اے این پی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لئے متحرک

اے این پی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اے پی سی کے انعقاد کے لیے سرگرم ہے


Shahid Hameed January 08, 2013
یقینی طور پر اس کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ حالات میں اے این پی ہی کو ہوگا۔ فوٹو: فائل

عوامی نیشل پارٹی بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں دہشت گردی کا ہر صورت خاتمہ چاہتی ہے جس کے لیے اے این پی کے سربراہ نے کھل کر مرکز کو پیغام دے دیاہے کہ قبائلی علاقہ جات چونکہ مرکز کے کنٹرول میں ہیں۔

اس لیے مرکز اور اس کے کنٹرول میں ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے، اس کے لیے اے این پی کی خصوصی توجہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور عسکری قیادت پر ہے کیونکہ اے این پی چاہتی ہے کہ موجودہ صورت حال کے حوالے سے وہ میاںنواز شریف کو آن بورڈ کرے ، اسی سلسلے میں اے این پی کے رہنما اعظم ہوتی جو شریف برادران کے قریب سمجھے جاتے ہیں کو خصوصی طور پر یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ شریف برادران کو اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنائیں۔

میاں نواز شریف نے اپنے دورہ پشاور کے موقع پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی کی حمایت تو کردی ہے اور اس اقدام کو خوش آئند بھی قراردیا ہے، تاہم اس حوالے سے اے این پی کو مسلم لیگ(ن)کے قائد کے ساتھ باقاعدہ نشست کرتے ہوئے انھیں صورت حال میں ساتھ شریک ہونے کے لیے راضی کرنا ہوگا کیونکہ اے این پی موجودہ سیٹ اپ میں خیبرپختونخوا میں حکومت اور مرکز میں پی پی پی کی اتحادی ہے اور مسلم لیگ(ن)حکومتی پالیسیوں کی ناقد ہے ۔

اے این پی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اے پی سی کے انعقاد کے لیے سرگرم ہے اور مسلم لیگ(ن) کے علاوہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی اے پی سی میں شرکت کے لیے آمادہ کرنے کی غرض سے پارٹی کے مختلف رہنمائوں کو ٹاسک حوالے کیا جاچکا ہے جس کے تحت وہ کام بھی شروع کرچکے ہیں، جبکہ اے این پی کے قائد اسفندیارولی خان ،وزیراعظم کی جانب سے ان کے ساتھ رابطے سے قبل اپنے طور پر بھی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرچکے ہیں جس میں انہوں نے مرکز پر واضح کردیا ہے کہ مرکز مذاکرات کی راہ اختیار کرتے ہوئے عسکریت پسندو ںکے ساتھ معاملات کو سلجھائے تاکہ پورا ملک عمومی اور خیبرپختونخوا خصوصی طور پر جن حالات کا شکار ہے اس سے نکل سکے ۔

یقینی طور پر اس کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ حالات میں اے این پی ہی کو ہوگا۔ تحریک منہاج القران کے ڈاکٹر طاہر القادری کے لاہور اور کراچی میں بڑے جلسوں اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے اعلان نے سیاسی پارٹیوں میں بھی الیکشن کے حوالے سے کنفیوژن پھیلا دی ہے، اس کنفیوژن کی وجہ سے ممکنہ طورپر اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی بھی تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے۔

عام انتخابات کا اعلان نہ ہونے کے باعث سیاسی جماعتیں پہلے ہی سے کھل کر میدان میں نہیں آرہیں اورجماعت اسلامی کے علاوہ تاحال کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے امیدوار سامنے نہیں لائی ،جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی حد تک وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے آئندہ حکومتی سیٹ اپ کے لیے اپنی جماعت کی جانب سے شیڈو کابینہ کا اعلان کیا ہوا ہے جس میں انہوںنے سابق سینئر وزیر اور جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق کو وزارت اعلیٰ کے عہدہ کے لیے نامزد کررکھا ہے تاہم جہاں تک دیگر جماعتوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے امیدوار سامنے نہیں لارہیں کیونکہ تمام جماعتوں کی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہ ہونے کے باوجود اگر انہوں نے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا تو اس سے خود ان کی پارٹیوں کے اندر مسائل پیدا ہوں گے اور وہ لوگ جو ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کے لیے مسائل بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے تمام پارٹیاں اس انتظار میں ہیں کہ حکومت کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ کا اعلان کیاجائے تو اس کے بعد ہی وہ اپنے امیدواروں کا اعلان کریں گی ۔

تحریک انصاف بھی انہی پارٹیوں میں شامل ہے جو اب تک اپنے امیدواروں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکی کیونکہ تحریک انصاف اب تک پارٹی الیکشن کے عمل میں پھنسی ہوئی ہے اور جنوری کے وسط تک پی ٹی آئی میں تحصیلوں اور اضلاع کی سطح پر پارٹی تنظیم سازی کا عمل مکمل ہوگا جس کے بعد ریجنل اور صوبائی سطح کے پارٹی انتخابات ہوں گے اور یہ عمل ممکنہ طور پر فروری میں جاکر مکمل ہوگا جس کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کو امیدواروں کے انتخاب جیسا کڑا مرحلہ درپیش ہوگا ،کیونکہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے پرانے اور نئے ، ہر کوئی ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھا ہے اوریہ پالیسی پی ٹی آئی کی قیادت کے انتخاب کے بعد ہی واضح ہوسکے گی کہ نئے کتنے چہروں کو آگے لایاجاتا ہے اور کتنے پرانے چہرے میدان میں آتے ہیں۔

قاضی حسین احمد چونکہ ایم ایم اے کے آخری صدر بھی تھے اور ان کی خواہش بھی تھی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ایم ایم اے بحال ہوجائے اس لیے ان کی زندگی میں اس بات کی امید تھی کہ جماعت اسلامی کی ایم ایم اے میں واپسی ہوجائے گی تاہم قاضی حسین احمد کے انتقال کے بعد اب جماعت اسلامی کی ایم ایم اے میں واپسی اور جے یو آئی (ف)کے ساتھ مل بیٹھنے کی امیدیں کم ہوگئی ہیں ،اب امکانات یہی نظر آرہے ہیں کہ ایم ایم اے کی بحالی جماعت اسلامی کے بغیر ہی ہوگی اور جماعت اسلامی تحریک انصاف یا مسلم لیگ(ن)کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے انتخابات کے لیے میدان میں جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