ایدھی پاکستان کا نہیں انسانیت کا نمائندہ ہے
ایدھی کا مشن قفط عبدالستار تک محدود نہیں رہا، بلکہ جہاں تک انسانیت قائم ہے، وہاں ایدھی ایک روشن مثال ہے۔
عام سی صُبح اور وہی روٹین کے معمولات، روز کی طرح صُبح اُٹھ کر چائے پی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر چیختے چنگھاڑتے ٹریفک سے چٹختے اعصاب لئے آفس پہنچ کر حسب معمول کمپیوٹر آن کیا تو گوگل سرچ انجن کا عبدالستار ایدھی کو پیش کیا گیا خراجِ عقیدت دیکھ کر ساری کُلفت دور ہوگئی۔ جب کِلک کیا تو معلوم ہوا کہ آج اِس مُحسنِ انسانیت کا جنم دن ہے اور گوگل نے اِس عظیم انسان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنا لوگو ایدھی کے نام کردیا ہے۔
مجھے تاسف ہوا اپنی یاداشت پر کہ میں بھلا محسنِ انسانیت کا جنم دن کیسے بھول گئی؟ لیکن کیا کیا جائے میں تو اُس قوم سے ہوں جو ایدھی کے بعد اُس کا مِشن بھول گئی تو جنم دن بھول جانا کون سا عبث ہے؟ خیر ابھی کچھ ماہ پہلے ہی تو ایدھی کے انتقال پر مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے عہد کیا تھا کہ اِس انسان دوست کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ 28 فرووی 1928ء کو جنم لینے والے عبدالستار ایدھی کی 6 دہائیوں پر مشتمل خدمات ہم نہیں بھولیں گے۔
وہ ایدھی سینٹر کے باہر رکھے جھولے، جو بے رحم انسانوں کیلئے باعثِ راحت تھے کہ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد نومولود کونپلوں کو دنیا کیلئے حقارت کا سامان بنا کر کچرے میں جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنانے کے بجائے یہاں ڈال کر اپنی گلو خلاصی کراسکیں۔ وہ ڈھیر ساری لاوارث عورتیں جن کا شاید دنیا میں کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہوتا تو وہ سڑکوں پر کیوں رُلتی پھرتیں؟ اُن کیلئے ایدھی شیلٹر ہوم ہی پناہ تھا، سائبان تھا، گھر تھا، یا وہ ہزاروں بچے جو بلقیس ایدھی کو ہی اپنی ماں سمجھتے ہیں۔ بم دھماکوں، دہشت گردی، گولیوں سے چھلنی، سڑکوں اور ویرانوں سے اُٹھائی جانے والی لاشیں اور بعض تو وہ گمنام وجود جو اپنے وارثوں کے انتظار میں گل سڑ جاتے گئے، ان کو احترام سے مٹی کے سپرد کرنے والے ہاتھ ہم نہیں بھولیں گے۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ یہ لمحہ لمحہ نظر آنے والی ایمبولینسں، جو سائرن بجاتی مریضوں کو اسپتال تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں، جو کسی بھی انہونی اور آفت میں سب سے پہلے متاثرین تک پہنچ جاتی ہیں اور اُن کے ساتھ موجود رضا کار ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ درسِ انسانیت کو جو سبق انہوں نے سیکھایا ہے نہ فراموش کریں۔ یہ وہی ایمبولینس سروس ہے جو اقوامِ عالم میں سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے، ایک چھوٹے سے ملک کی غریب عوام میں یہ کیسے اہلِ دل بستے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس کامیابی سے چلا رہے ہیں؟ جس میں دو طیاروں سمیت 1200 ایمبولینس ہر لمحہ ، ہر آن مدد کیلئے تیار ہیں۔ ہزاروں بیوائیں اور یتیم بچے جو 'اپنا گھر' کے سائے میں روز و شب بِتارہے ہیں وہ بھول جانے کے لائق تو نہیں۔
