ریکوڈک معاہدے کے خلاف بلوچستان حکومت کی کامیابی

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ معاہدہ ملک کے معدنیات قوانین اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف ہے۔


Arif Mehmood January 08, 2013
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ معاہدہ ملک کے معدنیات قوانین اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف ہے۔ فوٹو فائل

سپریم کورٹ کی جانب سے ریکوڈک معاہدے کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے بلوچستان حکومت کے حق میں فیصلہ بلوچستان حکومت کیلئے نئے سال کی پہلی بڑی خوشخبری ہے،صوبائی حکومت کے جاندار اور واضح موقف کی بناء پر حکومت کے حق میں فیصلہ آیا۔

سپریم کورٹ نے غیر ملکی کمپنی کے خلاف درخواستیں بھی منطور کرلی ہیں۔ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے16صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمی نے ریکوڈک معاہدہ کوکالعدم قراردیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ بلوچستان حکومت کا کہنا تھا کہ اس وقت کی مشرف حکومت کے گورنرنے خود سے ہی فیصلہ کرلیا تھا ،کسی غیرملکی کمپنی کوحق نہیں کہ اس سے ریکوڈک معاہدہ کیا جائے۔ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ معاہدہ غیرقانونی تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ مختصر فیصلہ ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا تفصیلی فیصلے کے بعد غیرملکی کمپنیاں عدالت میں نظرثانی کی اپیل کرسکیں گی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ معاہدہ ملک کے معدنیات قوانین اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کونکالنے کے منصوبے کانام ریکوڈک ہے۔ جولائی 1993میں وزیراعلی بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کاٹھیکا آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔

33لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہد ہ صرف ڈرلنگ کیلئے ہواتھا تاہم آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کیلئے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ ملنا تھا۔ بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔

بلوچستان حکومت نے دوہزار دس میں یہ بھی فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی بلکہ گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جس کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں ریفائنری کیلئے850 ارب روپے رکھے گئے ہیںاور اس سے دوہزار افراد کو براہ راست ملازمتوں کے مواقع ملیں گے، جبکہ دولاکھ افراد کیلئے مزید ملازمتیں اس منصوبے سے میسر ہوں گی۔ منصوبے کو چلانے کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹر قائم کردیاگیا ہے جس کے چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان اورڈاکٹر ثمر مبارک سربراہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے غیر ملکی کمپنی نے معاہدے کے مطابق جو کام کرناتھا وہ بھی نہیں کرسکتی تھی۔

کمپنی کو منصوبے کی تین سال مین فزیبلٹی رپورٹ تیارکرنا تھی لیکن کمپنی نے پندرہ سال میں صرف پانچ مربع کلومیٹر کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کی۔ موجودہ حکومت نے منصوبے کی مکمل فیزیبلٹی رپورٹ صرف تین سال کے عرصے میں تیار کی، سابق حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا اس دور میں بیان سامنے آیا تھاکہ ریکوڈک منصوبے کے ذخائر ایک ہزارملین ڈالر ہیں جبکہ کمپنی نے یہ ذخائر پانچ سو ملین ڈالر کے شو کئے۔

کمپنی ان ذخائر کو پیسنے کے بعد دالبندین سے گوادر پورٹ تک لیکیوڈکر کے پائپ لائن کے ذریعے پہنچا کر اسے دوسرے ممالک میں ریفائن کرنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن صوبائی حکومت یہ چاہتی تھی کہ ریفائن کرنے کا عمل بھی یہیں ہو اس سے اس ملک اورصوبے کے عوام کو فائدہ ملے۔ مذکورہ کمپنی نے اب تک ایکسپلوریشن پر230ملین ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد75 فیصد خود لے کر بلوچستان حکومت کو صرف25 فیصد دینا چاہتی تھی جس پر موجودہ حکومت نے یہ اعتراض اٹھایاکہ یہ عوام کے مفاد کے خلاف ہے۔ منصوبے پر کام کیلئے کمپنی بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل میں بھی گئی جہاں پر یہ معاملہ زیر التواء ہے۔

ریکوڈک معاہدے کو سب سے پہلے جماعت اسلامی بلوچستان نے عدالت عالیہ بلوچستان میں چینلج کیاتھا جس پر فیصلہ جماعت اسلامی کے حق میں نہیں آیا تواس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اس دوران بلوچستان کی موجودہ حکومت نے بھی معاہدے کو ختم کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ بلوچستان حکومت نے کوڑیوں کے دام ہونے والے معاہدے کا کیس توجیت لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ریکوڈک منصوبے کو کس طرح چلایاجاتاہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں