مولانا سلیم اللہ خانؒ کی یاد میں

آپ کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تمام علمائے کرام اور تمام مکاتب فکر کے لوگ آپ پر برابر اعتماد کرتے تھے


Shakeel Farooqi February 28, 2017
[email protected]

جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں

صدر وفاق المدارس، فخر ملت، رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان گزشتہ 16 جنوری کو اس سرائے فانی سے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ رب العزت آپ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند سے بلند تر کرے۔ آمین!

آپ کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تمام علمائے کرام اور تمام مکاتب فکر کے لوگ آپ پر برابر اعتماد کرتے تھے، جن میں اہل حدیث اور بریلوی حضرات گرامی کے علاوہ اہل تشیع بھی شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ''اتحاد مدارس دینیہ'' میں سب کو آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی صدارت پر اتفاق نہیں تھا۔آپؒ فقاہت کے میدان میں حضرت شیخ الہند کے ہم پلہ تھے اور احادیث کے شعبے میں ''ابن حجر'' کہلاتے تھے۔ آپؒ کے فیض یافتگان میں حضرت مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی رفیع عثمانی جیسے شہسوارانان علم و فقہہ کے علاوہ شیخ الحدیث مفتی نظام الدین شامزئیؒ جیسے لوگ شامل ہیں جو علمائے بے بدل ہیں۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ آج سے 91 برس قبل بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش (یوپی) کے زرخیز اور مردم خیز ضلع مظفر نگر کے مشہور و معروف قصبہ ''حسن پور'' میں پیدا ہوئے۔ حسن اتفاق سے اسی ضلع کے ایک قصبے ''بگھر'' میں ہماری پیدائش ہوئی جو ''حسن پور'' سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ نسبت ہمارے لیے باعث فخر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ:

چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک

مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حوالے سے عالم اسلام کا مشہور و معروف قصبہ تھانہ بھون بھی ضلع مظفر نگر ہی میں واقع ہے۔ اسی سے متصل ''جلال آباد'' کا وہ مشہور قصبہ بھی ہے جہاں مولانا مسیح اللہ خانؒ جلال آبادی کے مدرسہ ''مفتاح العلوم'' میں حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ نے درس نظامی کے ابتدائی درجات سے لے کر متوسط درجات تک کی تعلیم کے مراحل طے فرمائے۔ آپؒ نے صرف ساڑھے چھ سال کے مختصر عرصے میں درس نظامی کی تکمیل کرلی۔ آخری تین درجات کی تعلیم آپؒ نے ''دارالعلوم دیوبند'' میں حاصل کی۔

آپؒ نے اس دور کے شیخ الارب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ، مولانا عبدالحق اور عبدالسمیعؒ سے بھی شرف تلمذ تہہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے علاوہ آپؒ کو بخاری شریف کا درس شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے حاصل کرنے کا اختصاص بھی حاصل ہے۔ یہ مرحلہ آپؒ نے بیس سال کی عمر میں طے فرمایا۔

آپؒ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ ''مفتاح العلوم'' سے کیا جو شروع شروع میں ایک چھوٹا سا مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ آپؒ کی آٹھ سالہ بے لوث خدمات کی بدولت یہ چھوٹا سا مدرسہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی درس گاہ میں تبدیل ہوگیا اور آخرکار آپؒ کی محنت رنگ لائی۔

1954 میں آپ نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت فرمائی اور سندھ کے مقام ٹنڈوالہ یار میں قیام فرمایا۔ یہاں آپؒ عرصہ تین سال تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ بعدازاں آپ دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے اور مسلسل دس سال تک اپنے سرچشمہ فیض سے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ ایک عشرے پر محیط یہ عرصہ آپؒ کے سلسلہ خدمات میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد جنوری 1967 میں آپؒ نے عظیم الشان دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ، کراچی کی بنیاد رکھی جس کا شمار وطن عزیز کے نام ور دینی مدارس میں ہوتا ہے۔

آپؒ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم تھا جس کی بدولت آپؒ نے اتنا بلند مقام حاصل کیا۔ آپؒ کے غیر معمولی حافظے کا یہ عالم تھا کہ آپؒ نے رمضان کے مبارک مہینے کے صرف 27 ایام میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔ مشکل ترین عبارات کو آسان سے آسان زبان میں بیان کرنے میں آپؒ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپؒ کی غیر معمولی ذہانت کے جوہر ''پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں'' والی کہاوت کے مصداق ابتدا ہی میں کھل کر سامنے آگئے تھے۔

ایک روایت کے مطابق حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ مجاز اور مدرسہ ''مظاہر العلوم'' کے ناظم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب 1940 میں سالانہ امتحان کے لیے جب تشریف لائے تو جن دو طالب علموں کے بارے میں آپ نے امتحان کے بعد پیش گوئی کی کہ یہ بڑی صلاحیت کے مالک ہیں اور مستقبل میں اللہ تعالیٰ ان سے دین کی بڑی خدمت لے گا، ان میں سے ایک مولانا سلیم اللہ خانؒ ہی تھے جنھیں آگے چل کر رب کریم نے رئیس المحدثین کے رتبے سے سرفراز فرمایا اور جامعہ فاروقیہ جیسی عظیم الشان دینی درسگاہ کے بانی ہونے کے اعزاز سے نوازا۔

آپؒ کی دینی خدمات کا دائرہ ایک مدت دراز پر محیط ہے کیونکہ آپؒ نے 91 سال کی طویل عمر میں وفات پائی اور اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ آپؒ کے بے شمار شاگرد اور عقیدت مند دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔

مولانا موصوف عظمت کا مینار تھے مگر آپؒ کی شخصیت کی نمایاں خوبی آپؒ کی سادگی اور انکساری تھی۔ آپؒ اپنے چھوٹوں سے ہمیشہ بے حد شفقت سے پیش آتے تھے جس میں بڑائی کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ طویل العمری اور ضعیفی کے باوجود آپؒ دین کی خدمت کے لیے ہمیشہ سفر کے لیے آمادہ و تیار رہتے تھے۔ روزمرہ کی انتہائی مصروفیات کے باوجود آپؒ نے ''کشف الباری'' اور ''مشکاۃ'' جیسی بے مثل شاہکار تصانیف کے لیے بھی وقت نکالا جن کا فیض تا قیامت جاری رہے گا۔

آپؒ کی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی حیثیت ایک صدقہ جاریہ کی ہے جس کی بنیاد آپؒ نے انتہائی نامساعد حالات میں محض اپنے عزم مستحکم اور اللہ کے بھروسے پر رکھی۔ بخاری شریف کا درس آپؒ نے اپنے آخری دم تک جاری رکھا اور اپنا سفر آخرت بھی اپنی دینی درسگاہ سے ہی شروع کیا۔

آپؒ جرأت و ہمت کا کوہ گراں تھے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ آپؒ نے جنرل پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے دو بہ دو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے یہ فرمادیا تھا کہ ''پاکستان کے مفادات کو بھی ہم آپ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ ہم وطن عزیز کی سلامتی، حفاظت اور استحکام پر آپ سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے یہ دینی مدارس وطن عزیز پاکستان کے محافظ ہیں اور اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات کے چوکیدار ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