میں کیوں نہیں چاہتا کہ پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں ہو

اگرمقصد صرف فائنل کا انعقاد ہے، پھر چاہے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں یا نہیں، تو ضرور پھر شوق سےیہاں فائنل کا انعقاد کریں۔


فہیم پٹیل February 28, 2017
کھیل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ خوشیاں بکھیرتا اور تناؤ کو کم کرتا ہے، لیکن سچ بتائیے کہ لاہور میں فائنل منعقد کرکے ماحول کو سازگار بنایا جارہا ہے یا لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کیا جارہا ہے؟

جی ہاں، آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا، میں ہرگز نہیں چاہتا کہ پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) ٹو کا فائنل اِن حالات میں پاکستان میں منعقد ہو۔ اِس پُر فضاء ماحول میں جب اکثریت اِس بات پر خوشی منارہی ہو کہ اب پاکستان کے میدان بھی ایک بار پھر آباد ہونے والے ہیں، اِس طرح کی منفی رائے قائم کرنا اور پھر اُس کا اظہار کرنا ہرگز آسان کام نہیں، لیکن ایسا کرنے کے لئے میرے پاس ایک نہیں بلکہ متعدد وجوہات ہیں، جن پر آگے جاکر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

جتنی خواہش آپ رکھتے ہیں کہ پاکستان میں کھیل کے میدان آباد ہونے چائیے، کم از کم اُتنی خواہش تو میری بھی ہے کہ وطنِ عزیز میں جلد سے جلد امن کا راج ہو اور ایک بار پھر ہمارے میدان 'پاکستان زندہ باد' کے نعروں سے گونج اُٹھیں، لیکن شاید یہ سب کچھ خواہشات اور جذبات کے بہاؤ میں بہہ جانے سے ممکن نہیں۔

ہر معاملے کی طرح فائنل کے انعقاد کے حوالے سے بھی ہم تقسیم ہوچکے ہیں۔ ہر معاملے کو مثبت پہلو سے دیکھنے والے بہت خوش ہیں کہ پہلی بار حکومت نے جُراتمندانہ فیصلہ کیا ہے، فائنل ہر حال میں پاکستان میں ہی ہونا چاہیئے تاکہ دشمن کو ہم یہ پیغام دے سکیں کہ ہم پاکستانی کسی سے ڈرنے والے اور دبنے والے نہیں، اور اگر خیر و عافیت سے فائنل منعقد ہوجائے تو پھر بہت جلد پاکستان میں ایک بار بین الاقوامی کھیل کا آغاز ہوجائے گا۔

دن میں تارے دیکھنے اور دِکھانے والوں کے برعکس ہر وقت بُرا سوچنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ سچ پوچھیئے تو اِس بار میرا بھی شمار ایسے ہی لوگوں میں ہورہا ہے، لیکن شاید اِس کی وجہ منفی سوچ نہیں، بلکہ حقیقت پسندانہ موقف ہے۔ ہم سب کو بطور پاکستانی کچھ چیزیں بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئں۔ جیسے کہ اگر پی ایس ایل کا فائنل بخیر و عافیت سے منعقد ہو بھی جائے تب بھی کوئی غیر ملکی ٹیم اُس وقت تک پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہوگی جب تک یہاں آئے روز ہونے والے بم دھماکوں کا خاتمہ نہ ہوجائے، جب تک پاکستان کے موقف کو دنیا بھر میں بہترین انداز میں پیش نہ کردیا جائے اور جب تک دنیا کو یہ باور نہ کروا دیا جائے کہ پاکستان اب ایک محفوظ ملک بن چکا ہے۔

لیکن اگر خداںخواستہ، خدانخواستہ، خدانخواستہ فائنل سے پہلے یا اُسی دن کوئی دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوجائے تو کیا ہم اندازہ بھی کرسکتے ہیں کہ اِس قسم کی کارروائی کے نتائج کس قدر خوفناک ہوسکتے ہیں؟ اِس طرح کی کارروائی کے نتیجے میں پاکستان شاید صدیوں تک بین الاقوامی کھیل کی میزبانی سے محروم ہوسکتا ہے۔

