ایک اور منہاج

سی این این کے مبصرین نے کتاب کو دہشت گردی اور دہشت گردی کے مراکز کے لیے شدید دھچکا قرار دیا۔


Shaikh Jabir January 08, 2013
[email protected]

LAHORE: ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ایک طویل عرصے کی مفارقت کے بعد سات سمندر پار سے آئے اور آتے ہی سیاسی منظر نامے پر چھا گئے۔ اِس خطے میں باہر سے آ کر سیاسی منظر پر چھانے والوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب (19 فروری1951) پاکستان کے ایک با صلاحیت سپوت ہیں۔ آپ کا تعلیمی سفر نہایت شان دار تھا۔ میٹرک سے ماسٹرز تک آپ فرسٹ ڈویژن رہے۔ ماسٹرز آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ اسلامیات میں۔

فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن، گولڈ میڈل (1972)۔ پی ایچ ڈی بھی آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور ہی سے کی۔ اِسی یونیورسٹی سے آپ نے ایل ایل بی بھی فرسٹ ڈویژن میں کیا۔ آپ مختلف موضوعات پر اب تک 5 ہزار سے زائد خطابات فرما چکے ہیں اور 700 سے زائد کتب تحریر فرما چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 1981 میں منہاج القران انٹر نیشنل نامی تنظیم قائم کی۔ قلیل عرصے میں یہ تنظیم ایک تناور درخت بن گئی۔ آج منہاج القران کی 100 سے زائد ممالک میں شاخیں مصروفِ عمل ہیں۔

ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، یورپ، جنوبی امریکا، آسٹریلیا اور افریقا وغیرہ میں اس ادارے کے تحت تعلیمی اور کمیونٹی مراکز شان دار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دینی اور سماجی خدمات کو ملکی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔ بے شمار اعزازات کے علاوہ آپ کو حال ہی میں سی این این- آئی بی این کی جانب سے ''عالمی سفیرِ امن'' قرار دیا گیا ہے۔25 مئی 1989 کو ڈاکٹر صاحب نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کی۔

اگرچہ1990 میں پاکستان عوامی تحریک نے انتخابات میں شمولیت کی تھی لیکن سیاسی سطح پر یہ تنظیم اب تک کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ابتدائی دور میں انقلاب اور مصطفوی انقلاب کے بہت بات کی۔

2 مارچ 2010 کو ڈاکٹر صاحب نے لندن سے 512 صفحات پر مشتمل ''دہشت گردی پر فتویٰ'' کے نام سے اپنی تصنیف کا انگریزی ترجمہ شایع کیا۔ اِس سے قبل آپ کی اردو تصنیف ''دہشت گردی اور فتنہ خوارج'' کے نام سے شایع ہو چکی تھی۔ ان کتب میں ڈاکٹر صاحب نے شرعی دلائل سے ثابت کیا کہ دہشت گردی اور خود کُش حملے اسلامی نقطہ نظر سے کفر ہیں۔ یہ انگریزی زبان میں اپنی طرز کی شاید واحد تصنیف ہے۔ سی این این کے مبصرین نے کتاب کو دہشت گردی اور دہشت گردی کے مراکز کے لیے شدید دھچکا قرار دیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسے اسلام کو دہشت گردی سے نکالنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے پزیرائی کی۔ جامعہ الازہر نے کتاب کی توثیق و تائید کی۔ جنوری 2011 میں ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ نشست میں کتاب کا ذکر کیا گیا۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا جناب پوپ بنیڈکٹ نے کتاب کی تعریف کی۔ کتاب پر ابتدائیہ پروفیسر جان ایل ایسپو اسیٹو نے تحریر کیا ہے اور کتاب کا تعارف ڈاکٹر جوئل ایس ہیوارڈ نے لکھا ہے۔ کتاب کی تمام تر پزیرائی مغرب میں یا مغربی فکر کے حاملین کی جانب سے کی گئی۔

حیرت انگیز طور پر کتاب میں مغرب کی وضع کردہ اصطلاح ''دہشت گردی'' کے نہ تو معنی متعین کیے گئے، نہ ہی اِس اصطلاح کے آغاز، تاریخ، اِس کی کہنہ و ماہیت، اِس کی ما بعد الطبیات ہی بیان کی گئیں۔ نہ ہی اِس اصطلاح کو استعمال کر کے مادی فوائد بٹورنے اور لشکر کشی کرنے والوں پر کوئی بات ہوئی۔ نہ ہی ساری دنیا میں جاری عسکری و اقتصادی دہشت گردی ہی پر بات کی گئی۔

ڈاکٹر صاحب، تحریک منہاج القران اور پاکستان عوامی تحریک اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے نہ صرف یہ کہ حامی بلکہ داعی بھی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے ا نسانی حقوق کے حق میں ایک کتاب ''اسلام میں انسانی حقوق'' بھی تحریر کی۔ اِس منشور کے تحت تمام انسان برابر ہیں۔ یہاں ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا ایک نبی اور غیرِ نبی برابر ہو سکتے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب نے ابتدا میں قوم کو جو منہاج دیا وہ مصطفوی انقلاب کا تھا۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب رواجی انتخابی سیاست میں اُتر آئے۔ یہاں تک کہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ منہاج کی اِس تبدیلی کا سبب اب تک نامعلوم ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ کیا اپنی کسی رائے یا اندازے کی غلطی سے رجوع کیا؟ منہاج کی اس تبدیلی کا سبب بھی اب تک نا معلوم ہی ہے۔ اور اب ڈاکٹر صاحب ایک اور منہاج کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ ''سیاست نہیں ریاست''۔ سیاست دان سوال کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ریاست بچانے، چلانے اور اس کو استحکام دینے کو سیاست نہیں تو اور کیا کہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب ایک ہی سانس میں جمہوریت اور انقلاب کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں بِنا کسی واضح لائحہ عمل اور طریقہ کار کے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کے انتخابی طریق سے کبھی بھی کہیں بھی انقلاب نہیں آیا۔ نہ ہی جمہوریت انقلاب کے لیے ہوتی ہے۔ یہ بات خود آپ کے ماہنامے '' منہاج القران'' کی حالیہ اشاعت دسمبر 2012 کے ایک مضمون کا عنوان بھی ہی۔ ''انتخابات نہیں انقلاب''۔ اب آپ خود ہی فرما دیں کہ آپ کس منہاج پر ہیں؟ اگر آپ موجودہ جمہوریت کے مخالف نہیں اور عوامی حقِ رائے دہی کے قائل ہیں تو آپ ہی کے رسالے کی تازہ ترین اشاعت میں ''انتخابات نہیں، پُر امن انقلاب'' ایسے مضمون کا کیا جواز ہے؟ اِس مضمون میں مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ''ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں عامۃالنّاس مکمل طور پر خوابِ غفلت میں ہے۔

عوام بے شعوری اور کم آگاہی کا شکار ہیں، سوسائٹی میں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے اور اِس معاشرے پر انسانی خصلتوں کے بجائے حیوانی خصلتیں غالب آتی جا رہی ہیں۔'' آگے جا کر تو باقاعدہ عنوان قائم کیا گیا ہے کہ ''اجتماعی سیاسی بے شعوری کی شکار قوم۔'' یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی بے شعور، کم آگاہ، حیوانی خصلتوں کی حامل قوم کو حقِ رائے دہی جیسا اہم اور حساس فریضہ سونپ دینا چاہیے؟ کیا انھیں ووٹ کا حق ملنا چاہیے؟ کیا یہاں انتخابات ہونے چاہیے ہیں؟ فاضل مضمون نگار آگے ایک اور عنوان قائم کرتے ہیں ''عمومی عذاب قوم کا مقدر کیوں؟'' اور لکھتے ہیں ''لوگ (ووٹ دے کر) یا تو اِس نظام کا حصہ بنتے ہیں یا مایوسی اور لاتعلقی کی وجہ سے خاموش ہیں۔

یہ ہی طرزِ عمل عمومی اور اجتماعی عذاب کا سبب بنتا ہے۔'' گویا آپ ووٹ دیں یا نہ دیں اجتماعی عذاب آپ کا مقدر ہے ہی۔ منہاج القران کا یہ تازہ شمارہ بہت خاص شمارہ ہے۔ اس میں ایک اور مضمون ہے ''شعور ِ منزل سے نا آشنا پاکستانی قوم'' سوال یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال، قائد ِاعظم سے لے کر طاہر القادری صاحب تک قوم کو شعور نہیں دے سکے، تو کیا ایک لانگ مارچ قوم کو باشعور کر دے گا؟ اِسی شمارے کے ایک اور مضمون ''پاکستان میں تبدیلی کیوں ضروری ہے؟'' میں ایک اور منہاجی رقم طراز ہیں۔''... ہمارے ہاں جمہوری ادارے ابھی بلوغت اور سنجیدگی کے مطلوبہ معیار سے کوسوں دور ہیں۔

اِس کی وجہ یہ ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت ان پڑھ اور نا سمجھ ہے۔ موجودہ انتخابی نظام جمہوری نہیں خونی بن چکا ہے۔۔۔ قائد اور اقبال کے پاکستان میں جو نظام رائج ہو چکا ہے وہی اِس کا سب سے بڑا دشمن ہے''۔ ''افسوس ہم چھ دہائیاں ضایع کرنے کے بعد بھی اِس نظام کو انتخابی نتائج کے ذریعے تبدیل کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اِس جانبدارانہ اور منافقانہ جمہوریت کے چنگل سے نکلنا ہو گا۔ لیکن اگر سیاست دانوں کی طرح عوام بھی اِس فرسودہ اور کرپٹ انتخابی نظام کے ذریعے ہی تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں کہ ووٹ کے ذریعے انقلاب آ سکتا ہے؟ تو یاد رکھیں! ایں خیال است و محال است و جنوں۔''

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اتنے بہت سے مختلف اور متضاد منہاجوں میں سے قرآن کا اصل منہاج کسے اور کب قرار دے کر اُس پر کب عمل کریں گے؟ لانگ مارچ کا منہاج واقعی کوئی منہاج بھی ہے؟ یا تیرِ بے ہدف سے زیادہ کچھ نہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں