نئے سائبر قوانین انٹرنیٹ پر جرائم روکنے میں غیر موثر
پیچیدہ اور طویل طریقہ کار کی وجہ سے تفتیشی ایجنسی ملزمان کے خلاف براہ راست کارروائی نہیں کر سکتی، قانونی ماہرین
حال ہی میں منظورہ شدہ سائبر قوانین سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام میں غیرموثر ہوگئے ہیں، پیچیدہ اور طویل طریقہ کار کی وجہ سے تفتیشی ایجنسی ملزمان کے خلاف براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، الیکٹرانک فراڈ، خواتین کو ہراساں کرنے سمیت26 میں سے 22 شقیں ناقابل دست اندازی پولیس ہونے کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تفتیشی ادارے کا کردار محدود ہونے کی وجہ سے شواہد ضائع ہونے اور معاشرے پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن سابق حکمران جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں منظور کیے جانے والے سائبر کرائم قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر تفتیشی ادارے کے کردار کو محدود کرنے کا مطالبہ کررہی تھی جس کی وجہ سے متعدد مرتبہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں میں مجوزہ بل میں ترامیم کی گئیں اور تقریبا 7 سال کے انتظار بعد اگست 2016 پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ نافذالعمل کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002 منسوخ کردیاگیا۔
قانون کے نفاذ کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو سونپی گئی تاہم گذشتہ 6 ماہ کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے ملک بھر میں صرف چند مقدمات کا اندراج ممکن ہوسکا ہے جس کی بنیادی وجہ سول سوسائٹی کے دباؤ پر ایف آئی اے کے اختیارات کو انتہائی محدود کردیا گیا ہے۔
26 شقوں پر مشتمل قانون میں صرف 4 دفعات ایسی ہیں جن میں ایف آئی اے براہ راست کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور یہ دفعات ہیں جن میں سائبر ٹیررازم، چائلڈ پورنوگرافی اور خواتین کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنے کی دفعات شامل ہیں تاہم سوشل میڈیا، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کو ہراساں کرنے، الیکٹرانک فراڈ سمیت 22 دفعات ناقابل دست اندازی پولیس ہیں سائبر قوانین کے ماہر بیرسٹرسامع شمس کے مطابق بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے دیگرواقعات میں ملزم کو گرفتار کرنا صرف عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے اور جرم ثابت ہونے پر بھی اسے پہلے ہی دن ضمانت کا اختیار حاصل ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور قانونی ماہر راشد محمود صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں دہشت گردی اور خواتین کو ہراساں کرنے کی تعریف کے نتیجے میں اب فحاشی صرف برہنہ تصاویر تک محدود ہوگئی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تفتیشی ادارے کا کردار محدود ہونے کی وجہ سے شواہد ضائع ہونے اور معاشرے پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن سابق حکمران جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں منظور کیے جانے والے سائبر کرائم قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر تفتیشی ادارے کے کردار کو محدود کرنے کا مطالبہ کررہی تھی جس کی وجہ سے متعدد مرتبہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں میں مجوزہ بل میں ترامیم کی گئیں اور تقریبا 7 سال کے انتظار بعد اگست 2016 پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ نافذالعمل کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس 2002 منسوخ کردیاگیا۔
قانون کے نفاذ کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو سونپی گئی تاہم گذشتہ 6 ماہ کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے ملک بھر میں صرف چند مقدمات کا اندراج ممکن ہوسکا ہے جس کی بنیادی وجہ سول سوسائٹی کے دباؤ پر ایف آئی اے کے اختیارات کو انتہائی محدود کردیا گیا ہے۔
26 شقوں پر مشتمل قانون میں صرف 4 دفعات ایسی ہیں جن میں ایف آئی اے براہ راست کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور یہ دفعات ہیں جن میں سائبر ٹیررازم، چائلڈ پورنوگرافی اور خواتین کی عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنے کی دفعات شامل ہیں تاہم سوشل میڈیا، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کو ہراساں کرنے، الیکٹرانک فراڈ سمیت 22 دفعات ناقابل دست اندازی پولیس ہیں سائبر قوانین کے ماہر بیرسٹرسامع شمس کے مطابق بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے دیگرواقعات میں ملزم کو گرفتار کرنا صرف عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے اور جرم ثابت ہونے پر بھی اسے پہلے ہی دن ضمانت کا اختیار حاصل ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور قانونی ماہر راشد محمود صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں دہشت گردی اور خواتین کو ہراساں کرنے کی تعریف کے نتیجے میں اب فحاشی صرف برہنہ تصاویر تک محدود ہوگئی ہے۔