امیر خسرو جرمنی میں دلچسپ واقعات
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا ’’کیا آپ راستہ بھول گئے ہیں؟
یہ نام اس سفر نامے کا ہے، جسے ہمارے ملک کے معتبر سائنسدان مشتاق اسماعیل نے لکھا ہے۔ کتاب کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ مصنف کا مختصراً تعارف بیان کر دوں، ڈاکٹر سید مشتاق اسماعیل یکم جنوری 1936 میں پٹنہ، صوبہ بہار، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کیا اور فرانس کی مشہور جامعہ پیرس سے پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد برطانیہ میں جامعہ برسٹل سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
اور پھر انھوں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی سربراہی میں PCSIR کراچی میں تحقیقی کام کا آغاز کیا اور جرمنی کے سائنسدان پروفیسر جارج ہان کے ساتھ کالا باغ کے خام لوہے سے فولاد بنانے کے منصوبے پر کام کیا۔ ڈاکٹر مشتاق اسماعیل جرمنی کی مشہور درسگاہ ڈارم شٹاف ہوخ مشولے میں دو سال مہمان لیکچرر رہے اس کے بعد لیبیا میں جامعہ الفاتح سیہا اور کینیا میں جامعہ جومو کنیاٹا نیروبی میں کیمیا کے پروفیسر رہے۔ یوں 1957 سے 2002 کے طویل عرصے تک سائنسی درس و تدریس کے شعبوں میں اعلیٰ خدمات انجام دینے کے بعد آج کل ڈاکٹر صاحب اپنے وطن کراچی پاکستان میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب میں اس دلچسپ کتاب کے چند واقعات مختصراً بیان کرتا ہوں۔ یہ 1961 کا پہلا واقعہ جامعہ برسٹل برطانیہ میں قیام کے دوران پیش آیا۔ مصنف اپنے دیگر سات غیر ملکی طلباء کے ساتھ جامعہ کے ہوسٹل میں قیام پذیر تھے۔ ایک رات کرسمس کی دعوت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف اکیلے ہی چل دیے۔ دسمبر کی یخ بستہ رات کا احوال ڈاکٹر صاحب سناتے ہیں ''باہر گھپ اندھیرا تھا، اور سخت کہر تھی کہ مجھے اپنے پیر بھی نظر نہیں آ رہے تھے اور میں کہر میں گم ہو گیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا ''کیا آپ راستہ بھول گئے ہیں؟'' میں نے کہا ''ہاں'' وہ بولا ''آپ کہاں رہتے ہیں؟'' میں نے بتایا ''ریمنڈ پارک لین نمبر 8'' اس نے کہا ''میرے ساتھ آؤ''۔ یہ کہہ کر وہ شخص اتنی تیزی سے چلا کہ مجھے اس کا ہاتھ پکڑے اس کے پیچھے پیچھے تقریباً بھاگنا پڑا۔ وہ بتاتا جاتا تھا کہ اب یہاں ایک قدم اونچا فٹ پاتھ ہے، اب ایک قدم اترنا ہے اور پھر میرا ٹھکانہ آ گیا۔ اس نے میرے مکان کے دروازے پر لگی نمبر پلیٹ اپنی ہتھیلی سے صاف کی اور بولا ''نمبر 8 ٹھیک ہے ناں؟'' میں نے کہا ''ہاں''۔ پھر میں نے اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے پوچھا: ''مجھے تو کچھ نظر نہیں آ رہا، آپ کو اس کہر میں کیسے نظر آ رہا ہے؟'' اس نے جواب دیا ''نظر۔۔۔۔۔۔مجھے نظر کہاں آتا ہے، میں تو اندھا ہوں۔''
ڈاکٹر صاحب کا تقرر بحیثیت پروفیسر جامعہ الفاتح لیبیا کے شعبہ کیمسٹری میں ہوا۔ یہ 1979 کا زمانہ تھا، ڈاکٹر صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''جب ہم پہنچے تو وہ دوسرے مکانوں جیسا ہی ایک سادہ سا مکان تھا۔ میرے ایک ساتھی پروفیسر نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، چند لمحوں بعد دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ کرنل قذافی سامنے کھڑے ہیں، میرے ساتھیوں نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں، خیر ہم اندر گئے۔ اندر سے بھی مکان ویسا ہی تھا۔ جیسے عام مکان تھے۔ ہر جگہ قالین بچھے ہوئے تھے اور کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ البتہ بیٹھک میں گاؤ تکیے بھی لگے ہوئے تھے۔
لیبیا کے مرد آہن کرنل قذافی نے ہم سب کو بٹھایا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، پھر وہ اندر چلے گئے اور دستی تولیوں کا ایک بنڈل لیے اندر سے آئے۔ پھر قذافی صاحب ایک آفتابہ اور ایک سلفچی لے کر آئے اور باری باری ہم سب کے ہاتھ دھلانے لگے، جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے عربی میں کہا ''یا اخی! کہ اے میرے بھائی (لیبیا میں کرنل قذافی کو اخی کہہ کر بلایا جاتا تھا) میں غسل خانے میں ہاتھ دھو لیتا ہوں۔'' کرنل قذافی نے کہا ''نہیں، آپ میرے مہمان ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں آپ کے ہاتھ دھلاؤں۔''
خیر سب کے ہاتھ دھلانے کے بعد کرنل قذافی پھر اندر گئے اور ایک بڑے تشت میں کھانا لے کر آئے۔ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں زیتون ،کٹی ہوئی پیاز، اور دوسرے لوازم بھی تھے۔ سب لوگ مل کر اسی تشت میں کھانے لگے، اتنے میں کرنل قذافی کے ہاتھ ایک اچھی سی بوٹی آئی جو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر میرے منہ میں ڈال دی۔ کھانا ختم ہوا تو کرنل قذافی نے برتن اندر پہنچائے اور پھر سب کے ہاتھ دھلائے۔ پھر چائے اور قہوہ کا دور چلا۔ اصل میں کرنل قذافی نے اپنے ملک میں یہ قانون بنا رکھا ہے کہ کوئی لیبیائی باشندہ کسی دوسرے لیبیائی کو ملازم نہیں رکھ سکتا۔''
ڈاکٹر صاحب سفر کرتے کرتے 1984میں افریقی ملک کینیا پہنچ گئے۔ جہاں نیروبی میں جامعہ جومو کنیاٹا میں کیمسٹری کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ کینیا کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ یہ خوبصورت ملک ہے۔ اس کے پہاڑ اور خصوصاً جنگلات قابل دید ہیں اور سیاحت میں کمائی کا اہم ذریعہ بھی۔ کینیا کے جنگلات میں ہر نسل کا جانور موجود ہے۔ جنگلات میں جگہ جگہ سفاری لاجز بنائے گئے ہیں، جہاں سیاحوں کے لیے رہنے اور کھانے پینے کے بہترین انتظامات موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی جنگل کی سیر پر نکلے تو ایک جگہ انھوں نے کیا دیکھا، انھی کی زبانی سنیے! ''ایک دفعہ ہماری بس جنگل میں جا رہی تھی، ہم نے دیکھا کہ ایک ببر شیر ایک ہرن کا شکار کر کے بالکل سڑک کے کنارے اسے تناول کر رہا ہے، شیر کے ساتھ شیرنی اور اس کے دو بچے بھی تھے، شکار اتنا تازہ تھا کہ ہرن ابھی تڑپ ہی رہا تھا اور شیرنی، ہرن کا سینہ چاک کر کے اس کی کلیجی نکال کر اپنے بچوں کو کھلا رہی تھی، ڈرائیور نے خاموشی کا اشارہ کر کے بس کھڑی کر دی تا کہ ہم سب لوگ یہ تماشہ اچھی طرح دیکھ سکیں۔
ہم نے دیکھا، چند قدم کے فاصلے پر ہرنوں کا ایک گلہ اطمینان سے گھاس چر رہا تھا، میں یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا، میں نے ڈرائیور سے کہا ''یہ ہرن ببر شیر کو دیکھ کر بھاگتے کیوں نہیں؟'' تو ڈرائیور بولا ''آپ کو جنگل کا قانون معلوم نہیں، ایک ہرن کا شکار شیر اور اس کے خاندان کے لیے دو تین دن کے کھانے کا بندوبست ہو گیا، اب شیر کسی ہرن کا شکار نہیں کرے گا۔ ہرنوں کو بھی یہ بات معلوم ہے۔ اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے شیر کے قریب ہی گھاس چر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ہم سے بہتر تو یہ جانور ہیں، ہم انسانوں کا تو پیٹ بھرتا ہی نہیں۔''
ڈاکٹر صاحب اپنی ذاتی گاڑی مزدا 1300 میں بذریعہ سڑک پاکستان آ رہے تھے، راستے میں ترکی آیا، ڈاکٹر صاحب اپنے سفر کا حال بیان کرتے ہیں ''ہم نے استنبول کے ایک ہوٹل میں قیام کیا، میں نے ہوٹل کے منتظم سے پوچھا ''گاڑی کہاں کھڑی کروں؟'' منتظم نے مجھ سے پوچھا ''گاڑی کہاں کھڑی کی ہے؟'' میں نے کہا ''باہر گلی میں کھڑی کی ہے'' اس نے کہا ''وہیں رہنے دیجیے، ہمارے ہاں آج تک چوری چکاری کے واقعات نہیں ہوئے'' میں نے دل میں سوچا آزمانا چاہیے۔
ہم گھر والوں نے کپڑے کے صندوقوں کو گاڑی کے جنگلے پر ہی چھوڑ دیا اور صرف ضروری سامان نکال کر ہوٹل میں آ گئے۔ ہم وہاں چار پانچ دن رہے اور کار کے جنگلے پر ہمارا سامان بالکل محفوظ رہا۔ میں نے ترکوں سے پوچھا ''دنیا کے ہر بڑے شہر میں چوری عام ہے، ایسا یہاں نہیں ہوتا، کیوں؟'' انھوں نے کہا ''ترکی کبھی غلام نہیں رہا، ہم آزاد رہے ہیں اور ہمیں ترک ہونے پر فخر ہے۔''
پاکستان آتے ہوئے راستے میں ایران بھی آیا۔ خوش نصیب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے شاہنامہ کے خالق فردوسی کے مزار پر حاضری دی۔ وہاں فارسی کے اس عظیم شاعر کا بہت بڑا مجسمہ بھی نصب ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے وعدہ کیا تھا کہ فردوسی کے ہر شعر کے عوض سونے کا ایک دینار دے گا، شاہنامہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ دیوان ایک ہزار صفحات کا تھا، سلطان غزنوی نے ہر شعر کے عوض چاندی کے سکے دینے کی کوشش کی، فردوسی نے اسے ٹھکرا دیا۔ محمود غزنوی پچھتایا اور ایک توڑہ اشرفیوں کا بھجوایا۔ مگر جب سلطان کا انعام فردوسی کو پہنچا تو اس کا جنازہ گھر سے نکل رہا تھا۔ خیام کے مزار پر بھی حاضری ہوئی۔ امام رضا کے مزار پر بھی جانا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے سفر میں چلتے چلتے ایک غضب کا واقعہ بیان کیا ہے۔
مجھے یقین ہے میری طرح بہت سے لوگوں کے لیے یہ انکشاف ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''1948کے اوائل میں میرے بہنوئی انوار احمد ندوی اسٹیٹ بینک میں کرنسی آفیسر تھے۔ ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے روزانہ پرواز کرتا تھا۔ جس میں میرے بہنوئی واحد مسافر ہوتے تھے۔ اس جہاز کو کرائے کا ہوا باز سڈنی کاٹن نامی مہم جو فوجی چلاتا تھا۔ وہ جہاز کو سمندر کی سطح پر اس طرح اڑاتا ہوا لے جاتا کہ کسی راڈار میں نظر نہ آئے، جہاز بمبئی کے علاقے سے ہندوستان میں مغربی گھاٹ کی پہاڑیوں کو عبور کرتا ہوا حیدر آباد دکن کے علاقے میں پہنچ جاتا۔ وہاں خاموشی سے اترتا، وہاں سونے کی اینٹوں کے بکسے جہاز پر لادے جاتے اور جہاز اسی راستے سطح سمندر پر نیچی پرواز کرتا ہوا ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اتر جاتا۔
نظام دکن کے اس خزانے کے عوض پاکستان کی کرنسی کا اجراء ہوا اور بالآخر 11 ستمبر 1948 کے دن قائد اعظم کے انتقال کے اگلے روز یعنی 12 ستمبر 1948 کو ہندوستان نے کارروائی کر کے حیدر آباد دکن کی خودمختار ریاست پر قبضہ کر لیا اور نظام جو چپکے چپکے اپنی دولت پاکستان منتقل کر رہے تھے کو معزول کر دیا۔'' سفرنامے کے راوی امریکا میں مشہور زمانہ فورڈ موٹر کمپنی کے بانی ہنری فورڈ کے گھر گئے جسے اب عجائب خانہ بنا دیا گیا ہے اور اس ارب پتی کا پوتا ہنری فورڈ دوم سب مال و دولت چھوڑ چھاڑ کر نیپال ایک آشرم میں بیٹھ گیا ہے اور بھیک مانگ کر گزر بسر کر رہا ہے۔ اب اس کا نام سوامی نرائن ہنری فورڈ ہے۔ ڈاکٹر صاحب قیام جرمنی کے دوران اس گھر پر بھی گئے۔ جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال نے قیام کیا تھا۔ اس گھر کے باہر آج بھی ان کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔
کتاب کا ایک خاص موضوع معروف سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی بھی ہیں کہ جو شجر سایہ دار کی مانند ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کے قدم قدم ساتھ رہے۔ کتاب کو نقش پبلی کیشنز کراچی نے خوبصورتی کے ساتھ شایع کیا ہے۔ کتاب میں معروف دانش ور مسلم شمیم، محسن صبیح اور کتاب کے ناشر اکبر کیانی کے مضامین بھی شامل ہیں، کتاب کے سرورق پر مغلیہ دور کے مشہور کردار ملّا دوپیازہ کا خیالی پورٹریٹ ہے۔ یہ تصویر جرمنی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ کتاب ویلکم بک پورٹ اردو بازار کراچی پر دستیاب ہے۔
اور پھر انھوں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی سربراہی میں PCSIR کراچی میں تحقیقی کام کا آغاز کیا اور جرمنی کے سائنسدان پروفیسر جارج ہان کے ساتھ کالا باغ کے خام لوہے سے فولاد بنانے کے منصوبے پر کام کیا۔ ڈاکٹر مشتاق اسماعیل جرمنی کی مشہور درسگاہ ڈارم شٹاف ہوخ مشولے میں دو سال مہمان لیکچرر رہے اس کے بعد لیبیا میں جامعہ الفاتح سیہا اور کینیا میں جامعہ جومو کنیاٹا نیروبی میں کیمیا کے پروفیسر رہے۔ یوں 1957 سے 2002 کے طویل عرصے تک سائنسی درس و تدریس کے شعبوں میں اعلیٰ خدمات انجام دینے کے بعد آج کل ڈاکٹر صاحب اپنے وطن کراچی پاکستان میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب میں اس دلچسپ کتاب کے چند واقعات مختصراً بیان کرتا ہوں۔ یہ 1961 کا پہلا واقعہ جامعہ برسٹل برطانیہ میں قیام کے دوران پیش آیا۔ مصنف اپنے دیگر سات غیر ملکی طلباء کے ساتھ جامعہ کے ہوسٹل میں قیام پذیر تھے۔ ایک رات کرسمس کی دعوت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف اکیلے ہی چل دیے۔ دسمبر کی یخ بستہ رات کا احوال ڈاکٹر صاحب سناتے ہیں ''باہر گھپ اندھیرا تھا، اور سخت کہر تھی کہ مجھے اپنے پیر بھی نظر نہیں آ رہے تھے اور میں کہر میں گم ہو گیا۔
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا ''کیا آپ راستہ بھول گئے ہیں؟'' میں نے کہا ''ہاں'' وہ بولا ''آپ کہاں رہتے ہیں؟'' میں نے بتایا ''ریمنڈ پارک لین نمبر 8'' اس نے کہا ''میرے ساتھ آؤ''۔ یہ کہہ کر وہ شخص اتنی تیزی سے چلا کہ مجھے اس کا ہاتھ پکڑے اس کے پیچھے پیچھے تقریباً بھاگنا پڑا۔ وہ بتاتا جاتا تھا کہ اب یہاں ایک قدم اونچا فٹ پاتھ ہے، اب ایک قدم اترنا ہے اور پھر میرا ٹھکانہ آ گیا۔ اس نے میرے مکان کے دروازے پر لگی نمبر پلیٹ اپنی ہتھیلی سے صاف کی اور بولا ''نمبر 8 ٹھیک ہے ناں؟'' میں نے کہا ''ہاں''۔ پھر میں نے اس شخص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے پوچھا: ''مجھے تو کچھ نظر نہیں آ رہا، آپ کو اس کہر میں کیسے نظر آ رہا ہے؟'' اس نے جواب دیا ''نظر۔۔۔۔۔۔مجھے نظر کہاں آتا ہے، میں تو اندھا ہوں۔''
ڈاکٹر صاحب کا تقرر بحیثیت پروفیسر جامعہ الفاتح لیبیا کے شعبہ کیمسٹری میں ہوا۔ یہ 1979 کا زمانہ تھا، ڈاکٹر صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''جب ہم پہنچے تو وہ دوسرے مکانوں جیسا ہی ایک سادہ سا مکان تھا۔ میرے ایک ساتھی پروفیسر نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، چند لمحوں بعد دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ کرنل قذافی سامنے کھڑے ہیں، میرے ساتھیوں نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں، خیر ہم اندر گئے۔ اندر سے بھی مکان ویسا ہی تھا۔ جیسے عام مکان تھے۔ ہر جگہ قالین بچھے ہوئے تھے اور کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ البتہ بیٹھک میں گاؤ تکیے بھی لگے ہوئے تھے۔
لیبیا کے مرد آہن کرنل قذافی نے ہم سب کو بٹھایا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، پھر وہ اندر چلے گئے اور دستی تولیوں کا ایک بنڈل لیے اندر سے آئے۔ پھر قذافی صاحب ایک آفتابہ اور ایک سلفچی لے کر آئے اور باری باری ہم سب کے ہاتھ دھلانے لگے، جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے عربی میں کہا ''یا اخی! کہ اے میرے بھائی (لیبیا میں کرنل قذافی کو اخی کہہ کر بلایا جاتا تھا) میں غسل خانے میں ہاتھ دھو لیتا ہوں۔'' کرنل قذافی نے کہا ''نہیں، آپ میرے مہمان ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں آپ کے ہاتھ دھلاؤں۔''
خیر سب کے ہاتھ دھلانے کے بعد کرنل قذافی پھر اندر گئے اور ایک بڑے تشت میں کھانا لے کر آئے۔ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں زیتون ،کٹی ہوئی پیاز، اور دوسرے لوازم بھی تھے۔ سب لوگ مل کر اسی تشت میں کھانے لگے، اتنے میں کرنل قذافی کے ہاتھ ایک اچھی سی بوٹی آئی جو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر میرے منہ میں ڈال دی۔ کھانا ختم ہوا تو کرنل قذافی نے برتن اندر پہنچائے اور پھر سب کے ہاتھ دھلائے۔ پھر چائے اور قہوہ کا دور چلا۔ اصل میں کرنل قذافی نے اپنے ملک میں یہ قانون بنا رکھا ہے کہ کوئی لیبیائی باشندہ کسی دوسرے لیبیائی کو ملازم نہیں رکھ سکتا۔''
ڈاکٹر صاحب سفر کرتے کرتے 1984میں افریقی ملک کینیا پہنچ گئے۔ جہاں نیروبی میں جامعہ جومو کنیاٹا میں کیمسٹری کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ کینیا کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ یہ خوبصورت ملک ہے۔ اس کے پہاڑ اور خصوصاً جنگلات قابل دید ہیں اور سیاحت میں کمائی کا اہم ذریعہ بھی۔ کینیا کے جنگلات میں ہر نسل کا جانور موجود ہے۔ جنگلات میں جگہ جگہ سفاری لاجز بنائے گئے ہیں، جہاں سیاحوں کے لیے رہنے اور کھانے پینے کے بہترین انتظامات موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی جنگل کی سیر پر نکلے تو ایک جگہ انھوں نے کیا دیکھا، انھی کی زبانی سنیے! ''ایک دفعہ ہماری بس جنگل میں جا رہی تھی، ہم نے دیکھا کہ ایک ببر شیر ایک ہرن کا شکار کر کے بالکل سڑک کے کنارے اسے تناول کر رہا ہے، شیر کے ساتھ شیرنی اور اس کے دو بچے بھی تھے، شکار اتنا تازہ تھا کہ ہرن ابھی تڑپ ہی رہا تھا اور شیرنی، ہرن کا سینہ چاک کر کے اس کی کلیجی نکال کر اپنے بچوں کو کھلا رہی تھی، ڈرائیور نے خاموشی کا اشارہ کر کے بس کھڑی کر دی تا کہ ہم سب لوگ یہ تماشہ اچھی طرح دیکھ سکیں۔
ہم نے دیکھا، چند قدم کے فاصلے پر ہرنوں کا ایک گلہ اطمینان سے گھاس چر رہا تھا، میں یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا، میں نے ڈرائیور سے کہا ''یہ ہرن ببر شیر کو دیکھ کر بھاگتے کیوں نہیں؟'' تو ڈرائیور بولا ''آپ کو جنگل کا قانون معلوم نہیں، ایک ہرن کا شکار شیر اور اس کے خاندان کے لیے دو تین دن کے کھانے کا بندوبست ہو گیا، اب شیر کسی ہرن کا شکار نہیں کرے گا۔ ہرنوں کو بھی یہ بات معلوم ہے۔ اسی لیے وہ بڑے اطمینان سے شیر کے قریب ہی گھاس چر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ہم سے بہتر تو یہ جانور ہیں، ہم انسانوں کا تو پیٹ بھرتا ہی نہیں۔''
ڈاکٹر صاحب اپنی ذاتی گاڑی مزدا 1300 میں بذریعہ سڑک پاکستان آ رہے تھے، راستے میں ترکی آیا، ڈاکٹر صاحب اپنے سفر کا حال بیان کرتے ہیں ''ہم نے استنبول کے ایک ہوٹل میں قیام کیا، میں نے ہوٹل کے منتظم سے پوچھا ''گاڑی کہاں کھڑی کروں؟'' منتظم نے مجھ سے پوچھا ''گاڑی کہاں کھڑی کی ہے؟'' میں نے کہا ''باہر گلی میں کھڑی کی ہے'' اس نے کہا ''وہیں رہنے دیجیے، ہمارے ہاں آج تک چوری چکاری کے واقعات نہیں ہوئے'' میں نے دل میں سوچا آزمانا چاہیے۔
ہم گھر والوں نے کپڑے کے صندوقوں کو گاڑی کے جنگلے پر ہی چھوڑ دیا اور صرف ضروری سامان نکال کر ہوٹل میں آ گئے۔ ہم وہاں چار پانچ دن رہے اور کار کے جنگلے پر ہمارا سامان بالکل محفوظ رہا۔ میں نے ترکوں سے پوچھا ''دنیا کے ہر بڑے شہر میں چوری عام ہے، ایسا یہاں نہیں ہوتا، کیوں؟'' انھوں نے کہا ''ترکی کبھی غلام نہیں رہا، ہم آزاد رہے ہیں اور ہمیں ترک ہونے پر فخر ہے۔''
