انگلستان کے نرالے کتے

ممتاز ماہر تعلیم کی سبق آموز آپ بیتی۔


انگریز کتا محض روٹی کپڑے پر گھر والوں کا ملازم نہیں ہوتا۔ فوٹو: نیٹ

مجھے انگلستان پہنچے ہوئے ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے اور کتے سے ناپسندیدگی کا احساس ابھی تازہ تھا کہ خود کتا ایک ٹھوس حقیقت بن کر میری زندگی میں داخل ہوگیا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نومبر 1952ء میں ایک دن میں مسٹر ہنری مارٹن سے ملنے سینٹ آلبنز شہر گیا۔ مسٹر ہنری مارٹن 1920ء تک میرے اپنے کالج (اسلامیہ کالج، لاہور) کے پرنسپل رہے تھے۔ اور کالج سے سبکدوش ہونے کے بعد جیسا زمانے کا دستور ہے، بہت نیک نام پرنسپل سمجھے جانے لگے تھے۔ مارٹن صاحب کی عمر اس وقت بیاسی برس یا اس سے کچھ اوپر ہوگی۔ وہ اپنی اکلوتی صاحبزادی اور داماد کے گھر میں بڑی خاموشی سے رہتے تھے۔

مارٹن صاحب کے داماد ،مسٹر لزلی ماسیلنڈ ہوائی جہاز بنانے کے ایک مشہور کارخانے میں انجینئر تھے ۔ مجھے گفتگو میں ضمنی طور پر معلوم ہوا کہ مسٹر ماسیلنڈ کا سلسلہ نسب ولیم فاتح کے نارمن شرفا تک پہنچتا ہے۔لیکن لزلی ماسیلنڈ کی شرافت نسبی سے قطع نظر مجھے ان کی ذاتی شرافت نے ایک ہی دن میں ان کا گرویدہ بنادیا۔ وہ اپنی بیوی کے باپ سے جس محبت اور ملاطفت کا سلوک کررہے تھے، اس پر میں دل ہی دل میں مرحبا کہتا رہا۔ اور سچ پوچھیے تو لزلی ماسیلنڈ جیسے لوگوں کو دیکھ لینا انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا یقین کرلینا ہے۔

خیر یہ تو ایک دوسرا قصہ ہے، اصل بات جو کہنے کی تھی، یہ ہے کہ مسٹر اور مسز ماسیلنڈ کے چھوٹے سے گھر میں چھوٹے چھوٹے کتوں اور بلیوں کی خاصی بڑی تعداد آرام سے زندگی بسر کررہی تھی۔ ان دونوں کے ہاں کوئی بچہ نہ تھا مگر ننھے منے کتوں اور بلیوں کی کثرت سے گھر میں بے رونقی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ گھر میں ایک بڑا کتا بھی ضرور موجود تھا کیونکہ شام سے کچھ پہلے جب دونوں میاں بیوی مجھے ویرولم( VERULAM )کے تاریخی عجائب خانے کی سیر کرانے کی خاطر نکلے تو ایک خوش قطع اور خوش قامت کتے کی ڈوری مسز ماسیلنڈ کے ہاتھ میں تھی۔

عجائب خانہ سینٹ آلبنز کے باہر قدیم رومی شہر، ویرولم کے کھنڈروں کے درمیان بنایا گیا ہے۔ ہم شہر کے بیرونی مرغزاروں کی ہریاول کو پامال کرتے اور دریائے ویر( VER )کی شفاف لہروں پر مرغابیوں کے تیرنے کا منظر دیکھتے ہوئے جب عجائب خانے پہنچے تو معلوم ہوا کہ چار بج چکے اور عجائب خانہ بند ہے۔

مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر مجھ سے بڑھ کر مایوسی میرے نیک دل میزبانوں کو ہوئی پھر بھی مسز ماسیلنڈ نے ہار نہ مانی اور التجا، اصرار، ہر حیلے سے عجائب خانہ دوبارہ کھولنے کے لیے دربان کو کہتی رہیں۔ شاید ان کی اس آخری دلیل پر کہ ایک شخص دنیا کے دوسرے سرے سے عجائب خانہ دیکھنے آیا ہے، دربان کا دل پسیج گیا۔ اس نے کنجیوں کا گچھا نکالا اور عجائب خانے کے ہال کا دروازہ کھول کر ہمیں اندر داخل ہونے کی دعوت دی۔

اس موقع پر ایک نئی مشکل پیش آئی۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ کتوں اور بچوں کی نقل و حرکت پر انگلستان کی آزاد سرزمین میں بھی کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ مثلاً کیمبرج کے کسی کالج میں نہ کتا قدم رکھ سکتا ہے نہ بچہ۔ ہم عجائب خانے میں داخل ہونے ہی کو تھے کہ دربان نے شائستگی سے مسکرا کر ہمیں بتایا کہ ہمارے دوست کتے کو عجائب خانے کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔

جس منت سماجت سے مسز ماسیلنڈ نے عجائب خانے کا دروازہ کھلوایا تھا، اس کے بعد ان کا ہم سے الگ ہوجانا میرے تصّور میں بھی نہ آسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے ایک لحظہ تامل کیے بغیر مجھ سے کہا کہ میں ان کے شوہر کے ساتھ اندر چلا جاؤں اور وہ خود کتے کی ڈوری ہاتھ میں لیے عجائب خانے کے باہر ایک بنچ پر بیٹھ گئیں۔ اس چھوٹے سے واقعے میں ایک ایسا نکتہ پنہاں تھا جس نے میری آنکھیں کھول دیں۔

کتا اگر نرا جانور ہے (جیسا ہم سمجھتے ہیں) تو اسے رسی سے باہر باندھنا اور خود اندر چلے کیا دشوار تھا؟ لیکن کتے کی عزت نفس کا یہ پاس کہ اسے تنہا چھوڑ جانا شرافت کے خلاف معلوم ہوا، اہل انگلستان کے لیے انسانی زندگی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ کتا انسان کا ہم جنس نہ سہی، ایک زندہ فرد تو ہے۔ اس حیثیت سے اسے معاشرتی جذبات و حسیات کے معاملے میں انسان کے ساتھ مساوات کا حق حاصل ہے۔ یہی بات پاکستانی زندگی کی اصطلاح میں شاید یوں بیان ہوسکے کہ انگریز کتا محض روٹی کپڑے پر گھر والوں کا ملازم نہیں ہوتا،ان کا انسانیت سے بعینہ وہی تعلق ہے جو گھر کے بے زبان معصوم بچے کو ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں