بشرطیکہ

ملک و قوم کی بھلائی قانون کی حکمرانی کے سوا کسی چیز میں نہیں۔

zahedahina@gmail.com

24 جولائی 2012 کو ہمارے تمام اخبارات میں وہ تصویر شایع ہوئی جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ریٹائرڈچیف جسٹس فخر الدین جی ابراہیم سے چیف الیکشن کمشنر کا حلف لے رہے ہیں۔ اس روز حلف لینے کے بعد جناب فخر الدین ابراہیم نے الیکشن کمیشن کے عہدیداروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین اورانتخابی قوانین رکھتے ہیں جو آنے والے دنوں میں ہماری رہنمائی کریں گے۔ اس روز انھوں نے کہا تھا کہ آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے نئی نسل کو ایک منتخب جمہوری حکومت دینا ان کا خواب ہے۔ الیکشن کمیشن ہی وہ ادارہ ہے جو اس خواب کو تعبیر دے سکتاہے۔

اس روز انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جمہوریت ایک فلسفہ ہے جسے اختیار کرکے ہم انتخابات کے عمل سے گزرکر جمہوری نظام کو حاصل کرسکتے ہیں۔ جناب ابراہیم کی دیانت اور شفاف انتخابات کو ممکن بنانے کے عزم پر ان کے دشمنوں کو بھی اعتبار ہے، اسی لیے مختلف پینتروں سے انتخابات کو ملتوی کرانے ، عبوری مدت کے لیے ٹینکو کریٹ حکومت کو اقتدار سپرد کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ 'اسٹیٹس کو' کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرنے والے خود ''اسٹیٹس کو'' کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ چند دنوں سے ملک میں وہ مال باہر سے آیا ہے جس نے اپنی دولت اور اپنی خطابت کے زور پر ایک انتشار سا پھیلا دیا ہے۔ ایسے لوگ جو شاید پنچایتی انتخابات میں بھی کامیاب نہ ہوسکتے ، ہاتھ لہرا کر پانچ برس مکمل کرنے کے قریب پہنچنے والی حکومت کو یوں ''احکامات'' دے رہے ہیں جیسے وہ مسیحا یا اَن داتا ہوں۔

موجودہ حکومت کی نااہلیوں اور بری طرز حکمرانی کے بارے میں گفتگو ہوسکتی ہے لیکن یہ حق عوام کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ایک ایسی حکومت کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کریں جو ان کے مسائل حل نہ کرسکی اور جس نے ان کی زندگی کو تلخ تر بنا دیا۔ ٹیلی ویژن اشتہاروں پر کروڑوںروپے خرچ کرکے یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ وہ کسی چھاتہ بردار کی طرح ہم پر نازل ہو اور آئین، پارلیمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن، ہر قومی ادارے کو نظر انداز کرتے ہوئے اور بعض حالات میں ان اداروں کا تمسخر اڑاتے ہوئے اپنے آپ کو 'مسیحِ دوراں' کے طور پرپیش کرے۔

اسی انتشار اور خلفشار کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب نے دو دن پہلے بروقت لوگوں کو یہ بات یاد دلائی کہ عوام میں اپنے حقوق کے لیے شعور بیدار ہوچکا۔ اب کوئی جمہوریت پر شب خون نہیں مار سکتا، انتشار پھیلانے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت نہ کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وکلاء تحریک کا نتیجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت رواں دواں ہے اور اب کوئی جمہوریت ختم نہیں کرسکتا اور اگلے انتخابات کے ذریعے آنے والے لوگ ہی ملکی نظام کو چلائیں گے۔ پاکستان کے وکلاء اور عوام جانتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا تحفظ کس طرح کرنا ہے۔

اب ملک میں کسی بھی صورت کو غیر آئینی اقدام نہیں ہوسکتا بلکہ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا۔ ملک میں جمہوریت کا قیام اور آمر کا کرسی چھوڑ کر بھاگ جانا، وکلاء تحریک کا نتیجہ ہے۔ ہر شخص پر ریاست کا وفادار رہتے ہوئے آئین کی پاسداری لازم ہے اور آئین کے تحت کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں بن سکتی جس سے ملک میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ آئین کی حکمرانی کے باعث ہی پہلی بار جمہوری حکومت اپنا دور مکمل کرنے جارہی ہے اور کسی آمر کو شب خون مارنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں سے آئین کے مطابق نمٹا جائے گا۔

ملک و قوم کی بھلائی قانون کی حکمرانی کے سوا کسی چیز میں نہیں۔ ریاست کے دیگر ادارے فرائض کی انجام دہی کے لیے وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے فرائض قانون اور آئین کے مطابق انجام دیں۔ اعلیٰ عدالتوں نے اپنے تمام فیصلوں میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی قائم کرنے کی مثال قائم کی ہے جس سے دیگر عدالتوں کو یہ اعتماد مہیا کیا گیا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ طور پر آئینی اقدار کو آگے لے کر چلیں۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ملک دشمن عناصر مذہبی اشتعال پیدا کرکے اور شدت پسند نظریات کو فروغ دے کر معصوم لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کے تکمیل میں استعمال کرسکتے ہیں۔ وکلا عوام کو صحیح راہ دکھلائیں اور ترقی کے آئینی راستوں کا ادراک کریں۔

وکلاء اپریل 2013 میں قومی کانفرنس برائے انصاف میں شرکت کریں اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے مفید تجاویز پیش کریں۔ بدقسمتی سے حکومت نے ملک کی عدالتی نظام کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے یا اس میں مضبوطی لانے اور ججوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ آئین کے آرٹیکل 37 (d) کے تحت ریاست پر لازم ہے کہ وہ عوام کو بطور احسان نہیں بلکہ اس کے بنیادی حق کے طور پر سستا اور فوری انصاف مہیا کرے۔ تاہم اس شق پر آئین کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جارہا ہے۔


انھوں نے یاد دلایا کہ شہریوں کی عزتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے، اب اس ملک میں آئین کے تحت ان تمام لوگوں کو تحفظ حاصل ہوگا جو ریاست اور ملک کے ساتھ وفادار ہوں گے، ان کا کہنا تھا ملک میں جب بھی بہتری کے لیے تحریک کا آغاز ہوا خواہ وہ83 ہو،2007 یا 2009 کی تحریک ہو اس کی ابتداء لاہور ہی سے ہوئی ہے۔ ملک اور اس کے اداروں کی مضبوطی صرف قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری اور آزادعدلیہ کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2 اے کے تحت ملک میں حکمرانی صرف منتخب نمایندوں کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے اور 1973 کے آئین نے 19 کروڑ عوام کو یہ حق دیا ہے اور اس کا تحفظ بھی دیا ہے۔ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کو منتخب کریں اور کسی ایسی پارٹی کی حمایت نہ کریں جو ملک میں انتشار پھیلانے کا سبب بنے، پاکستان میں ابھی لازمی ووٹ دینے کا قانون نہیں بنا جب کہ دنیا کے متعدد ملکوں میں یہ قانون موجود ہے، اس قانون کی وجہ سے ملک اور ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔

ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ دو ٹوک موقف تھا اور دوسری طرف ہمارے چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اولین ترجیح آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ ہمارے دو اہم ترین افراد کا نقطہ نظر ہے جو اس وقت ملک میں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے، اس کی تقدیر سنوارنے اور آزاد و شفاف انتخابات کرانے کے ذمے دار ہیں۔ ایک طرف عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا موقف ہے، دوسری طرف پارلیمنٹ میں موجود اور پارلیمنٹ سے باہر وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو پارلیمانی نظام حکومت پر یقین رکھتی ہیں اور اسی کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچ کر آئینی اور جمہوری طریقے سے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی خواہشمند ہیں اور تیسری طرف وہ حضرات ہیں جن کے مفادات اسٹیٹس کو سے وابستہ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور آنے والے انتخابات طویل مدت کے لیے ملتوی ہوجائیں۔ یہ کام اب سے پہلے اس نعرے پر کیا گیا کہ 'پہلے احتساب،پھر انتخاب' اس مرتبہ 'سیاست نہیں ریاست بچائیے' کا پُرجوش نعرہ لگایا گیا ہے۔

کروڑوں عوام کی جان ومال کی حفاظت کے دعویدار جب کسی جلسے میں اپنے محافظین کے لائو لشکر کے ساتھ تشریف لاتے ہیں تو خدا پر کامل یقین رکھنے کے باوجود بلٹ پروف شیشے کے کیبن میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اپنے مریدین سے خطاب فرماتے ہیں۔ نہایت جوش و جذبے سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے 40 لاکھ حمایتیوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور یہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک آئین میں ایسی تبدیلیاں نہ ہوجائیں جو ان کی خواہش اور ضرورتوں کے مطابق ہوں۔

بلکہ زیادہ بہتر تو یہی ہوگا کہ انتخابات کچھ عرصہ کے لیے ملتوی ہوجائیں اور ایک منتخب پارلیمنٹ دوسری کو اقتدار منتقل نہ کرسکے۔ بہ الفاظ دیگر وہ پارلیمنٹ اور اس کے ذریعے ہونے والی قانون سازی اور دیگر کارروائیوں کو کارِ فضول سمجھتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کو ایجنڈا ہے جو اس ملک میں کسی طور پر بھی ایک مستحکم جمہوری نظام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق نے اس شورو غوغا پر اچھا تبصرہ کیا ہے کہ یہ قادری صاحب خلافت یا صدارتی نظام رائج کرنے کا مطالبہ کیوںنہیں کرتے جو ان کا دلی مدعا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں خیبرپختونخوا کی ہیں اسی لیے اس کی اسمبلی نے ان دنوں انتخابات ملتوی کرانے کا مطالبہ کرنے والی تمام غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ جو جمہوریت کی بساط الٹنے کے درپے ہیں، ان کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان اور دوسرے اکابرین نے اپنے آپ کو ملکی اور عوامی مسائل کے لیے امرت دھارا بناکر پیش کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور یہ سوال کیا ہے کہ جب ملک بدترین دہشت گردی اور مسائل سے دوچار تھا تو یہ لوگ کہاں تھے۔

دائیں، بائیںاور سینٹر کی تفریق کے بغیر جمہوری عمل کو جاری رکھنے اور وقت مقررہ پر انتخابات کی تائید کرنے والی قوتیں کسی بھی لانگ مارچ اور سونامی کا مقابلہ کرسکتی ہیں بشرطیکہ وہ آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی کے لیے متحد رہیں۔

 
Load Next Story