کی تیاری کا آغاز نہ ہوسکا ہے، جب کہ ذرایع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں مردم شماری کے حوالے سے کوئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے نہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں فاٹا اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پاٹا میں مردم شماری کے انعقاد کے لیے آئین و قانون میں وضع طریقہ کار کی رو سے اقدامات کیے گئے ہیں۔
مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے، صائب ہوگا کہ اس معاملے میں مزید ابہام نہ پیدا کیے جائیں اور آئین و قانون کے تحت مردم شماری کے انعقاد اور تمام تر تحفظات کو دور کرنے کے لیے تمام صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر لائحہ عمل مرتب کریں۔ آئین کے تحت ہر 10 سال میں مردم شماری کا انعقاد ضروری ہے، گزشتہ حکومتوں کی لاپرواہی اور تاخیر کے باعث پہلے ہی کافی دیر ہوچکی ہے، اب 19 سال بعد منعقد ہونے والی اس مردم شماری کا یقینی بنایا جانا ازحد ضروری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت 15 مارچ تک تمام جانب سے اٹھنے والے تحفظات اور خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے مقررہ وقت پر مردم شماری کا فریضہ بخوبی سرانجام دے گی۔