پاک بھارت معاملات…ابھی کچھ نہیں ہوگا
بے تحاشہ کالم اور ٹاک شوز بڑی لگن کے ساتھ اس حقیقت کو اُجاگر کررہے ہیں کہ بھارتی معاشرے میں عورت بڑی مظلوم ہے۔
ہفتہ اور اتوار کے دو روز میں نے امرتسر کے ایک ہوٹل میں گزار دیے ۔1984سے 2004 تک ہر سال لمبے دنوں کی رپورٹنگ کے لیے میں بھارت جاتا رہا ہوں۔ بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوتے ہوئے نوجوان صحافیوں والا تجسس بھی جاتا رہا۔ اب وہاں جائوں تو زیادہ تر ہوٹل میں ہی ٹھہرے رہنا بہتر محسوس ہوتا ہے۔ ویسے بھی سیفما کی کانفرنس تھی جس کے ایک دن میں تین اہم سیشن تھے اور میری ان میں شرکت ضروری تھی۔ ان اجلاسوں کے درمیان وقفوں میں اپنے کمرے میں لیٹ کر ٹی وی دیکھتا رہتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دلی میں ایک روزہ میچ دیکھتے ہوئے اچانک احساس ہوا کہ ٹی وی پر زیادہ تر اشتہارات موبائل فون والوں کے ہیں۔ ان اشتہارات کا سارا فوکس ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر تھا جنھیں ہر وقت انٹرنیٹ کے فیس بک اور ٹویٹر پر مصروف رہنے کا جنون لاحق ہوگیا ہے۔ ان فونوں کی واحد خوبی جو اصرار کے ساتھ اُجاگر کی جاتی تھی وہ ان امکانات کے گرد بنی گئی تھی جو جوانی کی حد میں داخل ہوتے لڑکے اور لڑکیوں کی جذباتی ضرورت سمجھے جاتے ہیں۔ بھارتی معاشرہ کافی حد تک قدامت پسند ہے۔ وہاں ایسے اشتہارات کا کم از کم 2000 تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
ان اشتہارات کی بھرمار کے باوجود جو میرے جیسے بندے کو بھی کافی بولڈ اور شاید غیر اخلاقی بھی لگے مجھے خوش گوار حیرت اس غم و غصے پر ہوئی جو بھارتی میڈیا دلی میں ہونے والے ایک قتل کے بارے میں بڑی شدت کے ساتھ دکھا رہا تھا۔ بھارت کا دارالحکومت 1980 کی دہائی سے اس ملک میں عورتوں کے ساتھ بدتمیزی اور زیادتی کا مرکز بھی کہلایا جاتا ہے۔ مگر چند دن پہلے ایک بس میں ایک نوجوان بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے بھارتی متوسط طبقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی اخبارات اور ٹیلی وژن والے محض اس کیس کی تفصیلات بتانے تک محدود نہیں رہے۔
بے تحاشہ کالم اور ٹاک شوز بڑی لگن کے ساتھ اس حقیقت کو اُجاگر کررہے ہیں کہ بھارتی معاشرے میں عورت بڑی مظلوم ہے۔ اس کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔ مگر کوئی سیاستدان اس کا احساس نہیں کرتا۔ ریاست اور حکومت بے حسی کی حد تک لاتعلق ہیں۔ بحث چلتے چلتے اس موڑ پر آگئی ہے جہاں شدت سے محسوس کیا جانے لگا ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں صرف اپنی صلاحیت اور محنت سے آسودہ حال ہوئے طبقات میں جو خواہشات اور جذبات پیدا ہورہے ہیں، انھیں بھارت کی موجودہ سیاسی جماعتیں کسی خاطر میں نہیں لاتیں۔
ان کے اپنے اپنے ووٹ بینک ہیں جو زیادہ تر لسانی اور علاقائی تعصبات پر مبنی ہیں۔ اب ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو بہت تیزی کے ساتھ جدید ہوتے معاشرے کے شہری متوسط طبقے کی اُمنگوں کی ترجمانی کرسکے۔ روایتی سیاستدان مگر اس سوچ سے زیادہ پریشان دکھائی نہ دیے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کی طرح وہ بھی اپنے میڈیا کو چند ''فروعی معاملات'' کو ضرورت سے زیادہ اچھالنے کا ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں ۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید سیفما کے سیمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو چند بھارتی صحافیوں کے ساتھ میں نے ان کا استقبال کیا اور ہوٹل کے ایک کمرے میں چائے پانی کے لیے بیٹھ گئے۔ سلمان خورشید کا رویہ بڑا دوستانہ تھا۔ وہ کبھی کبھار شاعری بھی کرلیتے ہیں اور دلی میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی لڑکی نے ان سے بھی ایک نظم لکھوا دی ہے۔ انھوں نے وہ نظم ہمیں بھی سنائی۔ ان سے آف دی ریکارڈ جو سوال کیے ان کا جواب دیتے ہوئے وہ بہت محتاط رہے۔
باتوں باتوں میں مگر یہ بات کھل گئی کہ وہ اپنے صحافیوں کے اس گروہ سے بہت تنگ آچکے ہیں جو ان کی نظر میں بھارتی وزیر خارجہ سے کچھ ایسے اقدامات کرنے کی توقع کرتے ہیں جو امریکا جیسی سپر پاور کے وزیر خارجہ کا نصیب ہوا کرتی ہیں۔ جاوید میاں داد کو پاک بھارت میچ دیکھنے کے لیے ویزے کے اجراء کو بھارتی میڈیا نے کافی بڑا اسکینڈل بنادیا تھا۔ سلمان خورشید اس بات پر حیران تھے کہ میاں داد کو بھارتی ویزا 2012ء میں بھی دیا گیا تھا۔ اس وقت کسی کو یاد کیوں نہ آیا کہ ان کی دائود ابراہیم سے رشتہ داری ہے۔ ان کی اپنی نظر میں یہ ویزا دیا جانا ہرگز غلط نہ تھا۔ بطور ایک کرکٹر اور پاکستانی کرکٹ بورڈ کے اہم رکن ہوتے ہوئے میاں داد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں ویزا دینے کے لیے ترجیح یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ جب تک اعلیٰ سطحی فیصلے کے بعد ان کے بھارت میں داخلے پر پابندی عائد نہ کی جائے، ان کے لیے بھارتی ویزہ ایک معمول کی بات ہی سمجھی جائے گی ۔
ویزے کی بات چلی تو ہم نے انھیں یاد دلایا کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان اور بھارتی حکمران اور وزرائے خارجہ اپنی تقریروں اور بیانات میں وعدے کرتے رہے ہیں کہ ان دو ملکوں کے صحافیوں کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔ حال ہی میں پاکستان اور بھارت نے ویزے جاری کرنے کے عمل میں کچھ سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ان کا اطلاق بے شمار شعبوں پر ہوگا مگر صحافیوں کا کہیں ذکر تک نہیں ہوا۔ سلمان خورشید نے اس کوتاہی کا اعتراف تو کیا مگر کوئی ٹھوس وعدہ نہ کیا۔ مجھے ان کی باتیں سن کر یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی معاملات کے بارے میں بھارت کے آیندہ انتخابات تک کوئی ٹھوس اور مثبت پیش رفت ہرگز نہ ہو پائے گی ۔