فوجی عدالتوں کا معاملہ اور پیپلز پارٹی کی اے پی سی
اپوزیشن کے اس موقف کی آڑمیں حکومت نے اتفاق راے کے لیے پارلیمانی کیمٹی قائم کردی۔
ملک ایک بارپھردہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اوراس کے ساتھ ہی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پربھی آئینی، قانونی اور سیاسی بحث شروع ہوگئی ہے۔ یہ فوجی عدالتیںآرمی پبلک اسکول پشاورپردہشت گردوں کے خوفناک حملہ کے بعدجنوری2015ء میں وجودمیں آئی تھیں اور7 جنوری2017ء کودوسالہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعدختم ہوچکی ہیں۔
جیسے ہی فوجی عدالتوں کی آئینی مدت ختم ہوئی اوران کوتوسیع دینے یانہ دینے کاسوال پیداہواتوجملہ معترضہ کے طورپرپنجاب حکومت کے ایک سینئروزیرنے فوجی عدالتوں کی دوسالہ کارکردگی پربھی سوال اٹھا دیا۔ گزشتہ روزآئی آیس پی آر نے فوجی عدالتوں کی دوسالہ کارکردگی کے بارے میں باقاعدہ ایک پریس ریلیز جاری کیاجس میں کہا گیا کہ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک بھرمیں مجموعی طورپر 11فوجی عدالتیں قائم کی گئیں؛ تین پنجاب میں، تین خیبرپختون خوا میں، دوسندھ میں اورایک بلوچستان میں ۔دو سال کے دوران میں ان فوجی عدالتوں کو274 مقدمات بھیجے گئے، جوسب کے سب نمٹا دیے گئے۔ دہشت گردی کے مرتکب161مجرموں کوسزائے موت سنائی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی جانب سے صرف12افرادکی سزائے موت پرعمل درآمدہوا، باقیوں کی سزائے موت کوعمرقیدمیں تبدیل کردیاگیا۔
حکومتی نمایندے کے بیان اورآئی ایس پی آرکے جوابی بیان کے بعدیہ سمجھنا مشکل نہ تھاکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنے کے حوالہ سے حکومت پوری طرح یکسونہیں ہے۔ حکومت کایہ اضطراب اس وقت مزیدکھل کرسامنے آ گیا،جب اس نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کوحکومت اوراپوزیشن کے اتفاق ر اے سے مشروط کردیا۔ پیپلزپارٹی کے لیے اشارہ کافی تھا۔چنانچہ اس نے بھی کہناشروع کردیاکہ اتفاق راے کے بغیرفوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنادرست نہیں ہوگا۔ فوجی عدالتوں کے قیام پرپیپلزپارٹی نے پہلے بھی خوش دلی سے صادنہیں کیاتھا، بلکہ21 ویں ترمیم کی منظوری کے موقع پرچودھری اعتزازاحسن نے کہا تھاکہ انھوں نے دل پرانتہائی جبرکرکے اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالاہے، جب کہ رضاربانی باقاعدہ آبدیدہ ہوگئے۔
اپوزیشن کے اس موقف کی آڑمیں حکومت نے اتفاق راے کے لیے پارلیمانی کیمٹی قائم کردی، جس میں حکومت کے قریب ترین اتحادی رہ نماوں فضل الرحمان اورمحمودخان اچکزئی نے کھل کرفوجی عدالتوں پراپنے تحفظات ظاہر کردیے۔ اس پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھی اورظاہراًاتفاق راے کی کوئی صورت نظر نہیںآرہی تھی کہ پنجاب اسمبلی لاہوراورسیہون شریف سندھ میں دہشت گردی کی انتہائی سنگین وارداتیں ہوگیئں اورمجموعی طورپرقریب قریب اتنے ہی معصوم شہری جاں بحق ہوگئے، جتنے آرمی پبلک اسکول میں جاںبحق ہوئے تھے۔اس پرسوئے اتفاق کہ یہ دونوں وارداتیں ان ہی دوصوبوں میں وقوع پذیرہوئیں، جہاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی بلاشرکت غیرے حکومت کررہی ہیں۔
