پاکستانیوں کے لیے دھمکیاں ہی دھمکیاں

میں چونکہ بہت خوفزدہ ہو چکا ہوں، اس لیے مجھے تو ہر پاکستانی ڈرا ڈرا سا لگتا ہے


Abdul Qadir Hassan January 08, 2013
[email protected]

ہم پاکستانیوں سے زیادہ کون ہے جو ڈرون حملوں کو جانتا اور پہچانتا ہے چنانچہ جب سے محترم الطاف حسین بھائی نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ وہ کوئی سیاسی ڈرون حملہ کرنے والے ہیں تو میرے جیسے بزدل پاکستانی سخت سہم گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں قیامت کی پیش گوئی کی گئی تھی تو لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے، مندروں میں گھس گئے اور جس کو جو پناہ گاہ ملی وہ اس میں چھپ گیا۔ان دنوں ہماری بالکل یہی حالت ہے کہ خدا جانے الطاف صاحب ڈرون حملہ کہاں کرتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ حملہ وہاں ہو جہاں میں ہوں اور اس میں مارا جائوں۔

امریکی اسٹائل ڈرون حملے اندھے حملے ہوتے ہیں، ایک جہاز کسی کمپیوٹر قسم کی مشین کے ذریعہ اڑتا اور کہیں بھی حملہ آور ہو جاتا ہے، اس میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا اور طاقت کے زعم میں اندھے امریکا کی طرح آنکھیں بند کر کے تباہی مچا دیتا ہے، اس کی پرواز کا راستہ اور نشانہ سب یہ کمپیوٹر طے کر دیتا ہے اور ایک بٹن دبا کر اسے مقررہ راستے اور نشانے کے لیے اڑا دیتا ہے۔ الطاف بھائی سات سمندر پار بیٹھے ہیں، ان سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے برعکس ان کے قادری صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں اور وہ بھی بذات خود ایک زندہ ڈرون جہاز بن کر اپنی پرواز کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اس میں اطمینان کی بات یہ ہے کہ قادری صاحب اپنے ڈرون حملے کے راستے وقت اور نشانے سے پیشگی آگاہ کر دیتے ہیں۔

اسی لیے اسلام آباد والے بر وقت خبردار ہو کر اپنی اپنی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور وقت مقررہ یعنی 14 جنوری کو وہ اسلام آباد پر حملہ آور ہوں گے، اس حملے کی دوسری تفصیلات بھی بتا دی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ بتاتی جا رہی ہیں ایک جملہ معترضہ یہ ہے کہ نہ معلوم ہمارے رحمٰن ملک صاحب ان سے ملنے کی جرات کیسے کر گئے ہیں کیونکہ قادری صاحب کا مقام و مرتبہ کسی وزیراعظم سے ہزاروں گنا زیادہ ہے، اسی لیے انھوں نے ملک صاحب سے کہا ہے کہ میں وزیراعظم اور کابینہ سے ملاقات کر سکتا ہوں ،کسی وزیر وزرے سے نہیں۔ یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ ہزار گنا نیچے اتر کر وزیر اعظم وغیرہ سے بات کرنے پر آمادہ ہیں۔

بات ہو رہی تھی جناب الطاف صاحب کے کسی ناگہانی ڈرون حملے کی۔ میں چونکہ بہت خوفزدہ ہو چکا ہوں، اس لیے مجھے تو ہر پاکستانی ڈرا ڈرا سا لگتا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی پہلے ہی حالات سے اس قدر لاچار اور مضمحل ہو چکے ہیں کہ مزید کسی دھچکے اور ناگہانی آفت کو برداشت کرنے کے قابل نہیں، اپنے جناب الطاف سے گزارش ہے کہ یا تو وہ اپنے اس حملے کو ملتوی کر دیں بلکہ منسوخ ہی کر دیں ، آخر وہ زیادہ نہیں تو نصف پاکستانی تو ہیں ہی اپنے ہموطنوں کو اس خوف سے نجات دلا دیں اور ثواب دارین حاصل کریں لیکن یہ تو سب ایک خوفزدہ آدمی کی درخواستیں ہیں، اگر ایسی درخواستیں منظور ہونے لگیں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے اور کراچی کی بھتہ خوری اور خونریزی رک جائے۔

ملک میں عدم تحفظ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر شخص ریت میں سر چھپا کر زندہ ہے مثلاً آپ غور کریں کہ جب اسلام آباد میں لاکھوں آدمی جمع ہوں گے، اس شہر میں جس کی آبادی پندرہ سولہ لاکھ کے قریب ہے تو وہاں کیا منظر ہو گا۔ موسم کو دیکھیں تو ہمارے نویں نکور گورنر صاحب کے بقول لانگ مارچ والوں کو نزلہ زکام کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ایک اور صاحب نے کہا ہے کہ اسلام آباد انسانوں کی اتنی بھیڑ کے بعد تو ایک بڑی اور وسیع لیٹرین بن جائے گا اور اسلام آبادی شہر سے بھاگ جائیں گے۔ حکمران خوش ہیں کہ کھلی جگہ پر سرد رات بسر کرنی ممکن نہیں اور نہ ہی اسلام آباد کے شہری اتنے مہمان نواز ہیں کہ اتنے لوگوں کو گھروں میں پناہ دے دیں۔

کروڑ ہا روپوں کا کھیل ہے جو پاکستان میں کسی اصلاح کے نام پر کھیلا جا رہا ہے ،کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ اسلام آباد کے کھلے میدانوں میں تمبو لگا دیے جائیں اور ان میں حوائج ضروری سے فراغت کا بندوبست بھی کر دیا جائے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اولین دھمکیوں کے مطابق علامہ صاحب کا یہ لشکر جرار اسلام آباد میں کئی دن قیام کرے گا کیونکہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے سپہ سالار اور لشکری اسلام آباد میں مقیم رہیں گے اور ان نا ممکن قسم کے مطالبات کی تکمیل میں کتنا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔ میں اگر حکمران ہوتا تو اس لشکر کے سامنے قالین بچھواتا اور سر آنکھوں پر بٹھا کر اسے اسلام آباد لے آتا اور یہاں انھیں جب تک ان کا جی چاہے قیام کی اجازت دے دیتا۔ میں دیکھتا کہ اتنی بڑی فوج کو کتنے دنوں تک کسی کھلی چھاؤنی میں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

لاہور کے کامیاب جلسے کے بعد بلاشبہ حوصلے بڑھ گئے ہیں اور جس طرح لاہور کا جلسہ ہوا ہے، اتنے کروڑوں کے خرچ سے کوئی اور جلسہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اصل مسئلہ انتظامات کا بھی ہے، علامہ صاحب کو کھلا چھوڑ دیں، دیکھتے ہیں وہ اسلام آباد کو کب تک اپنے قبضہ میں رکھ سکتے ہیں۔ بہر حال علامہ قادری بادشاہ ہیں، تحریر و تقریر کے ماہر ہیں اور ان کے پاس کروڑوں کا سرمایہ ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ لاکھوں پاکستانی جو دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں ذرا سی آسودگی دیکھ رہے ہیں۔

بے نظیر سپورٹ پروگرام کی طرح علامہ سپورٹ پروگرام بھی ایک اچانک برکت بن کر آیا ہے لیکن میں کسی خوشی کا اظہار کیسے کر سکتا ہوں کہ مجھے تو کسی بھی وقت کوئی ڈرون حملہ ختم کر سکتا ہے۔ ان حملوں سے تقدیر ہی بچا سکتی ہے اور اتنی اچھی تقدیر میری نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کو شروع کرنے میں کچھ کل پرزوں کی ضرورت ہے جو ابھی دستیاب نہیں ہیں، بس جیسے ہی یہ پرزے مل جائیں گے حملے جاری ہو جائیں گے۔ خدا کرے یہ پرزے تیار کرنے والے کارخانوں میں کیڑے پڑ جائیں اور ہم لاکھوں پاکستانیوں کی جانیں بچ جائیں۔

کراچی کا نام سنتے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ ہمارا یہ خوبصورت شہر جو پاکستان کا ایک نمونہ تھا، ایک چھوٹا پاکستان تھا جہاں ملک بھر کے صوبوں کے لوگ آباد تھے اور ہمارے جیسے لوگ سیر کے لیے اس شہر میں جاتے تھے، اب اس کے نام سے ہی ڈر جاتے ہیں لیکن کراچی کیا اب تو پورا ملک ہی ڈرون حملوں کی زد میں آ سکتا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے درخواست ہے کہ پاکستان کو ان ڈرون حملوں اور لشکر کشیوں سے بچائے ہمیں تو حالات زمانہ نے بہت ہی نڈھال کر دیا ہے، ہم کس کام کے رہ گئے ہیں ع

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں