ٹرمپ کا ایک اور سچ
ٹرمپ صحافیوں کے سالانہ عشائیہ میں شرکت سے بھی انکار کرچکے ہیں۔
نکل ہی جاتی ہے منہ سے سچی بات مستی میں۔ امریکی صدر کے بارے میں لکھے گئے اپنے کالم میں ہم نے کہا تھا کہ نئے امریکی صدر جھوٹے یا منافق نہیں لگتے، وہ جو سوچتے اور سمجھتے ہیں، جو ان کی فکر یا نظریہ ہو، برملا اظہار کر دیتے ہیں۔ چونکہ وہ پیشہ ور سیاستدان نہیں لہٰذا بغیر کسی لگی لپٹی اپنی بات کہہ ڈالتے ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ جمہوریت اور سرمایہ داریت کی اصل ہی یہ ہے جو امریکی صدارتی فرامین کے ذریعے سامنے آرہی ہے۔ امریکی صدر میڈیا کے بارے میں ایک خاص رائے رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رائے مبنی برعناد ہے۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کے تعلقات میڈیا سے خوش گوار نہیں۔ ادھر دن بہ دن میڈیا کے ساتھ نئے امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کا ناروا سلوک شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ جمعہ کے روز ایک انوکھا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، جب وائٹ ہاؤس نے میڈیا کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے آف کیمرا بریفنگ سے اہم نشریاتی اداروں کے نمایندوں کو باہر کردیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ ٹرمپ صحافیوں کے سالانہ عشائیہ میں شرکت سے بھی انکار کرچکے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس میں آف کیمرا بریفنگ کو یہ لوگ ''گیگل'' کا نام دیتے ہیں۔ اب سے قبل کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا، یہاں تک کہ اوباما دور میں بھی جب فاکس نیوز پر بعض پابندیاں عائد کی گئی تھیں، لیکن فاکس نیوز کو کسی بھی بریفنگ سے باہر نہیں کیا گیا تھا۔ سی این این کہتا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہمیں سچائی اور احتساب کی پاداش میں سزا دی جا رہی ہے۔
''گیگل'' کہلانے والی غیر رسمی بریفنگ سے قبل وہائٹ ہاؤس کے اہلکاروں نے سی این این، نیویارک ٹائمز، بی بی سی اور دوسرے کئی بڑے میڈیا ہاؤسز کے صحافتی نمایندوں کو باہر نکال دیا۔ یہ بریفنگ بھی مرکزی پریس روم کے بجائے ایک چھوٹے کمرے میں دی گئی۔ پریس سیکریٹری وہائٹ ہاؤس، شون اسپائسر سے جب پوچھا گیا کہ کچھ پریس والے مدعو ہیں اور کچھ مدعو نہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ایسا رپورٹرز کے پول کو وسیع کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ نیز کہا کہ وہائٹ ہاؤس جعلی خبروں کے خلاف جارحانہ اقدامات کر رہا ہے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس، یو ایس اے ٹوڈے اور ٹائم میگزین نے گیگل (بریفنگ) کا بائیکاٹ کیا۔ دوسری جانب امریکی صدر بار بار میڈیا کو جھوٹا اور امریکی دشمن قرار دے چکے ہیں۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ رواں مہینے کے دوران بھی ہوا، جب ڈونلڈ ٹرمپ فلوریڈا کے شہر ملبرن میں ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ یک بہ یک آپ نے میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا کہ میڈیا بد دیانت ہے، وہ سچ چھپا رہا ہے اور یکے بعد دیگرے جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے، اس کا اپنا ایجنڈا ہے، میڈیا سچ کو سامنے لانا نہیں چاہتا۔ نیز امریکی صدر نے سفری پابندی سے متعلق عدالتی فیصلے کا تمسخر اڑایا، ججز کے ریمارکس پڑھ کر صفحہ ہوا میں اڑا دیا۔
امریکی صدر کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کیا واقعی میڈیا کا اپنا ایجنڈا ہے؟ میڈیا سچ کو سامنے نہیں لانا چاہتا؟ وہ جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے وغیرہ۔ سوالات نہایت اہم ہیں۔ آئیے اس حوالے سے 2 اور اہم شخصیات کی آراء کا جائزہ لیا جائے۔ ایڈورڈ لوئی جیمز برنیز، سگمنڈ فرائیڈ کے بھانجے ہیں۔ آپ کو بابائے ''تعلقات عامہ'' کہا جاتا ہے۔ فن رائے سازی میں بھی آپ کا شاید ہی کوئی مقابل ہو۔
آپ اپنی شہرہ آفاق کتاب ''پروپیگنڈا'' میں لکھتے ہیں ''جمہوریتوں میں دانستہ طور پر عوام کی منظم عادات و آرا کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ معاشرے کے وہ افراد جو خفیہ طور پر رائے عامہ کی تبدیلی کا موجب بنتے ہیں، کسی بھی ملک کے اصل حکمران وہ ہی ہیں۔ ہم غلام ہیں، ہمارے ذہن ڈھالے جاچکے ہیں، مزاج تبدیل کردیے گئے ہیں، نظریات بنادیے گئے ہیں۔ ایسا ان لوگوں نے کیا ہے جن سے ہم ناواقف ہیں، جن کا ہم نے کبھی نام بھی نہیں سنا۔ یہ ہونا ہی تھا، یہ منطقی نتیجہ ہے جمہوری طرز معاشرت کا۔''
یہ اقتباسات پتہ دیتے ہیں کہ افراد کی ذہن سازی کس طرح کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ذہن سازی میں میڈیا کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ برنیز وغیرہ یہ سب کیسے کرتے ہیں۔ یہ ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ بیسویں صدی سے قبل تمباکو نوشی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ 17 ویں اور 19 ویں صدی عیسوی میں ڈچ مصور تمباکو نوشی کو انسانی حماقت کی علامت کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ عورت کے لیے تو یہ سخت معیوب تھا کہ وہ سگریٹ پیے۔ نچلے طبقے کی یا پھر پیشہ کرنے والی عورتیں ہی سگریٹ کو ہاتھ لگاتی تھیں۔
کئی امریکی ریاستوں میں خواتین کی تمباکو نوشی غیر اخلاقی، نیز غیر قانونی بھی تھی۔ 1904ء جینی لیشر نامی خاتون کو محض اس لیے 30 دن جیل کی ہوا کھانی پڑی کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے سگریٹ پیتی تھی، جس کی وجہ سے بچوں کے اخلاق پر برا اثر پڑتا تھا۔ 1908ء میں نیویارک کے بڑے بوڑھوں نے یہ قرارداد منظور کی کہ عورتیں عام مقامات پر تمباکو نوشی نہیں کرسکتیں۔ 1912ء میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں ایک بل خواتین کی تمباکو نوشی پر پابندی کے لیے تجویز ہوا۔ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کے لیے یہ خسارے کی بات تھی کہ خواتین سگریٹ نہیں پیتیں۔
1928ء میں جارج واشنگٹن ہل نے جو امریکن ٹوبیکو کمپنی کے صدر تھے، برنیز کی خدمات حاصل کیں۔ برنیز نے پہلا کام یہ کیا کہ خواتین کی تمباکو نوشی کے اخلاقی جواز کو پامال کیا۔ اس وقت تک خواتین کھلے بندوں سگریٹ نہیں پیتی تھیں۔ برنیز نے ایک اہم ثقافتی موقع یعنی ''ایسٹر سنڈے پریڈ'' پر کرائے کی خواتین سے تمباکو نوشی کروائی۔ یہ 1929ء کے ایسٹر کی بات ہے، شہر ہے نیویارک۔ یہ پہلا موقع تھا جب خواتین نے کھلے بندوں تمباکو نوشی کی۔ اسے خواتین کی آزادی اور برابری کی علامت بتایا گیا۔ مجسمۂ آزادی کی نسبت سے تمباکو کی سلگتی چھڑی کو آزادی کی مشعل سے تعبیر کیا گیا۔ دل کش لباس زیب تن کیے دلربا اداؤں سے پی گئی سگریٹوں کی مشاق فوٹو گرافرز نے تصویریں لیں اور پھر میڈیا نے جہان بھر میں مشعل آزادی کی ہوا چلا دی۔ اخلاق و قانون دھرے رہ گئے۔ تمباکو نوشی عام ہوتی چلی گئی۔ آج امریکا میں 13.6 فیصد خواتین سگریٹ پیتی ہیں اور خیر سے 201,773 امریکی خواتین ہر برس لقمہ اجل بنتی ہیں۔ یہ ہے پرو پیگنڈا اور یہ ہے میڈیا۔
برنیز کے کارنامے بہت ہیں، جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے، ہم تو صرف وہ رائے سامنے لانا چاہتے ہیں جو برنیز کی میڈیا کے حوالے سے ہے۔ نوم چومسکی بھی ایک خاص رائے کے حامل نظر آتے ہیں۔ آج کے فلسفہ میں آپ کا اونچا مقام ہے۔ متعلقہ موضوع پر آپ کی کتاب کا نام ہے ''میڈیا کنٹرول: دا اسپیکٹاکیولر اچیومنٹس آف پروپیگنڈا''۔ اس کتاب میں آپ نے رائے سازی اور جمہوریت کے بارے میں 5 اہم سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ آپ بھی میڈیا سے نالاں ہیں۔ کہتے ہیں کہ میڈیا کا کام اطلاعات پہنچانا نہیں، بلکہ گمراہ کرنا ہے۔ وہ اہم معاملات سے عوامی توجہ کہیں اور منعطف کردیتے ہیں۔ اطلاعات کا ایک سیلاب ہے جو عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں سب کچھ بہہ جاتا ہے۔
اس موقع کا ایک اہم سوال جس کی جانب التفات کم نظر آتا ہے، شاید یہ بنتا ہے کہ میڈیا کے بارے میں امریکی صدر کی رائے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے متشددین اور بنیاد پرستوں کی رائے کی بازگشت کے علاوہ کیا کچھ اور بھی ہے؟