پنجاب اورسندھ دونوں صوبوں میں اس وقت رینجر آپریشنز چل رہے ہیں، جس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ دونوں حکومت امن وامان کے ضمن میں اپنی بنیادی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ لاہورمیں پی ایس ایل فائنل کی سیکیورٹی کے لیے بھی رینجرز کی خدمات حاصل کی گئی، بلکہ یہ فائنل لاہور میں کرانے کافیصلہ آرمی چیف کی طرف سے سیکیورٹی کاچیلنج قبول کرنے کے بعد ہی ہوا۔اطلاعات یہی ہیں کہ نئی پیداشدہ صورت حال ہی کانتیجہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں فضل الرحمان اورمحمودخان اچکزئی کے موقف میں کچھ نرمی آئی اورانھوں نے عندیہ دیاکہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پران کوتحفظات ضرورہیں، لیکن اگران کوسال ڈیڑھ سال کی توسیع مل جاتی ہے تو وہ اسے طوہاً وکرہاًقبول کرلیں گے۔
یہ سمجھنامشکل نہیں کہ سندھ میں رینجرزآپریشن پرپیپلزپارٹی اندرون خانہ سخت ناخوش ہے۔ ایم کیوایم کے دودھڑے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اورمتحدہ قومی موومنٹ لندن کی ناراضی بھی ظاہروباہرہے۔ مگراس میں تازہ اضافہ پچھلے دنوں پاک سرزمین پارٹی کاہوا۔ اس کی طرف سے بھی کہاجانے لگاہے کہ سندھ میںجو رینجرآپریشن تین سال پہلے چھ ماہ کے لیے شروع ہوا تھا، وہ ابھی تک چل رہاہے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ سندھ کی سیاست کے دونوں بڑے دھارے اس وقت فوجی عدالتوں کے بارے میں بوجوہ تحفظات رکھتے ہیں۔ مگران کی مشکل یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت لااینڈآرڈرقائم کرنے کی میں اتنی بری طرح ناکام ہے کہ فوجی عدالتوں پراس کے موقف کاعام شہری کوئی وزن ہی محسوس نہیں کرتا۔ ایم کیوایم بطورجماعت ویسے ہی بکھر چکی ہے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کی 4مارچ کی آل پارٹیز کانفرنس ایک معمہ بن چکی ہے۔
کیوں کہ اگر یہ آل پارٹیز کانفرنس حکومت کے ساتھ کسی مک مکاکے بعدکی جارہی تھی توملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہرکے بعدآل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم سے پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کے خلاف کوئی واضح لائن لینے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔اپوزیشن کی چارپارٹیاں، تحریک انصاف ، ق لیگ ، عوامی لیگ اورعوامی تحریک فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی علی الاعلان حمایت کرچکی ہیں۔ یہ البتہ درست ہے کہ ن لیگ ظاہری طور پراب فوجی عدالتوں کے خلاف کوئی بات نہیں کررہی،۔اس تناظر میںحالیہ آل پارٹیزکانفرنس سے فوجی عدالتوںپرموجودہ کنفیوژن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے ہی کاامکان نظرآ رہا ہے اورشاید یہی اس کامقصد بھی ہے۔
اس میں شک نہیںکہ فوجی عدالتیں دہشت گردی کے خاتمہ کاکوئی مستقل حل نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت ایشیاکا واحد ملک ہے، جہاں حالیہ برسوں میں نہ صرف یہ کہ فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، بلکہ اب ان کی توسیع کی بات بھی چل رہی ہے؛ بعینہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ریاست پاکستان کودہشت گردی کے حوالہ سے جن غیرمعمولی خطرات کاسامناہے، ان سے نمٹنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میںخودامریکا میں بھی فوجی عدالتیں بن چکی ہیں اوران کوغیرمعمولی اختیارات تفویض کیے جاچکے ہیں یہی وہ'' نظریہ ضرورت'' ہے، جس کی بناپرسانحہ پشاورکے بعدفوجی عدالتوں کے قیام کی متفقہ منظوری دی گئی تھی اور یہی وہ ''نظریہ ضرورت'' ہے کہ جس کی بناپرسانحہ لاہوراورسانحہ سہیون شریف کے بعد فوجی عدالتوں میں توسیع کامسئلہ درپیش ہے۔ مگرحیف ہے پاکستان کی سیاست پرکہ یہ مسئلہ جوحقیقتاًقومی سلامتی کامسئلہ ہے، اس پر بھی سیاست کی جارہی ہے۔ شاعرنے کہا تھا ،
مل جاتا ہے موقع خونی لہروں کو
ہاتھوں سے جب ہوتے ہیں پتوار جدا