ایم کیو ایم کے قائد کا سیاسی ڈرون حملہ

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان آنے کا اعلان نہیں کریں گے۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان آنے کا اعلان نہیں کریں گے۔ فوٹو: فائل

پورے ملک کی طرح سندھ کے لوگ بھی اس بات کا شدت سے انتظار کررہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کا سیاسی ڈرون حملہ کیا ہوتا ہے۔

اگرچہ الطاف حسین کا کہنا ہے کہ اس سیاسی ڈرون حملے میں ایک دو روز کی تاخیر ہوسکتی ہے لیکن لوگوں کے انتظار کی شدت کم نہیں ہوئی۔ الطاف حسین کے خلاف سپریم کورٹ میں 7 جنوری کو توہین عدالت کیس کی سماعت سے قبل یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ ایم کیو ایم کے قائد پاکستان واپسی کا اعلان کرسکتے ہیں لیکن الطاف حسین نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور توہین عدالت کا نوٹس خارج ہوگیا ۔ اس طرح یہ قیاس آرائی بھی دم توڑ گئی کہ الطاف حسین سپریم کورٹ میں پیش ہونے کو جواز بناکر لندن چھوڑ سکتے ہیں۔

اگر الطاف حسین وطن واپس آنے کا اعلان کرتے تو یہ ان کا سب سے بڑا سیاسی ڈرون حملہ ہوتا لیکن اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کا وطن واپسی کا کوئی پروگرام نہیں۔ ویسے بھی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الطاف حسین اتنے شارٹ نوٹس پر پاکستان آنے کا اعلان نہیں کریں گے۔ جب وہ آئیں گے تو ان کا بھرپور استقبال کیا جائے گا ۔ابھی ان کی واپسی کا وقت نہیں آیا ہے ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی ڈرون حملہ کیا ہوسکتا ہے ؟ ایم کیو ایم کے قائدین یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ یہ سیاسی ڈرون حملہ حکومت سے علیحدگی کی صورت میں بھی نہیں ہوگا۔

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینراور وفاقی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا سیاسی ڈرون حملہ خوشگوار حیرت کا تحفہ ہوگا۔ فاروق ستار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ خوشگوار حیرت کس کے لئے ہوگی جبکہ ڈرون حملے کی اصطلاح سے عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اس حملے کا نشانہ کوئی نہ کوئی تو ہوگا۔ اس وقت تک صرف اندازے قائم کئے جارہے ہیں کہ اس حملے کا نشانہ کون ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں اپنے قیام کو طول دے دیا ہے اور ایوان صدر اسلام آباد کے بجائے بلاول ہاؤس کراچی کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں ۔کراچی میں قیام کی وجہ سے سندھ کی صورتحال پر انہیں خصوصی توجہ دینے کا موقع ملا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ پورے ملک کے معاملات کو یہاں سے کنٹرول کررہے ہیں لیکن بلاول ہاؤس میں ان کی موجودگی کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کی ان تک رسائی نسبتاً آسان ہوگئی ہے۔


اس بات کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران انہوں نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں طاقتور اپوزیشن پیدا نہیں ہونے دی ۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) یا مسلم لیگ (ق) جیسی کوئی ایسی سیاسی جماعت سندھ میں قدم نہیں جماسکی ہے جو وفاقی سطح کی جماعت ہو یا جسے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہونے کا تاثر موجود ہو۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں منظم کیا گیا تھا ۔ یہ جماعت اب سندھ میں تقریباً ختم ہوگئی ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے گیارہ ارکان سندھ اسمبلی اور دو ارکان قومی اسمبلی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ سندھ سے اب اس جماعت کی کوئی پارلیمانی نمائندگی نہیں رہی ۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں مسلم لیگ (ن) کو منظم کیا گیا تھا۔2008ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو سندھ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں ملی تھی ۔ اس مرتبہ سندھ میں غیر معمولی اور غیر روایتی سیاسی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ سندھ کے جو بااثر سیاستدان ہر الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی کی مخالف کسی سیاسی جماعت میں چلے جاتے تھے، وہی سیاستدان اس دفعہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ان سیاستدانوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ بعض طاقتور قوتوں کے اشارے پر چلتے ہیں۔

ان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ ان قوتوں کی پاکستان کی سیاست میں یا تو مداخت کم ہوگئی ہے یا پھر ان قوتوں نے خود ان سیاستدانوں کو پیپلزپارٹی میں شامل کرایا ہے ۔ ماضی میں عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ حکمران جماعت کو انتخابات سے قبل وہ سیاستدان اکثر چھوڑدیتے ہیں جو اگلی حکومت میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو دوسری مرتبہ حکومت نہیں دی جائے گی لیکن سندھ میں اس مرتبہ اس روایت کے برعکس ہوا۔

سندھ کے ان بااثر سیاستدانوں نے جو انتخابات میں سیٹیں جیت سکتے ہیں، دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے لوگ یہ انداز ہ لگارہے ہیں کہ شاید اگلی مرتبہ بھی پیپلزپارٹی کی حکومت بننے والی ہے ورنہ ٹھٹھہ کے شیرازی ،نوشہروفیروز کے سید،لاڑکانہ کے انڑ اور گھوٹکی کے مہر پیپلزپارٹی میں شامل نہ ہوتے ۔سیاسی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر نگران حکومت کے دوران کوئی گربڑ نہ ہوئی تو سندھ کے اکثر علاقوں میں الیکشن یک طرفہ ہوگا۔

صدر آصف علی زرداری نے سندھ میں اس کے لئے انتخابی حکمت عملی کو حتمی شکل دینا شروع کردی ہے ۔ انہوں نے اگلے روز پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کے ساتھ اجلاس منعقد کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام جلد ازجلد مکمل کرلیں ۔ انہوں نے ہر رکن سندھ اسمبلی کے حلقوں میں ہونے والے کاموں اور خود ارکان کی کارکردگی کی رپورٹس بھی طلب کرلی ہیں ۔صدر آصف علی زرداری نے سندھ کے ہر ضلع کے پیپلزپارٹی کے عہدیداروں ،ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ممکنہ ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ اجلاس بھی منعقد کرنا شروع کردیے ہیں ۔ پہلا اجلاس ضلع گھوٹکی کے لوگوں کے ساتھ منعقد کیا اور اس ضلع میں انتخابی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
Load Next Story