لیکن افسوس تو یہی ہے کہ ہم شاید گوگل کا خراجِ تحسین دیکھ دیکھ کر ایدھی کے پاکستانی ہونے پر خوش ہوتے رہیں اور فخر سے گردن اکڑائے رکھیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایدھی پاکستان کا نہیں، انسانیت کا نمائندہ ہے۔ اُس کا کمال یہ تھا کہ ناداروں کی مدد کے لیے اُس نے کبھی پاکستان پر انحصار نہیں کیا۔ وہ پاکستان کی گلی کوچوں میں تو مدد کے لیے جایا کرتے تھے، لیکن انہوں نے اِس مقصد کے حصول کے لیے مشکل ممالک میں بھی جانے سے گریز نہیں کیا۔ 1980ء میں اِسی مقصد کےلیے جب وہ لبنان جارہے تھے تو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے۔
ایدھی کا مشن قفط عبدالستار تک محدود نہیں رہا، بلکہ جہاں تک انسانیت قائم ہے، وہاں ایدھی ایک روشن مثال ہے۔ اِس لئے ایدھی کا فلاحی مشن رکنے نہ دیجیئے، آپ سوچئے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ایدھی صاحب کے گزرنے کے محض چند ماہ بعد ہی فیصل ایدھی کو اپیل کرنا پڑی۔ یہ وہ فلاحی تنظیم تھی جو حکومتوں کی امداد کی قائل نہیں تھی اور بھارتی امداد قبول کرنے سے انکاری تھی، کیونکہ اُس کا سہارا اور مان صرف دردِ دل رکھنے والے عوام تھے، تو آئیے اُس مان کو برقرار رکھیں، اور انسانیت کی خدمت کے سفر کو ماضی کی طرح جاری و ساری رکھیں۔
عوام کے تعاون سے عوام کی فلاح ہی ایدھی مشن کا سادہ سا فارمولا ہے، تو اگر عبدالستار ایدھی سے حقیقی محبت رکھتے ہیں اور اُن کی عظمت کے متعرف ہیں تو ایدھی مشن کو زندہ رکھنے میں اس فلاحی ادارہ کی مدد کیجیئے، اور اگر کچھ نہ کرسکیں تو بطور رضا کار اپنے قیمتی وقت سے چند گھنٹے نکال کر ادارے کو دیجئے کہ عبدالستار ایدھی سے حقیقی عقیدت کا اظہار انسانیت کی خدمت سے ہی ممکن ہے۔
[poll id="1330"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مجھے تاسف ہوا اپنی یاداشت پر کہ میں بھلا محسنِ انسانیت کا جنم دن کیسے بھول گئی؟ لیکن کیا کیا جائے میں تو اُس قوم سے ہوں جو ایدھی کے بعد اُس کا مِشن بھول گئی تو جنم دن بھول جانا کون سا عبث ہے؟ خیر ابھی کچھ ماہ پہلے ہی تو ایدھی کے انتقال پر مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے عہد کیا تھا کہ اِس انسان دوست کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہم نے عہد کیا تھا کہ 28 فرووی 1928ء کو جنم لینے والے عبدالستار ایدھی کی 6 دہائیوں پر مشتمل خدمات ہم نہیں بھولیں گے۔
وہ ایدھی سینٹر کے باہر رکھے جھولے، جو بے رحم انسانوں کیلئے باعثِ راحت تھے کہ اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد نومولود کونپلوں کو دنیا کیلئے حقارت کا سامان بنا کر کچرے میں جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنانے کے بجائے یہاں ڈال کر اپنی گلو خلاصی کراسکیں۔ وہ ڈھیر ساری لاوارث عورتیں جن کا شاید دنیا میں کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہوتا تو وہ سڑکوں پر کیوں رُلتی پھرتیں؟ اُن کیلئے ایدھی شیلٹر ہوم ہی پناہ تھا، سائبان تھا، گھر تھا، یا وہ ہزاروں بچے جو بلقیس ایدھی کو ہی اپنی ماں سمجھتے ہیں۔ بم دھماکوں، دہشت گردی، گولیوں سے چھلنی، سڑکوں اور ویرانوں سے اُٹھائی جانے والی لاشیں اور بعض تو وہ گمنام وجود جو اپنے وارثوں کے انتظار میں گل سڑ جاتے گئے، ان کو احترام سے مٹی کے سپرد کرنے والے ہاتھ ہم نہیں بھولیں گے۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں؟ یہ لمحہ لمحہ نظر آنے والی ایمبولینسں، جو سائرن بجاتی مریضوں کو اسپتال تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں، جو کسی بھی انہونی اور آفت میں سب سے پہلے متاثرین تک پہنچ جاتی ہیں اور اُن کے ساتھ موجود رضا کار ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ درسِ انسانیت کو جو سبق انہوں نے سیکھایا ہے نہ فراموش کریں۔ یہ وہی ایمبولینس سروس ہے جو اقوامِ عالم میں سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے، ایک چھوٹے سے ملک کی غریب عوام میں یہ کیسے اہلِ دل بستے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس کامیابی سے چلا رہے ہیں؟ جس میں دو طیاروں سمیت 1200 ایمبولینس ہر لمحہ ، ہر آن مدد کیلئے تیار ہیں۔ ہزاروں بیوائیں اور یتیم بچے جو 'اپنا گھر' کے سائے میں روز و شب بِتارہے ہیں وہ بھول جانے کے لائق تو نہیں۔
لیکن افسوس تو یہی ہے کہ ہم شاید گوگل کا خراجِ تحسین دیکھ دیکھ کر ایدھی کے پاکستانی ہونے پر خوش ہوتے رہیں اور فخر سے گردن اکڑائے رکھیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایدھی پاکستان کا نہیں، انسانیت کا نمائندہ ہے۔ اُس کا کمال یہ تھا کہ ناداروں کی مدد کے لیے اُس نے کبھی پاکستان پر انحصار نہیں کیا۔ وہ پاکستان کی گلی کوچوں میں تو مدد کے لیے جایا کرتے تھے، لیکن انہوں نے اِس مقصد کے حصول کے لیے مشکل ممالک میں بھی جانے سے گریز نہیں کیا۔ 1980ء میں اِسی مقصد کےلیے جب وہ لبنان جارہے تھے تو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے۔
ایدھی کا مشن قفط عبدالستار تک محدود نہیں رہا، بلکہ جہاں تک انسانیت قائم ہے، وہاں ایدھی ایک روشن مثال ہے۔ اِس لئے ایدھی کا فلاحی مشن رکنے نہ دیجیئے، آپ سوچئے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ایدھی صاحب کے گزرنے کے محض چند ماہ بعد ہی فیصل ایدھی کو اپیل کرنا پڑی۔ یہ وہ فلاحی تنظیم تھی جو حکومتوں کی امداد کی قائل نہیں تھی اور بھارتی امداد قبول کرنے سے انکاری تھی، کیونکہ اُس کا سہارا اور مان صرف دردِ دل رکھنے والے عوام تھے، تو آئیے اُس مان کو برقرار رکھیں، اور انسانیت کی خدمت کے سفر کو ماضی کی طرح جاری و ساری رکھیں۔
عوام کے تعاون سے عوام کی فلاح ہی ایدھی مشن کا سادہ سا فارمولا ہے، تو اگر عبدالستار ایدھی سے حقیقی محبت رکھتے ہیں اور اُن کی عظمت کے متعرف ہیں تو ایدھی مشن کو زندہ رکھنے میں اس فلاحی ادارہ کی مدد کیجیئے، اور اگر کچھ نہ کرسکیں تو بطور رضا کار اپنے قیمتی وقت سے چند گھنٹے نکال کر ادارے کو دیجئے کہ عبدالستار ایدھی سے حقیقی عقیدت کا اظہار انسانیت کی خدمت سے ہی ممکن ہے۔
میری اور پاکستانی قوم سمیت دنیا بھر میں موجود اہل دلِ انسانوں کی جانب سے عبدالستار ایدھی کا جنم دن مبارک۔
[poll id="1330"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