بھارتی ضلع دھولیہ میں فسادات چشم کشا بھونچال

بھارتی فوج میں بھی ایک طاقتور عنصر چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہ ہو سکیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارت دہشت گردی‘ عورتوں پر تشدد مسلم فسادات کے خاتمے اور جنسی جرائم کی روک تھام میں اب تک کیا اقدامات اٹھا چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع دھولیہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس فائرنگ سے 6مسلمان شہید اور80 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ۔ زخمیوں میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مشہور صنعتی شہر دھولیہ میں مسلم رکشا ڈرائیور کی ہجوم کے ہاتھوں پٹائی کے بعد واقعہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگیا۔ بھارت میں مقیم مسلمانوں کے خلاف بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے امتیازی اور متعصبانہ سلوک کے باعث ہونے والے فسادات اس اعتبار سے افسوس ناک ہی ہیں کہ ان میں ہمیشہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

ماضی میں احمد آباد ، بڑودہ اور گزشتہ برسوں میں گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس کے اندوہ ناک سانحے ہندو مسلم فسادات کی تاریخ کا درد انگیز باب ہیں جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا بھارت دہشت گردی' عورتوں پر تشدد مسلم فسادات کے خاتمے اور جنسی جرائم کی روک تھام میں اب تک کیا اقدامات اٹھا چکا ہے،جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کی نئی دہلی میں 16 دسمبر کی شب ایک ہندو لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کے خلاف پوری انڈین سول سوسائٹی میں بھونچال سا آیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس التمش کبیر نے اسے جسمانی بربریت اور قومی ضمیر پر سیاہ دھبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس المناک واقعہ نے قومی و بین ا لاقوامی سطح پر دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔ مغربی میڈیا نے بھی بھارت میں عورتوں پر جنسی تشدد کے حوالہ سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مسئلہ در اصل بھارت اور پاکستان کو درپیش رواداری کے فروغ اور ظلم کے خلاف ایکش لینے کا ہے ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ دونوں ملکوں کو ان انتہا پسندوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جو امن اور دو طرفہ ترقی کے دشمن ہیں ۔


بھارت اور پاکستان میں ایسے اندر کے عناصر کم نہیں جو دہشت گردی اور فساد ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔بابری مسجد،سمجھوتہ ایکسپریس، اور گجرات سانحے کی طرح دھولیہ میں بھی پولیس اور سرکار کی غلطیاں چھپانے کی کوشش کاالزام لگایا گیا ۔بھارت میں فرقہ پرست عناصر طاقتور ہیں۔ وہ سیاست میں بھی موجود ہیں اور سرکاری اداروں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اسی لیے فسادات کی تحقیقات کی جو رپورٹیں شایع ہوتی ہیں ان میں بھی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔

بھارتی فوج میں بھی ایک طاقتور عنصر چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہ ہو سکیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں اس طاقت ور عنصر کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ یہی مائنڈ سیٹ پاکستانی چوکی پر بلاجواز فائرنگ کے پس منظر میں بھی نظر آتا ہے جس پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا ہے۔اس معاملے میں پاکستان کا ردعمل فطری ہے کیونکہ کوئی بھی ملک یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کی بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی جائے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پیر کو اسلام آباد میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور ان سے بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی چوکی پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعے پر احتجاج کرکے باقاعدہ مراسلہ حوالے کیا گیا۔

بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو کہا گیا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اتوار کو بھارتی فوج نے آزادکشمیر میں کنٹرول لائن پر حاجی پیر سیکٹر میں دراندازی کرتے ہوئے سواں پتراں پوسٹ پر بلا اشتعال فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی زخمی ہوئے تھے جن میں سے ایک فوجی لانس نائیک اسلم بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے، اس کارروائی کے بعد بھارتی فوج ہتھیار چھوڑ کر پسپا ہوگئی لیکن لائن آف کنٹرول پر آخری اطلاعات آنے تک جھڑپ جاری تھی اور دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔

ہمارا استدلال یہ ہے کہ پاک بھارت قیادت کو عصری تقاضوں ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے کی سماجی صورتحال پر اپنی پالیسیوں کا رخ ان عناصر کی طرف موڑنا ہوگا جو جمہوری رویوں کے دشمن ہیں، خود ساختہ غیر انسانی ایجنڈا رکھتے ہیں اور پاک بھارت تعلقات کو دہشت گردی، فرقہ واریت ، مذہب، عقیدہ، زبان اورعلاقائی تعصبات کی بنیاد پر عوام میں نفاق ، عدم تحفظ اورنفرت پیدا کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں کے عوام امن ،علاقائی ترقی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شراکت دار ہیں، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہ تھا اس لیے پاکستان کا حق بنتا ہے کہ وہ بھارت سے احتجاج کرے ۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملک اس بات کا پختہ عزم کریں کہ وہ سماج کے اندر بدامنی ، تشدد اور فساد انگیزی پر کمربستہ عناصر کی مکمل حوصلہ شکنی کریں گے۔اسی میں خطے کا فائدہ ہے۔
Load Next Story