یہ باتیں اِس لئے کی جارہی ہیں کہ فائنل لاہور میں منعقد کرنے والے بھی اِس وقت شدید خوف کا شکار ہیں، ابھی جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو خبر موصول ہوئی کہ قذافی اسٹیڈیم کے گِرد دکانیں، ہوٹل اور شادی ہال آج سے ہی بند کردیے گئے ہیں، یعنی پانچ دنوں کے لئے غریب کو اُس کی روزی روٹی سے دور کردیا گیا۔ اتنے دن تک اُن کا چولہا کون جلائے گا کسی کو خبر نہیں۔ سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لئے پورے پنجاب سے پولیس نفری لاہور منگوائی جارہی ہے، جس سے شاید لاہور تو محفوظ ہوجائے، مگر جہاں سے نفری منگوائی جارہی ہے، وہاں کی حفاظت کون کرے گا؟ اِس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔

کھیل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ چہروں پر خوشیاں بکھیرتا ہے اور تناؤ کو کم کرتا ہے، لیکن سچ بتائیے کہ لاہور میں فائنل منعقد کرکے ماحول کو سازگار بنایا جارہا ہے یا لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کیا جارہا ہے، تناؤ کو کم کیا جارہا ہے یا سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اگلے پانچ دن تک شہر لاہور اور پورے پنجاب کے ماحول کو کشیدہ بنایا جارہا ہے۔

اِس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ فائنل میں پہنچنے والی دو ٹیموں میں شامل غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ انتہائی اہم نقطہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اگر ان کھلاڑیوں نے آنے سے انکار کردیا تو 50 دیگر کھلاڑیوں کی فہرست تیار ہے جن کو شامل کرنے کے حوالے سے ڈرافٹ کیا جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کھلاڑیوں کی اکثریت اِس قدر غیر معروف ہیں کہ جن کا ہم نے نام بھی پہلے نہیں سُنا۔ جناب معاملہ یہ ہے کہ اگر کراچی کنگز سے کرس گیل، کمار سنگاکارا اور کائرن پولارڈ کو الگ کردیا جائے تو کیا کھیل کا مزہ آئے گا؟ اگر کوئٹہ گلیڈئیٹرز سے کیون پیٹرسن اور رائلے روسو نکل جائیں تو کیا کھیل جم سکے گا؟ اگر پشاور زلمی میں ڈیرن سیمی، تمیم اقبال اور شکیب الحسن شامل نہ ہوں تو کیا آپ اور میں کھیل سے لُطف اندوز ہوسکیں گے اور اگر شین واٹسن، بریڈ ہیڈن اور ڈیون اسمتھ اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ نہیں رہے تو پی ایس ایل کا فائنل اپنے رنگ بکھیر سکے گا؟ پھر بتایا جارہا ہے کہ شاید غیر ملکی مبصرین فائنل کے لئے پاکستان نہ آئیں، اگر ایسا ہوا تو انٹرٹینمنٹ کا وہ ماحول بنایا جاسکے گا جو اب تک بنا ہوا ہے؟ اگر اِن سب کے بغیر ہی فائنل کھیلا گیا تو معاف کیجئے گا، یہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل نہیں بلکہ ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا فائنل کہلایا جانا چاہیئے۔

اگر مقصد یہی ہے کہ کچھ ہوجائے، بس پاکستان میں فائنل کرنا ہے تو ضرور یہ شوق پورا کیجئے، انشاءاللہ ضرور یہ کام ہوجائے گا، لیکن معاف کیجئے گا، اِس طرح سے کم از کم بین الاقوامی کرکٹ کو بحال کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوسکے گا۔

مجھے معلوم ہے کہ اِس نازک موقع پر اِس طرح کے خیالات کا پرچار مناسب نہیں، لیکن شاید یہ تلخ باتیں اتنی نقصان دہ ثابت نہ ہوں، جتنا نقصان ہمیں کسی بھی غلطی کی صورت بھُگتنا پڑسکتا ہے۔

عام طور پر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی باتیں ٹھیک ثابت ہوں، لیکن یقین کیجئے، میں اِس وقت دل سے دعا کررہا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ سب غلط ثابت ہوجائے، اور نہ صرف پی ایس ایل کا فائنل بخیر و عافیت منعقد ہوجائے بلکہ جلد از جلد غیر ملکی ٹیمیں بھی یہاں آنا شروع ہوجائیں، کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ اب بہت دل کرتا ہے کہ اپنے ہیروز کو میدان جاکر کھیلتا دیکھا جائے، اور ایک بار پھر نعرے لگائے جائیں،
''جیتا گا بھائی جیتے گا، پاکستان جیتے گا۔''

[poll id="1331"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں