دہشت گردی پر افسوسناک سیاست
ہمارے سیاسی رہنما ہر مسئلے پر سیاست کرنے کے عادی ہوچکے ہیں
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک قومی رہنما کی طرف سے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات پر بھی سیاست کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے سنگین قومی اور سب سے اہم مسئلہ ہے جس پر ملک کے ہزاروں بے گناہ شہری اور سیکڑوں سیکیورٹی اور افواج پاکستان کے جوان جانیں قربان کرچکے ہیں مگر ملک کے سب سے سنگین مسئلے پر بھی اتحاد اور سنجیدگی کے مظاہرے پر سیاست کی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ہر مسئلے پر سیاست کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کس بات پر سیاست کی جانی چاہیے کس پر نہیں۔ ہر مسئلہ سیاست کرنے کا نہیں ہوتا، موقع دیکھا جانا چاہیے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن کے رہنما بغیر موقع دیکھے ہر مسئلے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں، جب کہ حکومت کے حامی جواب میں حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
حالیہ ملک گیر دہشت گردی سے کوئی صوبہ محفوظ نہیں رہا، مگر اس اہم مسئلے پر بھی سیاست سے جان نہیں چھوٹی اور دہشت گردی کو نظرانداز کرکے سیاست چمکانے کا موقع نہیں گنوایا گیا اور دونوں فریقوں نے دہشت گردوں کے بجائے ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسائے اور الزامات عائد کیے جاتے رہے۔
قومی ایکشن پلان تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور منظور کیا تھا اور دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی، جس کے خاتمے کے بعد فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کا مسئلہ پیدا ہوا تو حیرت انگیز طور پر دو حکومتی حلیفوں نے ہی اس کی مخالفت کی تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کیوں پیچھے رہتیں اور سب نے مل کر فوجی عدالتوں کی مخالفت شروع کردی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ اجلاس منعقد کیے جو ناکام رہے اور حساس اداروں کی بریفنگ کے بعد برف کچھ پگھلی مگر مکمل اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ ایک ہفتے میں ملک کے چاروں صوبوں میں ہونے والی دہشت گردی نے حکومت اور اپوزیشن کی آنکھیں کھول دیں، مگر اونٹ ابھی ایک کروٹ نہیں بیٹھا۔ فوجی عدالتوں سے کسی سیاسی جماعت کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
البتہ قومی ایکشن پلان پر عمل کے بعد بعض سیاسی و مذہبی حلقوں کے اعتراضات ضرور ہوئے اور سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائی کو پیپلز پارٹی نے اپنے خلاف اور نیشنل ایکشن پلان کا غلط استعمال سمجھا، حالانکہ بھتہ خوری اور کرپشن کی رقم کے دہشت گردی کے استعمال کے واضح ثبوت کے بعد مذہبی اور سیاسی افراد کے خلاف کارروائی ہوئی اور دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے والے سہولت کاروں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا تو بعض سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا مفاد متاثر ہوا، مگر انھوں نے ملک کے اجتماعی مفاد کو ترجیح نہیں دی اور اعتراضات شروع کردیے۔
دہشت گردی اور جرائم کوئی قوم اور ملک برداشت نہیں کرتے کیونکہ یہ ملک کے خلاف تصور ہوتے ہیں اور متاثر عوام ہی ہوتے ہیں۔ جانی نقصان عوام اور مالی نقصان حکومت کا ضرور ہوتا ہے مگر حکومت یہ نقصان حکمرانوں سے نہیں عوام سے ہی وصول کر لیتی ہے اور ہر طرف سے پستے عوام ہی ہیں۔ دو سال سے نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ کم ضرور ہوئی، مگر قومی ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کی سیاسی مخالفت سے دہشت گردی نے پھر سر اٹھالیا اور ملک بھر کو لہولہان کرکے دکھا دیا کہ ابھی دہشت گردوں کی کمر نہیں ٹوٹی اور اس سلسلے میں سرکاری بیان ثابت ہوئے اور حد تو یہ ہے کہ حساس اداروں کی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ریڈ الرٹ پر عمل نہیں ہوا اور دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں کامیابی کا موقع دے کر مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا، جس پر ایسے ذمے داروں کے خلاف بھی دہشت گردوں جیسی کارروائی ہونی چاہیے اور ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔
حالیہ دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان سندھ اور خصوصاً وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے آبائی حلقوں میں ہوا جس میں سیہون شریف بھی شامل ہے، مگر مسلم لیگ (ن) یا پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کو ذمے دار قرار دے کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا حالانکہ سیہون میں طبی سہولتوں کے فقدان سے زیادہ جانی نقصان ہوا جس کی ذمے داری وزیراعلیٰ پر خود ہی نہیں بلکہ ان سابق وزیراعلیٰ پر بھی عائد ہوتی ہے جنھوں نے اپنے حلقہ انتخاب کے بڑے شہر اور حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کے باعث مشہور سیہون شریف پر خصوصی توجہ دی نہ وہاں کوئی اچھا اسپتال قائم کرایا، جس کی وجہ سے سانحے میں 90 جانیں گئیں اور 250 زخمی ہوئے۔
فیصل ایدھی کے بقول اگر سیہون میں طبی سہولتیں ہوتیں تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ سیہون پر پیپلزپارٹی کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، جو مجھ پر بے بنیاد الزام لگا رہی ہے۔ پی پی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے بھی سانحہ سیاست کے لیے استعمال کیا اور وزیر داخلہ کو ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، جس کے جواب میں جے یو پی کے رہنما علامہ ابوالخیر محمد زبیر نے سانحے کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
مال روڈ دھماکے میں پولیس کا زیادہ نقصان ہوا، جس میں دو اعلیٰ پولیس افسر بھی شہید ہوئے، جس پر عمران خان نے پولیس پر الزام لگایا کہ وہ پنجاب حکومت کے باعث سیاسی ہوچکی ہے اور مسلم لیگ (ن) پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے، جب کہ تحریک انصاف نے کے پی کے میں پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنا دیا ہے اور ملک میں سب سے اچھا کام کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بھی اپنے چیئرمین کی تقلید کی کہ وفاقی حکومت نے قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پی پی اور پی ٹی آئی کے برعکس دیگر جماعتوں نے دہشت گردی پر الزامات لگانے کے بجائے ذمے داری کا مظاہرہ کیا اور سیاست چمکانے سے گریز کیا، جس کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ دہشت گردی روکنا صرف حکومت کا نہیں پورے ملک کے لیے اہم مسئلہ ہے، جس پر سیاست اور الزام تراشی کے بجائے تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت سے مل کر حل نکالنا ہوگا اور اسی لیے خورشید شاہ نے آل پاکستان پارٹیز کانفرنس کی تجویز دی ہے، جس پر حکومت کو بھی فوری طور پر مثبت عمل دکھانا چاہیے، کیونکہ سب نے یہیں رہنا ہے اور ملک میں امن ہوگا تو سیاست بھی ہوگی اور ملک بھی محفوظ رہے گا۔