پاکستان آتے ہوئے راستے میں ایران بھی آیا۔ خوش نصیب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے شاہنامہ کے خالق فردوسی کے مزار پر حاضری دی۔ وہاں فارسی کے اس عظیم شاعر کا بہت بڑا مجسمہ بھی نصب ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے وعدہ کیا تھا کہ فردوسی کے ہر شعر کے عوض سونے کا ایک دینار دے گا، شاہنامہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ دیوان ایک ہزار صفحات کا تھا، سلطان غزنوی نے ہر شعر کے عوض چاندی کے سکے دینے کی کوشش کی، فردوسی نے اسے ٹھکرا دیا۔ محمود غزنوی پچھتایا اور ایک توڑہ اشرفیوں کا بھجوایا۔ مگر جب سلطان کا انعام فردوسی کو پہنچا تو اس کا جنازہ گھر سے نکل رہا تھا۔ خیام کے مزار پر بھی حاضری ہوئی۔ امام رضا کے مزار پر بھی جانا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے سفر میں چلتے چلتے ایک غضب کا واقعہ بیان کیا ہے۔
مجھے یقین ہے میری طرح بہت سے لوگوں کے لیے یہ انکشاف ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ''1948کے اوائل میں میرے بہنوئی انوار احمد ندوی اسٹیٹ بینک میں کرنسی آفیسر تھے۔ ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز ماڑی پور کے ہوائی اڈے سے روزانہ پرواز کرتا تھا۔ جس میں میرے بہنوئی واحد مسافر ہوتے تھے۔ اس جہاز کو کرائے کا ہوا باز سڈنی کاٹن نامی مہم جو فوجی چلاتا تھا۔ وہ جہاز کو سمندر کی سطح پر اس طرح اڑاتا ہوا لے جاتا کہ کسی راڈار میں نظر نہ آئے، جہاز بمبئی کے علاقے سے ہندوستان میں مغربی گھاٹ کی پہاڑیوں کو عبور کرتا ہوا حیدر آباد دکن کے علاقے میں پہنچ جاتا۔ وہاں خاموشی سے اترتا، وہاں سونے کی اینٹوں کے بکسے جہاز پر لادے جاتے اور جہاز اسی راستے سطح سمندر پر نیچی پرواز کرتا ہوا ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اتر جاتا۔
نظام دکن کے اس خزانے کے عوض پاکستان کی کرنسی کا اجراء ہوا اور بالآخر 11 ستمبر 1948 کے دن قائد اعظم کے انتقال کے اگلے روز یعنی 12 ستمبر 1948 کو ہندوستان نے کارروائی کر کے حیدر آباد دکن کی خودمختار ریاست پر قبضہ کر لیا اور نظام جو چپکے چپکے اپنی دولت پاکستان منتقل کر رہے تھے کو معزول کر دیا۔'' سفرنامے کے راوی امریکا میں مشہور زمانہ فورڈ موٹر کمپنی کے بانی ہنری فورڈ کے گھر گئے جسے اب عجائب خانہ بنا دیا گیا ہے اور اس ارب پتی کا پوتا ہنری فورڈ دوم سب مال و دولت چھوڑ چھاڑ کر نیپال ایک آشرم میں بیٹھ گیا ہے اور بھیک مانگ کر گزر بسر کر رہا ہے۔ اب اس کا نام سوامی نرائن ہنری فورڈ ہے۔ ڈاکٹر صاحب قیام جرمنی کے دوران اس گھر پر بھی گئے۔ جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال نے قیام کیا تھا۔ اس گھر کے باہر آج بھی ان کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔
کتاب کا ایک خاص موضوع معروف سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی بھی ہیں کہ جو شجر سایہ دار کی مانند ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کے قدم قدم ساتھ رہے۔ کتاب کو نقش پبلی کیشنز کراچی نے خوبصورتی کے ساتھ شایع کیا ہے۔ کتاب میں معروف دانش ور مسلم شمیم، محسن صبیح اور کتاب کے ناشر اکبر کیانی کے مضامین بھی شامل ہیں، کتاب کے سرورق پر مغلیہ دور کے مشہور کردار ملّا دوپیازہ کا خیالی پورٹریٹ ہے۔ یہ تصویر جرمنی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ کتاب ویلکم بک پورٹ اردو بازار کراچی پر دستیاب ہے۔