کاروباری برادری ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات پر سخت ناراض
ٹیکس حکام کے صوابدیدی اختیارات پر احتجاج، سخت قوانین واپس لینے کامطالبہ
پاکستان بھرکے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اورتجارتی ایسوسی ایشنز نے بطوراحتجاج مالی سال2017-18 کے وفاقی بجٹ کے لیے مشترکہ طور پر تجاویز اور سفارشات ارسال نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
یہ فیصلہ پیرکوکراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت منعقدہ چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری اورٹریڈایسوسی ایشنزکنونشن میں کیا گیا جس کے بعد بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کراچی، لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال، رحیم یارخان، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، بھاولپور، شکارپور، لسبیلہ اور لاڑکانہ چیمبرزآف کامرس کے سربراہان ونمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کنونشن کے انعقاد کا مقصدٹیکس حکام کی جانب سے بے جا اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے اور سخت کارروائی کو زیر بحث لاتے ہوئے تجارت وصنعت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا تھا جبکہ چیمبرزو ایسوسی ایشنز کی ہرسال ارسال کردہ بجٹ تجاویز کو حکومت کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کر دینے پر بھی بحث ہوئی تاکہ مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکے۔
سراج تیلی کے مطابق تاجروں کی 6چیمبرزآف کامرس پرمشتمل کمیٹی بنادی گئی ہے جوحکومت سے مذاکرات اورآئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی ہم کاروباری لوگ ہیں ہم لڑنا نہیں چاہتے سڑکوں پرآنا نہیں چاہتے مگرہمیں دیوارسے لگایاجارہا ہے ایف بی آرکے افسران ٹیکس وصولیوں کا75فیصداپنی جیب میں اور25 فیصد قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔
کنونشن کے شرکا نے ایف بی آر حکام، پالیسی سازوں اور وزارت خزانہ کے غیرمنطقی اور یکطرفہ نکتہ نظر سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی رائے، تجاویز اور معلومات فراہم کیں تاکہ مشترکہ حکمت عملی وضع کی جاسکے، تفصیلی بحث کے بعد کنونشن کے شرکا نے باہمی مشاورت سے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے کہ وہ مالی سال2017-18 کے بجٹ کے لیے اپنی تجاویز اور سفارشات ارسال نہیں کریں گے، مشترکہ اعلامیہ میںوزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ ریونیو پر زور دیاگیاکہ وہ سب سے پہلے چیمبر و ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ 4 مالی سال میں ارسال کی گئی بجٹ تجاویز پر عمل درآمدکو یقینی بنائے کیونکہ ان تجاویز کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔
شرکا نے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر زور دیا کہ گزشتہ 4 فنانس بلز کے ذریعے ان لینڈ ریونیو افسران اور فیلڈ فارمیشنز کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات اورسخت قوانین و دفعات کو واپس لیا جائے جوکاروباری برادری کے لیے بنیادی مسئلہ اور مشکلات پیدا کرنے کے ساتھ پیداواری نقصانات اور ذہنی اذیت کا سبب ہیں، ان قوانین کی وجہ سے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
درحقیقت یہ قوانین ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ٹیکس چوری کے کلچر کو فروغ دینے کا باعث ہیں، تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے حکومت کی جانب سے بنائے گئے ٹیکس اصلاحات کمیشن کی کاروائیوں میں بھرپور حصہ لیا تھا اور اپنی تجاویز دی تھیں جبکہ حکومت نے اس کمیشن کے قیام کے وقت وعدہ کیا تھا کہ کمیشن کی سفارشات پر اصل روح کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنایاجائے گا لیکن ایسانہیں کیا گیا جس پر مذکورہ چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے شدید مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ان تجاویز پر حکومتی اہلکاروں، اسٹیک ہولڈرز، ایف بی آر حکام اور ٹیکس ماہرین کے درمیان مکمل اتفاق رائے تھا لہٰذا تمام چیمبرز اور ایسوسی اسیشنز کا مطالبہ ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیوں اوروعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
چیمبرز و ٹریڈ باڈیز نے مزید تجویز دی کہ فنانس بلز کے ذریعے ٹیکس قوانین سمیت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، کسٹمز ایکٹ 1969 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ میں کسی قسم کی تبدیلیاں نہ کی جائیں، فنانس بل صرف بجٹ اور مالیاتی اقدامات تک محدود کیا جانا چاہیے، ٹیکس قوانین اور دفعات میں کسی بھی قسم کی تبدیلیوں کو پارلیمنٹ میں علیحدہ بلز کی صورت میں پیش کیا جائے اور اسٹیک ہولڈر سے تبادلہ خیال و مشاورت کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے۔
تمام چیمبرز اور ٹریڈ باڈیز نے ایف بی آر کی جانب سے آئی آر سروس کے افسران کو سیکشن 38A، 38B، 40A، 40B، 176اور 177 کے تحت دیے گئے حد سے زیادہ اختیارات کے غلط استعمال کی شدید مذمت کی اور حکومت پر زور دیا کہ ان تمام سیکشنز کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور مذکورہ سیکشنز پر عمل درآمد کو سختی سے روکا جائے دوسری صورت میں حکومت نتائج کی ذمے دار ہو گی جو ہمیں کسی بھی حد تک جانے پر مجبور کر سکتی ہے جبکہ ریونیو پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، ان تمام مطالبات کی عدم قبولیت کی صورت میں کنونشن کے شریک تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے اور عدالتوں سے ان لینڈ ریونیو کے افسران کے صوابدیدی اختیارات واپس لینے کے لیے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یہ فیصلہ پیرکوکراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت منعقدہ چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹری اورٹریڈایسوسی ایشنزکنونشن میں کیا گیا جس کے بعد بی ایم جی کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کراچی، لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ساہیوال، رحیم یارخان، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، بھاولپور، شکارپور، لسبیلہ اور لاڑکانہ چیمبرزآف کامرس کے سربراہان ونمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کنونشن کے انعقاد کا مقصدٹیکس حکام کی جانب سے بے جا اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے اور سخت کارروائی کو زیر بحث لاتے ہوئے تجارت وصنعت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا تھا جبکہ چیمبرزو ایسوسی ایشنز کی ہرسال ارسال کردہ بجٹ تجاویز کو حکومت کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کر دینے پر بھی بحث ہوئی تاکہ مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکے۔
سراج تیلی کے مطابق تاجروں کی 6چیمبرزآف کامرس پرمشتمل کمیٹی بنادی گئی ہے جوحکومت سے مذاکرات اورآئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی ہم کاروباری لوگ ہیں ہم لڑنا نہیں چاہتے سڑکوں پرآنا نہیں چاہتے مگرہمیں دیوارسے لگایاجارہا ہے ایف بی آرکے افسران ٹیکس وصولیوں کا75فیصداپنی جیب میں اور25 فیصد قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔
کنونشن کے شرکا نے ایف بی آر حکام، پالیسی سازوں اور وزارت خزانہ کے غیرمنطقی اور یکطرفہ نکتہ نظر سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی رائے، تجاویز اور معلومات فراہم کیں تاکہ مشترکہ حکمت عملی وضع کی جاسکے، تفصیلی بحث کے بعد کنونشن کے شرکا نے باہمی مشاورت سے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے کہ وہ مالی سال2017-18 کے بجٹ کے لیے اپنی تجاویز اور سفارشات ارسال نہیں کریں گے، مشترکہ اعلامیہ میںوزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ ریونیو پر زور دیاگیاکہ وہ سب سے پہلے چیمبر و ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ 4 مالی سال میں ارسال کی گئی بجٹ تجاویز پر عمل درآمدکو یقینی بنائے کیونکہ ان تجاویز کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔
شرکا نے وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر زور دیا کہ گزشتہ 4 فنانس بلز کے ذریعے ان لینڈ ریونیو افسران اور فیلڈ فارمیشنز کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات اورسخت قوانین و دفعات کو واپس لیا جائے جوکاروباری برادری کے لیے بنیادی مسئلہ اور مشکلات پیدا کرنے کے ساتھ پیداواری نقصانات اور ذہنی اذیت کا سبب ہیں، ان قوانین کی وجہ سے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی بڑی تعداد ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
درحقیقت یہ قوانین ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ٹیکس چوری کے کلچر کو فروغ دینے کا باعث ہیں، تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے حکومت کی جانب سے بنائے گئے ٹیکس اصلاحات کمیشن کی کاروائیوں میں بھرپور حصہ لیا تھا اور اپنی تجاویز دی تھیں جبکہ حکومت نے اس کمیشن کے قیام کے وقت وعدہ کیا تھا کہ کمیشن کی سفارشات پر اصل روح کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنایاجائے گا لیکن ایسانہیں کیا گیا جس پر مذکورہ چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے شدید مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ان تجاویز پر حکومتی اہلکاروں، اسٹیک ہولڈرز، ایف بی آر حکام اور ٹیکس ماہرین کے درمیان مکمل اتفاق رائے تھا لہٰذا تمام چیمبرز اور ایسوسی اسیشنز کا مطالبہ ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیوں اوروعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
چیمبرز و ٹریڈ باڈیز نے مزید تجویز دی کہ فنانس بلز کے ذریعے ٹیکس قوانین سمیت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990، کسٹمز ایکٹ 1969 اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ میں کسی قسم کی تبدیلیاں نہ کی جائیں، فنانس بل صرف بجٹ اور مالیاتی اقدامات تک محدود کیا جانا چاہیے، ٹیکس قوانین اور دفعات میں کسی بھی قسم کی تبدیلیوں کو پارلیمنٹ میں علیحدہ بلز کی صورت میں پیش کیا جائے اور اسٹیک ہولڈر سے تبادلہ خیال و مشاورت کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے۔
تمام چیمبرز اور ٹریڈ باڈیز نے ایف بی آر کی جانب سے آئی آر سروس کے افسران کو سیکشن 38A، 38B، 40A، 40B، 176اور 177 کے تحت دیے گئے حد سے زیادہ اختیارات کے غلط استعمال کی شدید مذمت کی اور حکومت پر زور دیا کہ ان تمام سیکشنز کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور مذکورہ سیکشنز پر عمل درآمد کو سختی سے روکا جائے دوسری صورت میں حکومت نتائج کی ذمے دار ہو گی جو ہمیں کسی بھی حد تک جانے پر مجبور کر سکتی ہے جبکہ ریونیو پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے، ان تمام مطالبات کی عدم قبولیت کی صورت میں کنونشن کے شریک تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے اور عدالتوں سے ان لینڈ ریونیو کے افسران کے صوابدیدی اختیارات واپس لینے کے لیے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا۔